سری نگر سے ایک خط: ظلم کی رات کب ختم ہوگی؟
''وہ کمر کے اوپر، سیدھا سینے میں، یہاں تک کہ سر میں بھی گولیاں مار رہے ہیں۔ یہ ہسپتال بھی میدان جنگ ہے۔''
یہ الفاظ سری نگر میں واقع سورا ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کے ہیں جہاں میں رضاکارانہ خدمات انجام دے رہا ہوں۔ اس وقت اس ہسپتال میں سری نگر کے جنوب میں واقع ایک علاقے قائمو سے ایک لڑکے کو لایا گیا ہے۔ اس کے جسم پر جا بجا چھروں کے نشان ہیں اور اس کی دائیں آنکھ پھوٹ چکی پے۔ اسے تکلیف کی شدت سے تڑپتا دیکھ کر میں نے بمشکل اپنے آنسو روکے۔
ڈاکٹر کے مطابق اب وہ کبھی بھی اپنی ایک آنکھ سے نہیں دیکھ پائے گا کیونکہ ایک چھرے کے خول نے اس کی آنکھ پھاڑ دی تھی۔
چھروں والی بندوقوں کو 'غیر مہلک' سمجھا جاتا ہے مگر کشمیر میں تو ایک فوجی بوٹ تک بھی لوگوں کی جان لے سکتا ہے۔
ہندوستانی افواج کی جانب سے علاقے کے محاصرے کے بعد تیسرے دن بھی انٹرنیٹ معطل ہے۔ جنوبی کشمیر میں ٹیلی فون لائنز بند ہیں، 25 لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا جاچکا ہے اور سینکڑوں زخمی ہیں۔
اس تمام افراتفری کے بیچ کشمیریوں نے ایک بار پھر اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ وہ فولادی ارادے رکھنے والے عوام ہیں۔ ہسپتال میں قریبی علاقوں سے تعلق رکھنے والے رضاکار سوپ کچن چلا رہے ہیں تاکہ لوگوں کو کھانا فراہم کیا جا سکے۔ مقامی محلہ کمیٹیوں کی جانب سے شروع کیے گئے سوپ کچن لوگوں کو تین وقت کا کھانا فراہم کرنے کے ساتھ درمیان میں چائے بھی پیش کرتے ہیں۔
ہسپتال کے قریبی علاقوں کے مکین وہاں اپنے ساتھ تھیلوں میں چاول، دالیں اور پانی بھر لائے ہیں، سینکڑوں لوگ خون کے عطیات دینے قطار میں کھڑے ہیں۔ اردگرد درجنوں ایسے رضاکار ہیں جو زخمیوں کو اٹھا رہے ہیں اور ان کے گھروالوں کو تسلی دے رہے ہیں۔
اسٹریچر پر ایک خاتون کو ہسپتال لایا گیا اور فوراً ہی ایمرجنسی وارڈ منتقل کردیا گیا۔ وہ ضلعہ بارہ مولہ کے شہر سوپور میں زخمی ہوئی تھیں۔ ہم جیسے ہی ان کی نگہداشت کر کے بیٹھے تو اتنے میں ایک اور متاثرہ شخص کو لایا گیا۔ ان کا تعلق بھی بارہ مولہ سے تھا۔ ہسپتال کا دروازہ بس جیسے زخمیوں اور ہلاک شدگان کی آمد کا منتظر ہے۔
سوپ کچن کے رضاکار ہر دم کمر بستہ نظر آ رہے ہیں۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ''کوئی بھی بھوکا نہیں رہنا چاہیے۔ کچھ زخمیوں کے ساتھ ان کے گھر والے نہیں ہیں اس لیے ہمیں ان کے ساتھ رہنے کی ضرورت ہے۔''
میرے سامنے ایک 15 سالہ لڑکا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگیا۔ اس وقت رات کا اندھیرا پھیل گیا تھا مگر باہر خون بہنے کا سلسلہ رکا نہیں تھا۔ آنسو گیس فائر کرنے کی آوازیں خاموشی کو چیرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔
ہلاک ہونے والے لڑکے کے دوستوں نے ہسپتال میں ہی ٹھہرنے کا فیصلہ کیا، اور لاش کو صبح گھر لے جانے کا ارادہ کیا۔
''اگر ہم ابھی جائیں گے تو صورتحال اور بھی کشیدہ ہو جائے گی۔ ہم صبح تک کا انتظار کریں گے۔''
