کالاش شدت پسندی کا اگلا ہدف؟
چترال پاکستان کی خوبصورت ترین وادیوں میں سے ایک ہے اور میدانی علاقوں کے گرمی سے ستائے لوگوں کے لیے ایک دلفریب اور پرسکون پناہ گاہ ہے۔
چترال گھومنے کے لیے آنے والوں کے لیے خوبصورت نظاروں کے علاوہ ایک اور چیز جو دلچسپی کی ہے، وہ ہے یہاں کا کالاش قبیلہ، جس کے رسوم و رواج، شوخ رنگوں کے لباس اور سادہ رہن سہن پاکستان کے باقی تمام علاقوں کے رہنے والوں سے یکسر منفرد ہیں۔
مگر کیا ہماری دلچسپی اور سیاحت کا سامان بنا ہوا یہ قبیلہ جو ہزاروں سالوں سے قائم ہے، اپنا وجود برقرار رکھ پائے گا؟
معروف سکیورٹی تجزیہ نگار خادم حسین نے روزنامہ ڈان میں کچھ ہفتے قبل ایک مضمون میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا مستقبل قریب میں چترال فرقہ وارانہ تشدد کا مرکز بن سکتا ہے؟
یہ ایک اہم سوال ہے، جس پر کم ہی بات ہوتی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ قبائلی کلچر سے نابلد، تعلیم کی اچھی شرح کے حامل اور خواتین اور اقلیتوں کے لیے برداشت کا مادہ رکھنے والے وادی چترال کے مستقبل سے خادم حسین اتنے خائف کیوں ہیں؟
یاد رہے کہ چترال نے حالیہ برس بھی پرائمری، مڈل اور ہائی اسکول کی شرحِ تعلیم کے حوالے سے پورے صوبے میں بالترتیب نمبر چار، پانچ اور سات جیسی رینکنگ حاصل کی ہے۔
وسائل اور سہولیات کے زمرے میں خیبرپختونخوا کے کسی بھی ضلع سے پیچھے رہنے والے چترال میں آج بھی طالبات کی تعلیم میں کوئی سماجی رکاوٹ نہیں ہے۔
اتنے مثبت اشاریوں کے باوجود پھر بھی شدت پسندی یہاں پیر جمانے میں کیونکر کامیاب ہوگی، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا شدت پسندی کا تعلق کم شرحِ خواندگی اور پسماندہ ذہنیت سے نہیں؟
ہوسکتا ہے کہ فاضل مضمون نگار نے غلط فہمی کی بنیاد پر اور حالات کا غلط اندازہ لگا کر ایسی پیش گوئی کی ہو لیکن سوات سے تعلق رکھنے والے مصنف زبیر توروالی کا کہنا ہے کہ خادم حسین نے سوات کے بارے میں بھی اُس وقت 'ہرزہ سرائی' کی تھی جب راوی ہر سُو چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ پھر چشمِ فلک نے جو کچھ دیکھ لیا، اُسے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔
ڈان میں شائع شدہ خادم حسین کے ارٹیکل میں درست طور پر بتایا گیا ہے کہ چترال واقعتاً ایک روشن خیال سوسائٹی کی حامل وادی ہے، لیکن اوپر اوپر سے، اندر سے شدت پسندی کی جڑیں مضبوط ہو رہی ہیں۔ کالاش قبیلے کے افراد کو کسی عجائب گھر کی زندہ مورتیاں قرار دینے کے بعد یہاں تک لکھا گیا ہے کہ چترالی سوسائٹی میں مولویوں کا کردار کافی وسیع ہوچکا ہے۔
گزشتہ دنوں وادی کالاش میں ایک نابالغ لڑکی کو زبردستی مسلمان بنا کر پھر اُس کی شادی کروانے کی خبر قومی میڈیا تک پہنچ گئی، البتہ الیکٹرونک میڈیا کو اس میں کوئی خبریت نظر نہیں آئی۔
جلد ہی چترال سے مسلمان آبادی اور کالاش قبیلے کے درمیان تصادم کی خبریں آنے لگیں۔ مقامی افراد کے مطابق کالاش قبیلے کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا، بیسیوں لوگوں کے زخمی ہونے کے بعد بالآخر پولیس نے مداخلت کی اور آنسو گیس فائر کر کے لوگوں کو منتشر کر دیا۔
مرے پہ سو دُرے کے مصداق اگلے دن مذکورہ لڑکی نے میڈیا کے سامنے پیش ہو کر "اقبالِ محبت" کر لیا اور بتایا کہ ناصرف وہ بالغ ہیں بلک اپنے فیصلے لینے میں آزاد بھی، اور یہ کہ مسلمان بن کر شادی رچانے کے اس سارے عمل میں اُس پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں تھا۔
