جہاں تھر میں بھوک بستی ہے، غربت نے لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے اور بچے فاقوں کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہے ہیں وہاں آج بھی ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے کوئی سوالی بھوکا نہیں جاتا۔ مٹھی شہر سے پچیس منٹ کے فاصلے پر ایک شہر اسلام کوٹ آباد ہے۔ اسی شہر میں نینو رام کا آشرم کئی دہائیوں سے قائم ہے۔
سنت نینو رام کا جنم 1898 میں ہوا۔ ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کا رجحان بچپن سے ہی انسانوں کی خدمت کرنے کی جانب تھا۔ انہیں جانوروں اور پرندوں سے کافی لگاؤ تھا۔ اسکول میں انہوں نے صرف ایک یا دو جماعت تک ہی تعلیم حاصل کی، مگر وہ شاہ عبداللطیف بھٹائی، بھگت کبیر، بلھے شاہ اور سامی کے کلام کو پڑھا کرتے تھے۔


سنت نینو رام سے جڑی ایک روایت کے مطابق ان کے والدیں نے انہیں دکان پر بٹھا دیا مگر ان کا دل کاروبار میں نہیں لگا۔ وہ نادر اور غریب لوگوں کو مفت میں سامان دے دیا کرتے تھے۔
ایک دن وہاں سے ایک قافلے کا گزر ہوا جوکہ تیرتھ یاترا پر گامزن تھا۔ وہ اپنی دکان چھوڑ کر اس قافلے میں شامل ہو گئے اور انہوں نے یہ سفر ننگے پاؤں طے کیا۔ واپس لوٹنے پر وہ راجستھان میں کیکڑ گاؤں میں پہنچے جہاں وہ گرو کنیرام کے آشرم میں رہے۔
وہاں رہنے کے بعد وہ 1935 میں واپس اسلام کوٹ لوٹ آئے اور انہوں نے پورن بھارتی مڑھی کے مقام پر اپنا ایک آستان بنا لیا، جسے آج سنت نینو رام آشرم کہا جاتا ہے۔


کسی زمانے میں سندھ کے بیراجی علاقوں میں جانے والے لوگ اپنے مویشیوں کے ساتھ یہاں پر ڈیرا ڈالتے تھے جہاں ان کے جانوروں کو پانی اور چارہ جبکہ مسافروں کو کھانا ملتا تھا۔
اپنے اس آشرم کو مزید بہتر کرنے کی خاطر انہوں نے وہاں کے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ بھی اس کار خیر میں ان کا ساتھ دیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بھوکے لوگوں کو کھانا مل سکے۔
آج اس آشرم میں لوگوں کو تین وقت کا کھانا ملتا ہے، کسی بھی وقت آپ چلے جائیں، آشرم میں موجود خدمتگار آپ کو کھانا کھائے بغیر جانے نہیں دیں دیتے۔ یہ آشرم کی کئی برس پرانی روایت ہے جو آج تک چلی آ رہی ہے۔ مگر یہ آشرم صرف انسانوں کی بھوک نہیں مٹاتا بلکہ یہاں پرندوں اور جانوروں کے لیے بھی پانی اور کھانا رکھا جاتا ہے۔


نینو رام کے آشرم میں اس وقت ساٹھ کے قریب گائے اور دوسرے مویشی ہیں، جن کا دودھ بیچا نہیں جاتا بلکہ وہاں پر آنے والے لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہاں پرندوں کے لیے موجود دانہ بھی یہاں کے باسی دان کرتے ہیں۔ یہاں پر اگر کوئی بھی شہری نینو رام کے آشرم پر امداد یا عطیہ دیتا ہے تو وہ نہ تو اپنا نام لکھواتا ہے اور نہ ہی اپنا پتہ بتاتا ہے، بس ایک عبارت تحریر کی جاتی ہے ''نینو رام نے دیا نینو نے لیا'' اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ اپنی سخاوت کو ظاہر کرنے کی ہوس میں مبتلا نہیں ہیں۔


