پانی کا کوئی رنگ نہیں مگر زندگی کے سارے رنگ اس بے رنگ پانی کی وجہ سے ہی ہیں۔ اس دھرتی پر جہاں جہاں سے پانی کا گزر ہوا وہاں وہاں اُن کناروں پر زندگی اپنی پوری خوبصورتی اور ایمان کے رنگ لیے اُگ پڑی۔ وہ کنارے نیل ندی کے ہوں، گنگا، سرسوتی کے ہوں یا دریائے سندھ کے، پانی نے حیات کو دوام بخشا تو انسان نے اسے عزت و تکریم دی۔
رِگ وید میں دریائے سندھ کا ذکر کچھ اس محبت اور احترام سے کیا گیا ہے: ’’اے سندھو! جب تم میدانوں سے بہتی ہو تو اپنے ساتھ بہت سی خوراک بھی لاتی ہو، تمہارا پانی اتم ہے، تمہارا حسن دلہن جیسا ہے، تم سدا جوان اور خوبصورت ہو، تم شہد دینے والے پھولوں سے ڈھکی رہتی ہو۔’’
میں جب حیدرآباد سے نکلا تھا تو سفید تیز دھوپ ہر منظر پر جیسے پگھل کر بہہ رہی تھی۔ پھر سیکھاٹ سے مشرق کی طرف نکلتے لنک روڈ پر آئے تو گھنے درختوں کی وجہ سے منظر کچھ بدل سا گیا۔ پھر درختوں نے ساتھ چھوڑ دیا اور دھوپ پگھلنے لگی۔ اور اس دھوپ میں اُڈیرو لال کا چھوٹا سا قصبہ آیا۔
28 برس پہلے جب میں یہاں آیا تھا تب اُڈیرو لال کا قلعہ نما دربار دور سے ہی دکھائی دیتا تھا۔ پر اب تو ترقی ہو گئی ہے، موبائل فونز کی دکانیں، کیلوریز سے بھری سافٹ ڈرنکس کی دکانیں، ہوٹلوں پر چلتی فلمیں اور ساتھ میں جہاں پہلے پیپل کے گھنے پیڑ ہوا کرتے، وہ اب کٹ گئے ہیں، ان کی جگہ موبائل فون کمپنیوں کے ٹاورز نے لے لی ہے، کیونکہ ہم ترقی جو کر رہے ہیں.
پھر پوچھنے پر ایک پکی گلی سے ہوتے ہوئے ہم اُڈیرو لال کی وسیع درگاہ پہنچے۔
ایک قلعے نما فصیل ہے جس کے چاروں کونوں پر مضبوط برج بنے ہوئے ہیں۔ اندر داخل ہونے کیلئے تین دروازے ہیں۔ اور یہ یقیناً شاندار دروازے ہیں جس طرح ایک قلعے کہ ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فصیل اکبر بادشاہ نے بنوائی تھی۔ اور کچھ کہتے ہیں کہ نہیں، یہ ہمایوں نے بنوائی تھی۔


ہم مشرقی دروازے سے داخل ہوئے تو دروازے کے اندر دونوں اطراف محرابی کوٹھیاں بنی ہوئی ہیں، جس طرح قلعوں میں پہریداروں کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ مگر چوںکہ یہ قلعہ نہیں تھا اس لیے وہاں کوئی پہریدار بھی نہیں تھا۔ ہاں البتہ کچھ لوگ گرمی کی دوپہر سے بچنے کے لیے ان ٹھنڈی کوٹھیوں میں بڑی گہری نیند سو رہے تھے کہ نیند بھی زندگی کی ایک عبادت جو ٹھہری۔
چونے کی سفیدی اس وسیع و عریض تعمیرات پر بکھری سی ہے، ہر دیوار سفیدی میں لپٹی ایک ٹھنڈک کا احساس دلاتی ہے۔ سامنے نیم، پیپل اور تاڑ کے درخت ہیں۔ دھوپ پگھلتی ہے اور ان درختوں کی چھائوں میں کبوتر اور کوے اپنی چونچ کھولے ان کی چھاؤں میں کچھ پلوں کے لیے بیٹھتے ہیں۔
میں درگاہ کے اندر داخل ہونے کے لیے اُن گھنٹیوں کو بجاتا ہوں جو ایک پرانی موٹی لکڑی میں بندھی ہوئی ہیں۔ میں دربار میں داخل ہوتا ہوں تو دھوپ باہر رہ جاتی ہے اور اندر ٹھنڈک کا ایک احساس ہے جو آپ کو خوشگوار لگتا ہے۔ آپ اندر جاتے ہیں تو ایک شاندار مسجد ہے، جس پر لکڑی کا انتہائی نازک و نفیس کام بڑی مہارت سے کیا گیا ہے۔ مسجد کے شمال میں درگاہ ہے اور جنوب میں ساتھ ساتھ مندر ہے۔
مسلمان یہاں نماز پڑھتے ہیں، درگاہ میں ساتھ منتیں مانگتے ہیں۔ میں مسجد کی دیوار کو ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہوں۔ اتنی مذہبی رواداری، اتنا احترام کہ آپ کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آئے گا۔ یہاں انسان ہونا ہی بہت ہے۔ یہاں اُمیدوں، تمناؤں اور احترام کا ایک ہی مذہب ہے اور وہ ہے انسانیت۔


آج سے تقریباً ڈیڑھ سو برس پہلے، اُڈیرو لال کے متعلق، رچرڈ برٹن نے یہ روایت تحریر کی تھی کہ: ’’کہتے ہیں کہ ٹھٹھہ کا ایک حکمران تھا جس کے قاضی کا نام ’آہو‘ تھا۔ اس کی ہندوؤں سے نہیں بنتی تھی، چنانچہ اس نے حکم جاری کیا کہ یا تو ہندو مسلمان ہوجائیں یا مرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ہندوؤں کو فیصلہ کرنے کے لیے کچھ دن دیے گئے۔
اب ہندو پریشان ہوگئے کہ ہمارا تو کوئی نہیں ہے، اب کیا کیا جائے۔ آخر وہ دریا کے پاس گئے، اپنا دکھڑا سنایا اور منت مانگی اور اُبلے ہوئے چاول، چینی اور دیسی گھی دریا بادشاہ کو پیش کیا۔ ان دنوں میں دریا بڑے جوش میں بہہ رہا تھا اور فریاد کرنے کی دیر تھی کہ ان لہروں میں سے ایک شہسوار سفید گھوڑے پر بیٹھا ہوا نمودار ہوا اور سیدھا اُس قاضی کے پاس گیا، اور اُسے حکم دیا کہ کشتی کے بجائے اس چادر پر بیٹھے جو اس شہسوار کے ہاتھ میں تھی۔ قاضی نہیں ڈرا اور اس چادر پر بیٹھ گیا اور ڈوب گیا۔ پھر اس شہسوار نے قاضی کو بچانے کے لیے پانچ اُنگلیاں پانی میں ڈال کر اس چادر کو نکال لیا اور قاضی بھی بچ گیا۔
"شہسوار نے لوگوں کو بتایا کہ پورے دس ماہ بعد نصرپور میں وہ ہندو عورت کے پیٹ سے جنم لے گا اور اُس کا نام اُڈیرو لال رکھا جائے گا۔ یہ شہر دریائے سندھ سے پندرہ میل مشرق کی طرف ہے۔ جب دریائے سندھ کے اوتار اُڈیرو لال نے جنم لیا تو مسلمانوں کے ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی حیران ہو گئے۔ اُنہوں نے بڑی عمر پائی، جس جگہ وہ وفات پا گئے تھے وہ جگہ حیدرآباد سے شمال کی طرف ہے، ان کی یاد اب بھی تازی کی جاتی ہے اور دریا پنتھی ان کی مزار پر ہر ماہ آتے ہیں اور چیٹ کے دیسی ماہ میں وہاں میلا لگایا جاتا ہے۔"


اس حوالے سے بہت ساری روایات ہیں جو آپ کو سُننے کو مل جائیں گی، جیسے اُڈیرو لال کا نصرپور میں پیدا ہونا اور تب تک دودھ نہ پینا جب تک دریائے سندھ کا پانی اُنہیں نہیں پلایا گیا۔ درویش کی جو تصاویر آپ کو دیکھنے کو ملیں گی اُن میں سے ایک وہ ہے جس کا تعلق ٹھٹھہ والی روایت سے ہے۔
