لُنڈے کے ڈرامے
استعمال شدہ جوتوں اور کپڑوں کی طرح اب غیر ممالک کے فالتو اور استعمال شدہ ڈرامے بھی پاکستان کی لنڈا مارکیٹوں میں دستیاب ہیں جنہیں پاکستان کے ڈرامہ چینل مالکان کوڑیوں میں خرید کر کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔
اس دھندے کا آغاز دوبئی سے نشر ہونے والے چینل اردو 1 نے کیا اور ترکش ڈراموں کو اردو میں ڈب کر کے پاکستانی عوام کے سامنے پیش کیا۔ پاکستان کی عوام ترکی کی سنہری بالوں والی دوشیزائیں اور کنچی آنکھوں والے ہیروز کو اردو بولتا دیکھ کر دنگ رہ گئے اور عشق ممنوع کامیابی کی ساری سیڑھیاں طے کرتا ہوا شہرت کے آسمان پر پہنچ گیا۔
بس پھر تو لائن لگ گئی چند ایک کو چھوڑ سارے چینلز کے ارباب اختیار لنڈا مارکیٹ پہنچ کر اپنی اپنی پسند کے ڈرامے چھانٹنے لگے۔ یہ ڈرامے انہیں 70 سے 80 ہزار روپے تک مل جاتے ہیں. باقی 30 سے 40 ہزار روپے اس کی اردو ڈبنگ اور دوسری ٹیکنیکل چیزوں پر خرچ ہوتے ہیں۔
لاکھ سوا لاکھ میں بن جانے والے ترکی ڈرامے کی قسط کو کم سے کم دس سے بیس لاکھ کے ایڈز مل جاتے ہیں ہمارے چینل مالکان کے تو وارے نیارے ہو گئے! کیونکہ لوکل بننے والے سوپ کی ایک قسط انہیں ڈھائی سے تین لاکھ روپے میں پڑتی ہے۔
پاکستان کی نومولود ڈرامہ انڈسٹری ہوا کے یہ رنگ دیکھ کر گھبرا گئی اور پرائیویٹ پروڈیوسرز اور فنکار برادری نے ان ڈراموں کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔
بہرحال ان کے احتجاج پر چینل مالکان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی بلکہ کچھ چینلز نے تو ٹرکش اور انڈین ڈراموں کے لئے علیحدہ چینلز کھول دئیے اور لنڈا کے ڈراموں کا دھندا اپنے عروج پر پہنچ گیا۔
پروڈیوسرز اور اداکاروں کے واویلے کی کچھ آوازیں موجودہ وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب تک بھی پہنچ گئیں۔ وہ تو شکار ہی ایسے ڈھونڈ رہے تھے جو پاکستان میں چاروں ہاتھ پاؤں سے کھا رہے ہیں اور ڈکار تک نہیں لے رہے۔ انہوں نے موجودہ بجٹ میں غیر ملکی ڈرامے پر فی قسط ایک لاکھ روپے کا ٹیکس لگا دیا اور ملکی اور غیر ملکی ڈرامے کی لاگت کو تقریباً برابری کی سطح پر لے آئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترکش ڈرامے کیا واقعی ہماری ڈرامہ انڈسٹری کے لئے خطرہ بن چکے ہیں؟
میرا خیال ہے ہمارے دوستوں نے ترکش ڈراموں کا واویلا کچھ زیادہ ہی مچا دیا ہے۔ ترکش ڈراموں اور انڈین ڈراموں کی یلغار کے باوجود ہمارے لوکل بننے والے ڈاموں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے بلکہ کچھ اضافہ ہی ہوا ہے۔
ایک ٹی وی مورننگ شو میں مشہور ٹی وی ایکٹریس نائلہ جعفری نے کہا کہ مجھے تو ترکش ڈرامے بہت اچھے لگتے ہیں اور میں ان سے بہت کچھ سیکھتی ہوں۔ ان کی یہ بات ٹھائیں کر کے پروگرام کے ہوسٹ اداکار فیصل قریشی کو لگی اور انہوں نے سوال کیا کہ
"ہمارے ڈرامے دوسرے ممالک کیوں نہیں دکھاتے؟ صرف پاکستان وہ ملک کیوں ہے جہاں دنیا بھر کے ڈرامے لا کر چلائے جاتے ہیں"۔
فیصل صاحب سے مودبانہ عرض ہے کہ جو چیز اچھی ہوگی پوری دنیا میں دیکھی جائے گی. ہمارے پرانے پی ٹی وی کے ڈراموں کی باز گشت آج بھی ہندوستان سے آتی سنائی دیتی ہے۔
رہی آپ کی یہ دلیل کہ ترکش ڈراموں کی آمد کے بعد اداکاروں کو تو کام مل رہا ہے لیکن چائے پلانے والے اور اسپاٹ بوائے جیسے لوگ فارغ ہو گئے ہیں. جناب عالیٰ اگر ادکاروں کو کام مل رہا ہے اس کا مطلب رائٹر لکھ رہا ہے اور ڈائریکٹر شوٹ کر رہا ہے اور وہ شوٹ ہوا میں تو ہو نہیں رہی ہوگی نہ اسے فرشتے کر رہے ہوں گے۔ میں ذاتی طور پر انڈسٹری کے کسی ایسے آدمی کو نہیں جانتا ہوں جو آج کل فارغ بیٹھا ہو۔
میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں اے آر وائی ڈیجیٹل کے روح رواں جے جے اور علی عمران کو جنہوں نے ترکش ڈراموں کا مقابلہ میرٹ پر کیا اور رونے دھونے اور شور مچانے کی بجائے کوالٹی کا مقابلہ کوالٹی اور کونٹینٹ کا مقابلہ کونٹینٹ سے کر رہے ہیں اور آج بھی اپنے چینل پر صرف لوکل ڈرامے دکھا کر نمبر 1 چینل کی سیٹ پر براجمان ہیں۔
خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے