بلقیس اور ایدھی، ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم
خراجِ عقیدت ایک ایسی چیز ہے جسے ایک نہ ایک دن لکھنا ہی ہوتا ہے۔ بھلے ہی آپ نہ چاہیں، لیکن موت ایک حقیقت ہے۔ کوئی شخص بھی ایسا نہیں جو ہمیشہ زندہ رہے، حتیٰ کہ ایدھی صاحب بھی نہیں جو کراچی میں زندگیوں کا ایک سچا اور مستقل سہارا تھے۔ یہ بھی ایک ایسا ہی خراجِ عقیدت ہے مگر سمجھ نہیں آتا کہ اس تحریر کی شروعات کہاں سے کی جائے؟
جب ہر کسی کے پاس ہی ایدھی صاحب سے متعلق ڈھیروں غیر معمولی کہانیاں ہوں تو ایسے میں آپ کس طرح ان کی عظمت کی ایک حقیقی تصویر کو تحریر میں اتار سکتے ہیں؟ مجھے اپنی زندگی میں کسی بھی ایسے شخص سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا جس نے اس طرح کئی ساری زندگیوں کو کئی طریقوں سے چھوا ہوا۔ تو پھر آپ ایسی کیا بات کہیں جو عام اور متوقع نہ ہو؟
کسی سپر ہیرو جیسی شخصیت والے ایدھی بھی اگر ہمیشہ نسلی، طبقاتی اور مذہبی نفرتوں کی زد میں رہے ہوں، تو آپ انہیں اپنی ذاتی یادوں کے آئینے میں دیکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس میں وہ اس سب کے برعکس نہایت عاجز، نہایت حقیقت پسند، عام اور بہت زیادہ 'انسان' نظر آتے ہیں۔
میرا ان سے تعارف کم عمری میں ہی ہو گیا تھا۔ میری والدہ نے ایک میگزین کے لیے ایدھی صاحب اور ان کی ثابت قدم ساتھی بلقیس ایدھی سے پہلا انٹرویو کیا تھا جو 1980 کی دہائی کے اوائل میں شایع ہوا تھا۔
میری والدہ کو یاد ہے کہ جب ایدھی صاحب کو پتا چلا کہ میری والدہ دست شناسی میں دلچسپی رکھتی ہیں تو وہ کسی بچے کی طرح خوش ہوگئے تھے۔ وہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ ایسی شخصیات کی ہاتھوں کی لکیریں کیسی ہوتی ہیں جو اپنی پوری زندگی دوسری کا خیال رکھنے میں گزار دیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ والدہ آفس اسٹیمپ پیڈ کی عام سیاہی سے ایدھی صاحب کے ہاتھوں کا پرنٹ بنا کر گھر لے آئی تھیں۔ ان کے پاس اب بھی وہ ہاتھوں کے نشان کہیں نہ کہیں پڑے ہیں۔
میں نے اگلی بار ایدھی صاحب کا ذکر تب سنا جب میری والدہ اپنی قریبی دوستوں کے لیے بچہ گود لینے کے سلسلے میں ان دونوں (کیونکہ بلقیس اور عبدالستار ایدھی ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم تھے) کے پاس گئی تھیں۔
میری والدہ نے مجھے دو ایدھی ڈرائیوروں کے بارے میں بتایا جنہیں اس دن ایدھی صاحب نے میری والدہ کے سامنے ہی نوکری سے نکال دیا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ڈرائیور جس بستی میں کھانا پہنچانے گئے تھے وہاں انہوں نے ان غریبوں کے ساتھ ہی کھانا کھایا تھا۔
ایدھی صاحب نے ان سے کہا، ''آپ کو تنخواہ دی جاتی ہے، آپ کو اس پیسے میں سے کھانا چاہیے، یہ کھانا آپ کے لیے نہیں ہے۔''
اس وقت میرے ذہن میں یہ دونوں کسی دوسری دنیا کی مخلوق معلوم ہوئے۔ آخر کوئی شخص کیسے خود کو ان لوگوں کی خوشیوں اور بہبود کے لیے وقف کر سکتا ہے جنہیں وہ جانتا بھی نہیں؟
کراچی کا مصدقہ ترین اطلاعاتی ذریعہ
جب میں نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تب کسی بھی سانحے کے نتیجے میں ایدھی ہی آسان رساں ذریعہ ہوتے تھے۔ کراچی ہنگامہ آرائی کی زد میں تھا، فوجی آپریشن جاری تھا، دائیں بائیں لوگ مر رہے تھے۔ کبھی کبھار کوئی عمارت منہدم ہوجاتی تھی۔
سب سے آسان ترین کام یہی ہوتا تھا کہ ایدھی سے رابطہ کر لیا جائے کیونکہ وہ ہمیشہ دستیاب ہوتے تھے، اور سرکاری اعداد و شمار کی تصدیق یا درستی کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے۔
زیادہ تر صحافیوں کے پاس ایدھی سینٹر کا نمبر اسپیڈ ڈائل پر درج ہوتا تھا۔ ہر کوئی ایدھی کے ہی اعداد و شمار پر بھروسہ کرتا تھا کیونکہ وہ ایدھی اور ان کے رضا کار ہی ہوتے تھے جو ملبہ ہٹاتے، ایدھی ایمبولینسوں میں زخمیوں اور لاشوں کو اٹھاتے، اور اکثر وہی ان کو دفناتے بھی تھے۔
1997 میں میری ایدھی صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی۔ اس وقت میں ایک ویڈیو پر کام کر رہا تھا، اور ویڈیو کے کچھ حصوں کے لیے ان کی شوٹنگ کرنے کی اجازت چاہتا تھا۔
وہ شروع میں تو ہچکچائے — ان کچھ لوگوں کے بالکل برعکس جو سماجی بھلائی کا کام کرتے ہیں مگر تصاویر کھنچوانے کے لیے ہر وقت بے قرار رہتے ہیں۔
میں انہیں فلمبند کرنا چاہتا تھا لیکن وہ چاہتے تھے کہ میں ان کے کارکنان اور ان کے سینٹرز کو فلمبند کروں۔ بالآخر ہم اس سمجھوتے پر پہنچے کہ میں دونوں کو ہی فلمبند کروں گا۔
وہ انتہائی ہیجان انگیز شوٹ تھا کیونکہ ایدھی کو ہمارے ترتیب دیے ہوئے شیڈولز پر عمل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنے معمول کے مطابق اپنا کام کرتے تھے اور اگر ہم انہیں فلمبند کرنا چاہتے تو ہم ان کے ہمراہ چل سکتے تھے۔ میں زیادہ سے زیادہ انہیں میٹھادر کی سڑکوں اور گلیوں میں ہی فلمبند کرسکتا تھا جہاں ان کا آفس بھی واقع تھا۔
ان گلیوں میں لوگ ان کو دیکھ کر بے ساختہ انداز میں ہاتھ پیشانی پر لے جا کر سلام کرتے یا ان سے گلے ملنے آجاتے۔ لیکن وہ ان کا کم ہی جواب دیا کرتے تھے۔
شوٹنگ کے دوران، فارغ وقت میں جب ہمارا عملہ آرام کر رہا ہوتا یا کھانا کھا رہا ہوتا تھا تو میں ان کے ساتھ بیٹھتا اور باتیں کرتا تھا۔ ان بے تکلف باتوں کے دوران میں نے ان میں ایک حقیقت پسند انسان دریافت کیا تھا۔
وہ اپنے کام میں اور ارد گرد کئی ساری مصیبتیں اور بے انتہا بے حسی دیکھ چکے تھے مگر ان میں سے کوئی چیز ان کے لیے حوصلہ شکن ثابت نہیں ہوئی۔
وہ غربت کے بارے میں مدر ٹریسا کے رومانوی خیالات سے متاثر نہیں تھے اور نہ ہی وہ ایسی مذہبی ذہنیت تک محدود تھے کہ ہر چیز 'خدا کی مرضی' کہہ کر چھوڑ دیتے۔ وہ تمام چیزوں کے عملی جوابات رکھتے تھے اور اپنے خیالات کے بارے میں بہت واضح تھے — معاشرے میں سب سے زیادہ حقوق سے محروم اور سب سے زیادہ نظرانداز طبقے کے لیے دہائیوں تک کام کرتے رہنے نے ہی ان واضح خیالات کو جنم دیا تھا۔
بلکہ، اگر ایسی کوئی بھی چیز تھی جس نے انہیں تلخ بنایا تھا تو وہ مولوی تھے جنہوں نے لفظی تشریحات کے نیچے مذہب کی روح کو دفن کر دیا تھا۔ وہ کئی بار اس بات پر افسوس کر چکے تھے کہ مذہبی گروہ دوسرے لوگوں کے لیے صرف مسائل پیدا کرنے کا باعث بنے ہیں اور کبھی بھی ضرورت مندوں کی مدد نہیں کی۔
پھر انہیں اچانک یہ بات یاد آتی کہ کس طرح ان کے ایسے بیانات سے ان کا کام متاثر ہو سکتا ہے لہٰذا اپنی بات ختم کرتے ہوئے مجھ سے کہتے کہ انہوں نے مجھ سے جو کچھ کہا ہے، میں اسے عوامی سطح پر کبھی نہ دہراؤں۔ میں نے بھی زیادہ تر ان باتوں کا ذکر نہیں کیا۔
کتنی عجیب بات ہے نا کہ ان کو عام طور پر 'مولانا' کے نام سے پکارا جاتا تھا جبکہ ان کے پاس مذہبی رسومات کی ادائیگی کا وقت ہی نہ تھا۔ بعض اوقات وہ غیر مذہبی لگتے تو کبھی ایک پکے سوشلسٹ، حالانکہ انہوں نے خود کو اسلام کے بہترین تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہوا تھا۔
بلقیس ایدھی — ایک بھرپور ساتھ
بلقیس ایدھی کے ذریعے میں ان کی ذات کے ایک الگ رخ سے آشنا ہوا۔ ان کے لیے ایدھی صاحب ایک ضدی، کبھی کبھار خیال نہ رکھنے والے شوہر تھے جنہیں اپنے گھر سے زیادہ دفتر کی فکر رہتی تھی۔