باہر کھڑی ایمبولینسوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے ہیں۔ ہسپتال کا طبی عملہ باہر پھیلی دہشت ناک صورتحال کو بیان کر رہا ہے جو انہوں نے ہندوستان کی ظالمانہ فوج کے محاصرے سے گزرتے ہوئے دیکھی۔ ان کو آگے جانے سے روکا گیا، ان کو ڈرایا دھمکایا گیا اور یہاں تک کہ انہیں حراساں بھی کیا گیا، مگر وہ ہسپتال کی طرف لوٹنے میں کامیاب رہے۔
جب بھی کوئی زخمی ہسپتال کے اندر لایا جاتا ہے تو ایک عورت جذباتی ہو کر کہتی ہے کہ: ''یہ میرے اپنے ہیں۔''
ہسپتال میں ڈاکٹرز جانفشانی سے ایک لمحہ بھی رکے بغیر کام کر رہے تھے۔ میں نے ان میں سے ایک کو میڈیا سے بات چیت کرنے کو کہا تو انہوں نے مجھے جھڑک دیا: ''آپ کو نظر نہیں آ رہا ہم کتنے مصروف ہیں؟ یہاں لوگ گولیاں لگنے کے باعث زخمی ہیں، ان چیزوں کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔''
میں سانس لینے کے لیے عمارت سے باہر نکلتا ہوں تو میرا پرانا دوست سامنے کھڑا ہے، اور ہلاک ہونے والے افراد کی کہانیاں بتانے لگتا ہے۔ اندھیرا ہونے لگا ہے لہٰذا میں گھر جانا چاہتا ہوں۔ میرے فون پر امی کے نمبر سے 15 مسڈ کالز لگی ہوئی ہیں۔
ہم وہاں سے نکلنے لگتے ہیں تو اتنے میں کہیں سے ایک پولیس وین آتی دکھائی دیتی ہے۔ لوگ گرفتار ہونے کے ڈر سے علاقے سے بھاگنے لگے۔ وین کا دروازہ کھلا اور ایک بندہ اندر داخل ہوگیا — شاید وہ ایک مخبر ہو جو وہاں زخمیوں کے نام اکٹھے کرنے اور ان کے گھروں کے پتے نوٹ کرنے کے لیے آیا تھا۔
مجھے خوف ہے کہ ان افراد سے پولیس بعد میں 'نمٹے گی۔'
احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں اور لوگ رکاوٹیں پھلانگ رہے ہیں۔ وہ پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کر رہے ہیں۔ ایک بوڑھا شخص چلاتا ہے،
‘’ہمارے بچوں کو گولیاں لگی ہیں۔ ان کی ہمت کیسے ہوئی اندر آنے کی!''
ہسپتال بھی محفوظ نہیں ہیں۔
جیسے ہی وین ویاں سے گئی، تو دو مزید ایمبولینسیں وہاں آ پہنچیں۔ پولیس کی فائرنگ سے دو افراد کو گولیاں لگی تھیں۔
کہیں دور آزادی کا نغمہ تیز آواز میں گونج رہا تھا۔ کوئی شخص 'آزادی' گا رہا تھا، وہی نغمہ جس سے ہم سب آشنا ہیں۔
ایک اور ایمبولینس زخمی کو لے آئی ہے۔
میں گہری سوچ میں ہوں، "آخر یہ اندھیری رات کب ختم ہوگی؟"
کل تک ہلاک شدگان کی تعداد 34 تک پہنچ گئی ہے جب کہ 1500 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ میں ایک اور ہسپتال پہنچا۔ ایک زخمی نیم فوجی اہلکار کو اندر لایا جاتا ہے جسے دیکھ کر سب حیرت میں ہیں کہ ماجرا کیا ہے۔
میں ایک بوڑے شخص سے ملا جنہیں لاٹھیوں سے اتنا مارا گیا ہے کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہے۔
ایک 24 سالہ لڑکی سے ملا۔ ایک چھرا ان کی ریڑھ کی ہڈی میں لگا ہے جس سے وہ مفلوج ہوگئی۔