نینو رام صرف ایک آشرم ہی نہیں بلکہ عبادت گاہ بھی ہے، جہاں بھجن گائے جاتے ہیں، دیگر تہوار بھی منائے جاتے ہیں۔ علاقے میں آس پاس لگنے والے میلوں سے قبل یہاں پر زائرین حاضری ضرور بھرتے ہیں۔
نینو رام کی سمادھی کے عقب میں آگ جلانے کے بعد ہی کسی یاترا پر روانگی ہوتی ہے۔ جس جگہ پر یہ آگ جلائی جاتی ہے اسے ''دھونی سروپ'' کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہی عقیدتمند لوگ میلوں اور دیگر مذہبی تہواروں کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔
نینو رام کے آشرم میں پوجا پاٹ کا بھی مکمل بندوبست ہے۔ ان کے جنم دن اور برسی پر یہاں خوب میلا سجتا ہے۔
آشرم میں ہندو مذہب کے دیوتاؤں اور دیویوں کی مورتیاں بھی موجود ہیں۔ ان میں شو کی مورتی، شیراں والی ماتا کی مورتی اور ہنومان کی مورتیاں آپ کو نظر آ جائیں گی۔


نینو رام کے زیر استعمال جو بھی اشیاء تھیں، انہیں اب بھی محفوظ رکھا گیا ہے۔ تا کہ جو لوگ اس آشرم میں آئیں وہ ان کی سادہ زندگی کے بارے میں جان سکیں۔ یہاں پر اس زمانے کا کنواں بھی موجود ہے جب نینو رام نے آشرم قائم کیا تھا۔
آشرم میں لوگوں کے لیے لنگر ہر وقت تیار رہتا ہے۔ کھانا کھلانے کے لیے آشرم کا ایک بہت بڑا حصہ مختص کیا گیا ہے جہاں سب مل کر کھانا کھاتے ہیں۔ آج اس آشرم کو لوگ دور دور سے دیکھنے آتے ہیں اور جب انہیں پتا چلتا ہے کہ یہ آشرم کسی سرکاری مدد کے بنا ہی چل رہا ہے تو انہیں نینو رام سے لوگوں کی عقیدت کا احساس ہونے لگتا ہے۔


پرندوں کے لیے نہ صرف خاص چارہ وہاں موجود ہوتا ہے بلکہ روٹی کے ٹکڑے بھی ان پرندوں کے لیے رکھ دیے جاتے ہیں۔ آشرم میں جگہ پرندوں کے لیے پانی مٹی کے برتنوں میں ہر وقت دستیاب ہوتا ہے۔ وہاں میں نے پانی کے کسی بھی برتن کو خالی نہیں دیکھا اور جہاں پرندوں کے لیے چارہ ڈالا جاتا ہے وہاں وہ فرش بھی چارے سے بھرا ہوا تھا۔
مجھے آشرم میں جس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھی کہ یہاں پر آنے والے ہر شخص کو صرف ایک بھوکا اور پیاسا انسان ہی تصور کیا جاتا ہے۔ نہ اس شخص سے اس کا مذہب پوچھا جاتا ہے اور نہ ہی رنگ و نسل کے تقاضے ہوتے ہیں۔



مجھے یہاں لوگ بھی پرندوں کی مانند محسوس ہوئے جو کہ اپنی بھوک اور پیاس بھجانے دور دور کی مسافتے طے کر کے یہاں آتے ہیں۔
ایک صحرا میں جہاں لوگ کھانے کو ترستے ہیں۔ وہاں آج اس آشرم سے ہزاروں لوگ اپنی بھوک پیاس کو ختم کر رہے ہیں، نینو رام کے آشرم پر پہنچتے ہی صحرا کے باسیوں کو کھانے کی خوشبو ان کے قلب کو سکون فراہم کرتی ہے۔
کوئی یہ تو نہیں جانتا کہ اب تھر میں کوئی نینو رام جیسا انسان پیدا ہوگا یا نہیں مگر ان سرکاری ذخیرہ اندازوں کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں جو دن بہ دن پیدا ہوتے جا رہے ہیں اور سرکاری سطح پر لوگوں کے منہ کا نوالہ چھیننے میں دیر نہیں کرتے۔
آج بھی تھر میں انتہا درجے کی بھوک ہے۔ مائیں آج بھی غذائی قلت کی وجہ سے صحمتند بچے پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ اس حالت میں کیا کوئی نینو رام بن سکتا ہے۔ جس کے آشرم سے آج تک کوئی بنا کھائے پیے نہیں لوٹا۔
آج نینو رام نہیں رہے مگر ان کے بنائے آشرم کی وجہ سے نہ جانے کتنے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ میں نینو رام کی سمادھی کے سامنے کھڑا ہو کر سوچنے لگا کہ کاش آج بھی ایسے لوگ پیدا ہوتے ہوں جنہیں اس بات کا احساس ہو کہ خود کو آسائشوں میں رکھنے سے بہتر ہے کہ انسان ذات کی خدمت کی جائے اور لازوال خوشیوں کو حاصل کیا جائے.

اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس akhterhafez@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تبصرے (11) بند ہیں