بلقیس ایدھی کو فلمیں دیکھنے میں بہت دلچسپی تھی لیکن وہ ان کے ساتھ فلمیں دیکھنے کبھی نہیں گئے۔ وہ کبھی کبھی تلخ بھی ہوجاتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح ایک بار ان کا اپنا نواسا جل کر ہلاک ہوگیا تھا لیکن وہ اس وقت بھی کسی اور جگہ لاشیں اٹھانے چلے گئے تھے۔
مگر پھر بھی بلقیس نے اس کام سے کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا جسے ان دونوں نے مل کر شروع کیا تھا، اور نہ ہی ایدھی سے اپنی وفا میں کمی لائیں۔ عوامی بھلائی کے لیے خود کو وقف کر دینے والا یہ جوڑا اتنا ہی انسان تھا جتنا کہ آپ تصور کر سکتے ہیں۔
اگلے چند سالوں میں میری ایدھی صاحب اور بلقیس ایدھی سے کئی ملاقاتیں ہوئیں، جن کی وجوہات کا یہاں تذکرہ نہیں ہوگا؛ مجھے ہر ملاقات پر ایسا محسوس ہوتا جیسے میں اپنے دادا دادی سے ملنے جا رہا ہوں۔
ایدھی صاحب ہمیشہ ایسے بے آرام رہتے جیسے انہیں کسی ایسی جگہ ہونا چاہیے جہاں ان کی ضرورت ہے۔ انہیں فالتو بیٹھنا یا گپیں لگانا پسند نہیں تھا۔
ان کے پاس ہمیشہ زیادہ اہم کام ہوتا تھا۔ یہ قابلِ فہم بھی ہے کیونکہ ان کے اوپر اتنے بڑے فلاحی ادارے کی ذمہ داری تھی جو انہوں نے خود تعمیر کیا تھا۔
مگر میرے بھائی نے مجھے ایک ایسی کہانی سنائی جس نے مجھے بہترین انداز میں سمجھا دیا کہ آخر کیوں تمام لوگ کلی طور پر ان سے محبت اور ان پر بھروسہ کیا کرتے تھے۔
بی بی سی کے لیے بلوچستان میں آئے زلزلے کی کوریج کرتے ہوئے میرے بھائی کا ایدھی صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا جو وہاں موجود بے گھر افراد میں خیمے تقسیم اور طبی خدمات فراہم کر رہے تھے، اور چندہ اکٹھا کرنے اور ایمبولینسوں اور دیگر چیزوں کے لیے انتظامات کرنے میں مصروف تھے۔
میرے بھائی نے بتایا کہ ''جب میں وہاں سے جا رہا تھا، تب میرے پاس تقریباً دو ہزار روپے تھے جو میں نے انہیں دے دیے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے اس علاقے میں کھیلوں کے سامان کی دکانیں دیکھی ہیں۔ میں نے ان سے جاننا چاہا کہ کیا وہ کیمپوں میں موجود بے گھر بچوں کے کھیلنے کے لیے فٹ بال خریدنا چاہیں گے؟''
کئی ہفتوں بعد میرے بھائی کی اتفاقیہ طور پر ایدھی صاحب سے ایک اور ملاقات ہوئی۔ اس بار میرے بھائی اسلام آباد میں ایک کانفرنس کو کور کرنے آئے ہوئے تھے۔ ایدھی صاحب کو نہ صرف میرے بھائی یاد تھے بلکہ انہوں نے بھائی کا نام لے کر پکارا۔
انہوں نے بلند آواز میں کہا: ''اوئے علی، ادھر آؤ!''
میرے بھائی نے بتایا کہ ''جب میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں نے بلقیس کو تمہارے دیے ہوئے پیسوں کے بارے میں بتایا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ سامان کراچی میں زیادہ سستا ملے گا، اس لیے ہمیں سامان وہاں سے خریدنا چاہیے اور پھر یہاں بھیجنا چاہیے، لہٰذا ہم نے ایسا ہی کیا۔ میں نے سوچا کہ آپ کو بھی بتا دوں۔''
یہ وہ شخص تھا جو کروڑوں روپے کے عطیات سنبھال رہا تھا اور روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں لوگوں سے ملتا تھا۔ اس میں تعجب کی بات نہیں کہ وہ ہم سب کو حیرت زدہ کر کے رخصت ہوئے ہیں۔ صرف حقیقی عظمت کا حامل شخص ہی ایسا کر سکتا ہے۔
خدا انہیں ابدی سکون عطا کرے، ان کے قائم کردہ اداروں میں ان کا عظیم کام جاری رہے، اور کاش ہم اس مقام پر پہنچ جائیں جہاں پاکستانی ریاست کو کسی ایدھی کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
حسن زیدی ایوارڈ یافتہ فلم ساز اور صحافی ہیں۔ وہ ٹیمارنڈ میڈیا نامی ایک میڈیا کنسلٹینسی اور پروڈکشن ہاؤس چلاتے ہیں۔ وہ کرافلم فیسٹیول کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: hyzaidi@
تبصرے (8) بند ہیں