دوسری تصویر میں وہ ’پلہ‘ مچھلی پر سوار ہیں، جو یہاں کی مخصوص معروضی حالات کی وجہ سے الگ ذائقہ رکھتی ہے۔ پلہ مچھلی کے نیچے کنول کا پھول ہے۔ کنول کا پھول آپ کو سرسوتی کے قدیم بہاؤ کی طرف لے جاتا ہے جو تقریباً دو ہزار قبل مسیح میں زلزلوں کی وجہ سے خشک ہوگیا تھا، مگر رِگ وید میں اُس کا بڑا ذکر ملتا ہے، اور جو سرسوتی کی تصویر ہے وہ کنول کے پھول پر سفر کرتی ہے۔ یہ ساری نشانیاں ہمیں پانی کی پوجا کی قدامت، پانی کی اہمیت اور افادیت کی تصویر پیش کرتی ہیں۔
رچرڈ برٹن نے ہمیں اس کتھا کا پہلا حصہ سنایا تھا، دوسرا حصہ اور موجودہ اُڈیرو لال کی دربار کے متعلق ہم جب کتابوں سے رجوع کرتے ہیں تو ہمیں اس موجودہ تعمیرات اور یہاں موجود روایات کے متعلق کچھ اور حقیقتیں مل جاتی ہیں۔
’انسائیکلوپیڈیا سندھیانا‘ میں اس حوالے سے تحریر ہے کہ: "دراصل اُڈیرو لال کا تصور قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے، جس میں یہ حقیقت پنہاں ہے کہ سارے جہان کا مدار پانی پر ہے۔ مسلمانوں نے اس خیال کو خواجہ خضر کے روپ میں محفوظ کیا۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ پلا مچھلی سکھر تک اس لیے جاتی ہے کہ خواجہ خضر کے آستانے کا سلام بھر سکے۔ سندھ میں دریا جہاں جہاں سے گزرا وہاں اُڈیرو لال کے آستان بنے اور دریا کی پوجا کا سلسلہ جاری ہوا۔ اس وقت بھی سادھ بیلو، روہڑی، نصرپور، سہون اور ٹھٹھہ میں اُڈیرو لال کے آستانے ہیں۔"


"اڈیرو لال کا آستان دریا کے کنارے تھا جہاں اب ہے، اتفاق سے اسی جگہ پر مشہور درویش شیخ طاہر کا مزار بھی تھا، جس کو اکبر بادشاہ نے ایک فصیل دلوائی۔ ایک ہندو بیدار سنگھ ولد شام داس نے اُڈیرے کے آستان کی تعمیر کروائی۔ یہ تعمیر تقریبا 1577 میں کی گئی تھی۔ موجودہ وقت اُڈیرو لال کے آستانے (مقدس کنویں اور دوسری پوجا پاٹھ کی جگہوں) کو سنبھالنے والی ایک پرہیزگار عورت ’دیوی ماتا‘ ہے۔
جھولے لال کے میلے کے موقعہ پر ایک عجیب روایت ہے کہ، اُڈیرو لال کی سمادھی کو ہندو دودھ سے نہلاتے ہیں۔ مگر اس کے بعد جو رقم اکٹھی ہوتی ہے وہ مسلمان لیتے ہیں۔ اُڈیرو لال کے مندر کی دیوار کے ساتھ مسجد ہے، سندھ میں مذہبی روادری کی یہ ایک اعلیٰ مثال ہے۔‘‘
مسجد کے جنوب میں اُس مندر کا دروازہ ہے جہاں اندر سنگِ مرمر کا خوبصورت سا مندر ہے، جہاں تین دیپک جلتے رہتے ہیں۔ ایک دیا سرسوتی کی تصویر کے آگے روشن ہے، دوسرا اس دنیا میں آنے سے پہلے اُڈیرو لال گھوڑے پر سوار ہیں اور سندھو دریا کے پانی پر کھڑے ہیں اس تصویر کے آگے، اور تیسرا دیا اُڈیرو لال کے دنیا میں آنے کے بعد کی تصویر کے سامنے جلتا ہے۔


کہتے ہیں کہ یہ دیے کبھی نہیں بجھتے۔ مندر میں دوسرے کونے پر جھولے رکھے ہیں۔ وہاں کھڑے ایک لڑکے نے بتایا کہ جب چیٹی چنڈ (مہینے کا مقامی نام جو اب تک مروجہ ہے، وہ 15 مارچ سے 15اپریل تک ہوتا ہے۔ یہ بھی روایت ہے کہ اُڈیرو لال چیٹی چنڈ کی پہلی تاریخ کو پیدا ہوئے تھے) ہوتا ہے تو جھولا اپنے آپ جھولتا ہے۔ اس لیے سائیں اُڈیرو لال کو ’جھولے لال‘ کہتے ہیں۔
