• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

میرے دوست نوید اور پاکستان میں کیا مشترک ہے

شائع December 12, 2017
پاکستان کی طرح ہی نوید کبھی بھی اپنی جان کے اندر چھپی صلاحیتوں سے مطمئن نہ تھا — خاکہ خدا بخش ابڑو
پاکستان کی طرح ہی نوید کبھی بھی اپنی جان کے اندر چھپی صلاحیتوں سے مطمئن نہ تھا — خاکہ خدا بخش ابڑو

1980ء کی دہائی کے وسط اور آخر میں، میں کراچی کے جس کالج میں زیرِ تعلیم تھا، اُس کی کرکٹ ٹیم کا اکثر اوپنر میں ہی ہوتا اور حسبِ معمول میرا اوپننگ پارٹنر نوید نامی ایک لڑکا ہوا کرتا تھا۔

نوید ایک بہترین بیٹسمین اور مجھ سے کہیں زیادہ ہنرمند کھلاڑی تھا۔ وہ اپنے اندر کافی مضبوط دفاعی تکنیکیں رکھتا تھا۔ باؤلرز کے لیے اُسے آؤٹ کرنا انتہائی مشکل ہوتا تھا۔ میں نے بھی اُس کی ہی تکنیکوں کو اختیار کیا، مگر مشکل پچ پر اُن تکنیکوں کو قائم رکھنے میں مجھے سخت محنت بھی کرنی پڑتی تھی، لیکن پھر بھی میں اُس سے زیادہ میچز کھیلنے میں کامیاب رہا۔

نوید جب ٹھہر کر کھیلتا تو بہترین بیٹنگ کر رہا ہوتا مگر اُس کے ساتھ ایک مسئلہ تھا کہ بعض اوقات اچانک ہی وہ اپنی جگہ سے آگے نکل کر کھیلتا، گیند کو زور سے مارتا اور انتہائی بُرے انداز میں آؤٹ ہوجاتا تھا۔

ہمارے کپتان نوید کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اُسے مسلسل یاد دلاتے رہتے کہ دفاعی بیٹنگ اور وکٹ پر جمے رہنا ہی اُس کی اصل خوبی ہے۔

نوید صرف سر ہلاتا اور پھر اُسی انداز میں بیٹنگ کی شروعات کرتا۔ وہ ایسا تاثر دیتا کہ وہ وہاں رُک کر کھیلنے کے لیے آیا ہو مگر اُس دوران اچانک ہی باہر نکل کر کھیلنا شروع کردیتا اور کبھی چھکا تو کبھی چوکے کے لیے گیند کو باؤنڈری لائن کے پار پھینکتا، لیکن یہ اچھی قسمت ہر بار اُس کے ساتھ نہیں ہوتی، بلکہ وہ اکثر اوقات بڑا شاٹ لگانے کے چکر میں کیچ آؤٹ ہوتا یا پھر بولڈ یا اسٹمپ آؤٹ ہوجاتا تھا۔

ایک بار ایک بڑے انٹر کالج ٹورنامنٹ میں اُسے لگاتار ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا، جس پر تو وہ افسردہ سا ہوگیا۔ میں اور میرے کپتان اُسے حلیم کھلانے کی غرض سے اپنے ساتھ کراچی کے برنس روڈ پر لے آئے۔

کپتان نے نوید سے کہا کہ:

’نوید تم سمجھو کہ تم باؤلرز پر اٹیک کرنے والے ویسٹ انڈیز کے سابق بیٹسمین ویو رچرڈز نہیں بلکہ دفاعی تکنیک کی وجہ سے مشہور انگلینڈ کے سابق کپتان جیفری بائیکاٹ ہو۔‘

لیکن نوید کو یہ سب سن کر بالکل بھی خوشی نہیں ہو رہی تھی کیونکہ اُسے بائیکاٹ نہیں بلکہ رچرڈز پسند تھے۔ اُس نے مجھے ایک بار بتایا تھا کہ ’مجھے جارحانہ اور اپنی جان سے بڑھ کر کھیلنا پسند ہے۔‘

میں نے جلد ہی اُس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ

’مگر تم جب اپنی خوبیوں اور اپنی حقیقی صلاحیتوں کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہو تب ہی بہترین کھیل کا مظاہرہ کرتے ہو اور وہ صلاحیتیں تمہاری جان کے اندر میں ہی ہیں۔‘