وارڈ 16 کے کونے میں ایک 10 سالہ بچہ بیڈ پر پڑا ہے، اور کمرے میں کھانا اور پانی فراہم کرنے والے رضاکاروں کو دیکھ رہا ہے۔ اس بچے کے اندر اب بھی چھرے پھنسے ہوئے ہیں۔ اس جیسے سینکڑوں لوگ ہسپتالوں میں موجود ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر لوگوں کے جسموں میں یہ چھرے ہمیشہ رہیں گے کیونکہ یہ ان کے اعضاء میں کافی گہرائی تک اتر گئے ہیں۔
بچے کا بھائی اس کے سرہانے بیٹھے بیٹھے سو گیا ہے۔ ان لوگوں کے لیے راتیں پہلے سے بھی زیادہ اندھیری اور طویل ہو چکی ہیں۔
ایک اور وارڈ میں ایک عورت تیزی سے اندر آتی ہے اور کشمیری زبان میں کہتی ہے، "اس کی حالت خراب ہے۔"
عورت کے بیٹے کا اضطراب ناقابلِ برداشت ہے۔ اس کا باپ اسے دلاسہ دیتا ہے کہ اس کی طبیعت جلد ٹھیک ہوجائے گی۔ دونوں والدین اپنے بچے کو دیکھنے کے لیے بھاگتے ہیں۔
کیا یہ ظلم کبھی ختم ہوگا؟
صبح کو جب میں ہسپتال جانے کے لیے اپنے گھر سے نکلتا ہوں تو میں نوجوان رضاکاروں سے کہتا ہوں کہ وہ آس پاس کے گھروں سے سورا کے سوپ کچن کے لیے اشیاء اکٹھی کریں۔ وہ اپنی بوریاں اٹھاتے ہیں اور دروازوں پر جانا شروع کرتے ہیں۔ رضاکاروں کے ساتھ ایک ہندوستانی تارکِ وطن بھی ہے۔ وہ بوریوں کا منہ کھولتا ہے اور لوگ اس میں پیالہ پیالہ چاول ڈالنا شروع کرتے ہیں۔
ہسپتال کے باہر سینکڑوں رضاکار موجود ہیں۔ نوجوان اور بوڑھے کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہسپتال پہنچ رہے ہیں۔ ان میں سے کئی افراد نے خون کا عطیہ کیا ہے اور کئی روز سے سوئے بھی نہیں ہیں۔ دوسروں نے یا تو دوائیں عطیہ کی ہیں یا سوپ کچنز میں رضاکاری کی ہے۔ وہ زخمیوں کو خون آلود اسٹریچرز پر ڈالتے ہیں اور انہیں باتیں کر کے دلاسہ دیتے ہیں۔
یہی لوگ کشمیر کی پہچان ہیں۔
چھوٹے بچے خون عطیہ کرنے بلڈ بینک جاتے ہیں مگر انہیں کم عمر کہہ کر واپس لوٹا دیا جاتا ہے۔
ہمارے دل ماتم کناں ہیں مگر ہم ہمت نہیں ہارتے۔ ہم وہ سرد راتیں بھی دیکھ چکے ہیں جب ہمیں برف پر رینگنے کے لیے کہا گیا تھا۔ ہم نے تھکا دینے والے کریک ڈاؤن بھی دیکھے ہیں۔ ہم نے لانگ مارچوں میں لوگوں کو پانی بھی پلایا ہے۔ ہم نے ان لوگوں کو کھانا بھی کھلایا ہے جن کے گھر جلا دیے گئے تھے۔ ہم نے انہیں اس قبضے کی بربریت سے بچانے کے لیے کام کیا ہے۔ ہم نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب سیلاب نے ہمارے گھر تباہ کر دیے تھے۔
اب ہمارے سامنے یہ وقت ہے۔
جب ریاست ناکام ہوجائے تو ہم ریاست ہیں۔
ان لمحوں میں، گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور بمشکل سانس لینے کی آوازوں کے درمیان بھائی چارے کا ایک احساس ہے جو ہمیں متحد کرتا ہے۔ ہم آزادی کے مقصد کے لیے متحد ہیں۔
آج اس ہسپتال میں میں کشمیری ہونے پر فخرمند ہوں، اتنا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا نہیں تھا۔
یہ ہم ہیں، یہ ہمارا عزم ہے۔ ہم کشمیری ہیں اور ہم ناقابلِ فتح ہیں۔
محمد فیصل سری نگر میں پیدا ہوئے۔ وہ ہیومن سائنسز کے طالب علم ہیں۔ بلاگر ہیں اور کھیلوں میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: @_faysal
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تبصرے (3) بند ہیں