جھولے لال کے ساتھ ’بیڑا پار‘ بھی کہتے ہیں جن کا تعلق پانی میں چلتی ہوئی کشتیوں کے متعلق ہے۔ مطلب کہ جھولے لال کی دعا سے کشتیاں خیر و عافیت سے کنارے پر پہنچیں گی۔ آج بھی جب بارشوں کا پانی پہلی بار دریائے سندھ میں آتا ہے تو مقامی ماہی گیر پانی کا احترام کرتے ہیں، اُس پر پھول نچھاور کرتے ہیں اور میٹھے چاول پکاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جس نے دریا بادشاہ کی مہمانی اور عزت نہ کی وہ مچھیرا ہو ہی نہیں سکتا۔
یہ احترام کا سلسلہ ہے جس کی پگڈنڈیاں صدیوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہاں پانی کا اتنا زیادہ عمل دخل رہا ہے کہ اب تک بھی دُعا کے لیے چاہے ہندو ہو یا مسلمان ’بیڑا پار‘ کا جملہ ہی کہتا ہے۔
مندر سے نکل کر مسجد سے ہوتا ہوا، درگاہ کے اندر داخل ہوا۔ یہ ایک خوبصورت، پرسکون اور ٹھنڈی درگاہ تھی، گنبد اور دیواروں پر شیشوں کی بڑی خوبصورت پچی کاری کا کام بڑی محنت اور لگن سے کیا گیا ہے۔ اس مندر اور درگاہ میں آپ کو سنگمرمر پر سنگتراشی کا انتہائی نازک و نفیس کام بھی دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ خاص کر دروازے کی چوکھٹ، چراغ جلانے کے لیے جو چھوٹی چھوٹی بند کھڑکیاں بنائی گئی ہیں اُن پر بھی انتہائی نفاست، محبت اور شفقت سے سنگتراشی کا کام کیا گیا ہے۔
درگاہ سے باہر آنگن میں پیلو کا قدیم درخت ہے۔ وہاں کے متولی غلام شبیر نے بتایا کہ پیلو کے اس درخت پر سفید پاؤڈر کی صورت میں شیرینی اُگتی ہے اور ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ اس میں دو رنگ کے ’پیروُں‘ (پیلو پر اُگنے والے پھل کا نام) اُگتے ہیں، ایک طرف سُرخ اور دوسری طرف سُفید۔


کیونکہ ان کا موسم نہیں تھا تو پیروں بھی نہیں تھے، ہاں البتہ پیلو کے گھنے اور زمین پر لیٹے ہوئے درخت میں رنگین کپڑوں کے ٹکڑے تھے جو بندھے ہوئے تھے، ہرے، سرخ، پیلے، سفید، یہ سب اُن اُمیدوں کے رنگ تھے جو باندھنے والوں نے بڑے احترام اور اُمید سے وہاں باندھی تھیں۔ پھر غلام شبیر نے وہ جوتی (چاکھڑی) بھی دکھائی جو لال سائیں پہنتے تھے۔
ہم باہر آئے تو دھوپ پہلے کی طرح ہی تیز تھی۔ میلے اور دوسرے اجتماعوں کے لیے بنے وسیع کمرے اپنی مخصوص بناوٹ میں بنے ہوئے تھے اور ویران تھے۔ بس کچھ کبوتر تھے جو ان کی چھاؤں میں آنکھیں موندے آرام کر رہے تھے۔ آخر میں ہم اُس کنویں تک آئے جس کو مقدس مانا جاتا ہے۔
بے شک سندھ کی یہ درگاہ برداشت اور رواداری کی ایک اعلیٰ مثال ہے اور گھٹن زدہ معاشرے سے نکل کر آزاد اور تازہ ہوا میں سانس لینا چاہیں، تو اس سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (11) بند ہیں