مگر نوید پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ایک بار اُس نے چالیس اوورز کے میچ میں 32 اوورز تک وکٹ پر کھڑے ہو کر زبردست سنچری بنائی۔ مگر اگلے دو میچز میں پھر اُس نے رچرڈز کی طرز پر کھیلنے کی کوشش کی۔ وہ اِس طرزِ عمل میں بہتر کھیل کا مظاہرہ نہیں کر پایا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُسے دوبارہ ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا اور اُس نے غصے میں آکر ٹیم کو ہی چھوڑ دیا۔

میں اُس سے 3 سال بعد 1990ء کی آخر میں کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ملا۔ میں نے اُسے پاکستان کے ٹیسٹ اوپنر شعیب محمد کی جانب سے ڈانٹ کھاتے ہوتے ہوئے دیکھا۔

شعیب محمد نوید کو کہہ رہے تھے کہ اُس کی تکنیکیں انتہائی مضبوط ہیں اور اگر وہ اپنی خوبیوں سے وکٹ پر جما رہے اور اپنی صلاحیتوں کو سمجھے تو اُس میں اتنی قابلیت ہے کہ وہ ایک دن پاکستان کرکٹ ٹیم تک اپنا راستہ بنا سکے گا۔

2014ء میں نوید سے میری دوبارہ ملاقات ہوئی۔ اِس بار ہم اسلام آباد میں تھے۔ اُس کے ساتھ ہماری کالج ٹیم کا رکن عارف بھی تھا۔ اُس وقت ہم سب اپنی عمر کی چوتھی دہائی میں تھے۔ جہاں میں نے 1990ء کی دہائی کی ابتداء میں صحافت کے پیشے کو اختیار کرلیا تھا تو وہاں نوید کینیڈا کوچ کرنے میں کامیاب رہا تھا۔ کینیڈا میں اُس نے کینیڈین کرکٹ ٹیم میں جگہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔

وہ 2000ء میں کینیڈین ٹیم میں سلیکشن کے لیے کوالیفائی ہوا اور پُرامید تھا کہ جنوبی افریقا میں 2003ء کے ورلڈ کپ کے دوران اُس ملک کی نمائندگی کرے گا، لیکن وہ ٹیم کا حصہ نہیں بن سکا۔

عارف نے مجھے بتایا

’وہاں بھی بائیکاٹ صاحب رچرڈز بننے کے چکروں میں تھے۔‘

بظاہر تو کینیڈین کوچ کو اُس کی تکنیکیں پسند آئیں، مگر کوچ اُس کی اچانک لاپرواہ جارحانہ بیٹنگ کو سمجھ نہ سکے۔ عارف نے مجھے بتایا جو کینیڈا میں نوید کے ساتھ تھا کہ کوچ بالوں کو نوچتے ہوئے چلا کر کہتے کہ

’تم ایک نہایت فطری زبردست بیٹسمین ہو، تم وہ کیوں بننا چاہتے ہو جو تم ہو ہی نہیں؟ تم رچرڈز نہیں ہو! اپنی خوبیوں کو جانو۔ یہ خوبیاں ہی تمہاری اصل طاقت ہیں۔‘

نوید جو کہ 2002ء میں کرکٹ ترک کرچکا تھا اور ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں بطور کِری ایٹو اگزیکیٹو کام کرنے کی غرض سے پاکستان لوٹ آیا تھا، اُس نے ہنستے کہا کہ

’کوچ کو کیا معلوم تھا؟ میرے اصل اسٹائل کو تو بڑھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔‘

اب میں اپنے بال نوچنا چاہتا تھا۔

اِسی طبیعت کی وجہ سے نوید، جو کہ مونٹریال، کینیڈا سے ایم بی اے مکمل کرچکا تھا اور اُسے ایک 'فطری مارکیٹنگ والا بندہ' تصور کیا جاتا تھا مگر اُس نے ایک کینیڈین ہوٹلز کی چین میں نفع بخش ملازمت چھوڑ دی تھی کیونکہ اُس کا ماننا تھا کہ مارکیٹنگ میں وہ اتنا ماہر نہیں جتنا تخلیقی کاموں میں ہے۔

وہاں کئی ایڈورٹائزنگ ایجنسیز کو اپنی 'تخلیقی' صلاحیت سے متاثر کرنے میں ناکام ہونے کے بعد وہ پاکستان لوٹ آیا اور اسلام آباد کی ایک ایجنسی میں بطورِ اسسٹنٹ کری ایٹو ڈائریکٹر کی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔

جب میں اُس سے ملا تو وہ کینیڈا واپس لوٹنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ ایسا وہ اِس لیے نہیں کررہا تھا کہ اُس کی بیوی اور بچے اب بھی کینیڈا میں رہتے تھے بلکہ عارف نے مجھے بتایا کہ ایجنسی والوں نے نوید کو اُن کے کلائنٹ سروسنگ شعبے میں کام کرنے کو کہا تھا، کیونکہ اُس میں تخلیقی صلاحیت اتنی خاص نہ تھی۔ اُس کے باسز اُس میں مارکیٹنگ کی صلاحیتوں کو دیکھ پا رہے تھے۔

مگر نوید نے دوسرے شعبے میں جانے سے انکار کردیا تھا۔ اُس نے کچھ زبردست مارکیٹنگ کی حکمت عملیوں کو تیار کیا لیکن پھر اُس نے خود کو تخلیقی مہمات کی طرف بھیجنے پر اصرار کیا۔ جس میں وہ کافی خراب تھا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ میں ایک پرانے دوست کی زندگی پر کیوں لکھ رہا ہوں جس کی زندگی میں ایسا کوئی خاص غیر معمولی پہلو بھی نہیں ہے؟

تو جناب، ایک سال کے بعد نوید کینیڈا لوٹ آیا تھا۔ میری عارف سے دوبارہ اتفاقاً ملاقات ہوئی اور اِس بار یہ ملاقات لاہور جانے والی پرواز میں ہوئی تھی۔ ہماری گفتگو جلد ہی نوید کے موضوع پر آگئی تھی۔

گفتگو کے دوران عارف نے کافی دلچسپ بات کہی

’یار نوید بھی پاکستان جیسا ہے۔ وہ کبھی اپنی خوبیوں کو پسند نہیں کرتا بلکہ اُن سے شرمسار ہوتا ہے۔‘

میں نے اُسے بات جاری رکھنے کو کہا اور عارف نے مزید کہا کہ

’نوید اپنی صلاحیتوں سے باخبر نہیں ہے، بلکہ ہمارے ملک کی طرح ہی اُس نے بھی اُن صلاحیتوں سے ناواقف رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ یہ صلاحیتیں اُسے ناگوار محسوس ہوتی ہیں۔‘

’وہ کچھ ایسا بننا چاہتا ہے جو وہ بن نہیں سکتا کیونکہ اُس میں اِس قابل خوبیاں ہی نہیں ہیں۔‘

’وہ جو بننا چاہتا ہے، ویسا بننے کے تخیل کو اپنی مشعلِ راہ بنا کر اپنی بہترین خوبیوں کو بھی قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔‘

’وہ ایک جارحانہ بیٹسمین بننا چاہتا تھا جبکہ وہ مضبوط دفاعی صلاحیتوں کا حامل تھا۔‘

’وہ ایڈورٹائزنگ کا تخلیقی گرو بننا چاہتا تھا جب کہ اُس کے اندر مارکیٹنگ منصوبے تیار کرنے کی زبردست صلاحیت موجود تھی۔‘

’پاکستان کی طرح ہی نوید کبھی بھی اپنی جان کے اندر چھپی صلاحیتوں سے مطمئن نہ تھا۔ تاہم وہ ایسا کچھ بننے کے پیچھے پڑا رہا جو وہ تھا ہی نہیں، اِس لیے نوید وہ کچھ بھی کھو بیٹھا جس میں وہ بہترین تھا۔‘

میں نوید کا ای میل ایڈریس حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور اُسے اِسی انداز میں سمجھایا جیسے عارف نے سمجھایا تھا۔

اُس کا جواب کچھ یوں تھا کہ

’ہاہا۔ میں بھلا پاکستان کس طرح ہوسکتا ہوں جبکہ میں تو ایک امریکی شہری ہوں؟‘

وہ امریکی شہری نہیں ہے، وہ اب بھی کینیڈین ہے۔ اِس بار میں نے واقعی اپنے بالوں کو نوچا۔

یہ مضمون 10 جولائی 2016 کو ڈان سنڈے میگزین میں شایع ہوا۔

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Asif Rehan Dec 12, 2017 09:13pm
I don't understand if I like your English articles or Urdu.
Princess Dec 13, 2017 12:36am
Shoq da koi mul nai !!!

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024