پولیس نے واقعہ "لوچہ" میں تبدیل ہونے سے قبل ہی فوت ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا، عوام نے غیرت مند لڑکی کی ایمان افروز ہمت اور استقامت کو خراج تحسین پیش کیا مگر پولیس نے بتانے کی زحمت نہیں کی کہ حملے کے نتیجے میں کالاش قبیلے کے لوگوں کے سر پھٹے تھے تو سر پھوڑنے والے کہاں بھاگ گئے؟
کیا خون میں لت پت کالاش قبیلے کے افراد کی حفاظت پولیس کی ذمہ داری نہیں، اور کیا پولیس کو امن و امان برقرار رکھنے کو ترجیح دے کر کسی بھی واقعے سے صرفِ نظر کرنا ہوگا؟ بمبوریت کی گلیوں میں کالاش نوجوانوں کے منہ سونگھنے والی پولیس آج اُن کی خبر کیوں نہیں لے رہی؟ ادھر پریس کانفرنس کروانے والوں سے بہت سارے سوالات بنتے تھے، پر نہیں پوچھے گئے۔
کالاش قبیلے کے افراد اب تک اس بات پر بضد ہیں کہ لڑکی سے غلطی ہوئی ہے جس کا اسے احساس ہے، مگر حالات خراب ہونے کی وجہ سے اس سے فوراً پریس کانفرنس کروائی گئی۔ مزید یہ کہ 14 سال کی عمر بہت چھوٹی عمر ہے جس میں مذہب کی تبدیلی اور شادی کا فیصلہ لینا، اور اس پر یہ کہنا کہ سوچ سمجھ کر لیا گیا فیصلہ ہے، ناقابلِ فہم ہے اور اس معاملے پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
کالاش قبیلے پر دیگر دلچسپ مضامین
- کالاش اپنی پہچان کے تحفظ کیلئے کوشاں
- طالبان کی دھمکی سے کالاش قبیلہ دہشت زدہ
- سفرنامہ کالاش: اپنی ذات کا سفر
بدقسمتی سے وادی کالاش اور وادی لوٹکوہ دونوں ہی زیریں چترال میں واقع ہیں۔
زیریں چترال کا علاقہ پختون علاقے کے قریب ہونے کی وجہ سے پختون کلچر سے متاثر ہے جس میں مولوی کا اثر کافی زیادہ ہے۔ خواتین اور غیر مسلم دونوں ذمی شمار ہوتے ہیں اور زیریں چترال میں محسوس کرنے والوں کو یہ سب کچھ محسوس ہونے لگا ہے۔
چترال میں اسماعیلی مسلک کے مرکز وادی لوٹکوہ میں خواتین کا معاشرے میں فعال کردار ہے لیکن وہی دباؤ جو کالاش پر ہے، یہاں بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔
سول انتظامیہ گویا ان برادریوں کی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ اُن کے خاتمے کے لیے قائم ہے۔ وادی کالاش میں چُن چُن کر ایسے لوگوں کو تعینات کیا جا رہا ہے جو کالاش قبیلے سے نفرت کرتے ہوں۔
آئینِ پاکستان ایک غیر مسلم پاکستانی کو اپنے حساب سے جینے کا مکمل اختیار دیتا ہے لیکن چترال کی پولیس اور ضلعی انتظامیہ کالاش کمیونٹی سے یہ سب چھین چکے ہیں۔ عموماً بمبوریت پولیس اسٹیشن کا تھانیدار وہی شخص لگایا جاتا ہے جو کالاش قبیلے سے ہمدردی نہیں رکھتا۔
کالاش قبیلے کی روایات میں شراب نوشی کو برا نہیں سمجھا جاتا اور وہاں کے نوجوان اپنے تہواروں میں شراب نوشی کرتے ہیں، مگر ایک کالاش خاندان کو اپنی روایات سے زیادہ ایک پولیس انسپکٹر کا احترام کرنا پڑتا ہے۔
زیریں چترال کے قصبے 'دروش' میں حجام شیو بنانے سے معذرت کرتے ہیں۔ ایک حجام سے پوچھا کہ یہ آپ کی اپنی ترجیح ہے یا کسی کے کہنے پر داڑھی نہیں کاٹ رہے؟ جواب دینے سے قبل ادھر ادھر دیکھا اور آس پاس کوئی نہ ہونے کے باوجود جواب نہیں دیا۔
سوات کے باسی تاریخی لحاظ سے پُرامن، بدھ مذہب کیساتھ زبردست تعلق یعنی بین الاقوامی حیثیت اور پہچان، سیاحت کی جنت اور بہت کچھ ہونے کے باوجود شدت پسندی کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔
تو کیا واقعی ہماری یہ توقع بچکانہ نہیں کہ چترال میں ایسا کچھ نہیں ہوگا حالانکہ حالات واقعی اس طرف اشارہ کر رہے ہیں؟
اس مسئلے کو قومی بحث کا حصہ ضرور بننا چاہیے، نہ کہ پیالی میں طوفان کھڑا کرنے کی کوشش قرار دے کر دبا دینا چاہیے، کیونکہ اگر حالات ایسے ہی جاری رہے تو خادم حسین کی پیشگوئی جلد پوری ہوگی۔
تبصرے (1) بند ہیں