’’ایدھی، چلے جاؤ یہاں سے، ورنہ گولی لگ جائے گی‘‘
وہ 23 مارچ 2011 کا دن تھا جب میری عبدالستار ایدھی سے پہلی اور آخری مرتبہ ملاقات ہوئی۔ وہ اتفاقیہ ملاقات جس نے میرا زاویہ زندگی بدل دیا۔
ہم دوستوں نے طے کیا تھا کہ یومِ پاکستان پر ایمپریس مارکیٹ صدر کی صفائی کریں گے، جو کراچی کا پُرہجوم علاقہ ہے۔
ہم نے کچرا اٹھانے کے لیے اپنی ہمّت اور بڑی بڑی تھیلیاں سنبھالِیں اور لوگوں کی نظروں کو نظر انداز کرتے ہوئے کچرا اٹھانے میں مصروفِ عمل ہو گئے۔
بہت سے لوگ حیرت کی تصویر بنے ہوئے تھے، گاڑی پارک کرتے ہوئے ایک انکل سے رہا نہیں گیا، اُنھوں نے پوچھ ہی ڈالا، ’’سسٹر آپ لگ تو پڑھی لکھی رہی ہیں، پھر آپ کو یہ کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
اب کوئی ان سے پوچھے کہ کچرا اٹھانے اور اپنے ملک کو صاف ستھرا کرنے کا پڑھے لکھے یا اَن پڑھ ہونے سے کیا تعلّق ہے؟
تھیلوں میں کچرا بھرنے کے بعد ہم نے سوچا کہ یومِ پاکستان کی مناسبت سے ہم مزید کیا کر سکتے ہیں۔ ہم نے وہیں کھڑے کھڑے منصوبہ بنایا کہ ہم بچّوں کے لیے ٹافیاں لے کر ایدھی سینٹر چلتے ہیں۔ وہاں بچّوں کے ساتھ کچھ وقت گزاریں گے اور انہیں پاکستان کے بارے میں اچھّی اچھّی باتیں بتائیں گے۔
راستے میں لوگوں سے میٹھادر کا راستہ پوچھتے پوچھتے ہم ایدھی سینٹر پہنچے، ہمارا ایک دوست ذرا آگے تھا، اُس نے گلی کے بائیں جانب دفتر کے کھلے ہوئے دروازے سے اندر جھانکا اور فورًاہی واپس پیچھے مُڑ گیا۔ اس کی آواز حیرانی اور خوشی سے لبریز تھی، ’’ارے! وہ تو اندر بیٹھے ہوئے ہیں!‘‘ ہمارے بڑھتے ہوئے قدم رعب کے مارے ایک دم وہیں رک گئے۔
یا خدایا! ہم نے دفتر کے اندر کی طرف قدم بڑھائے اور اگلے ہی لمحے ہم ایدھی کے روبرو موجود تھے۔
سرمئی رنگ کی بالکل سادہ قمیض پہنے اس لمبی داڑھی والے منکسر المزاج آدمی کے رعب کا میرے سامنے وہ عالم تھا کہ کچھ بولتے ہوئے زبان لڑکھڑا رہی تھی۔
’’السّلام علیکم، وہ ہم وہ ہم... کراچی یونیورسٹی سے آئے ہیں۔ وہ... آپ کے اِس والے سینٹر میں بچّے ہوتے ہیں؟‘‘
’’وعلیکم السّلام، جی تھوڑے بچّے یہاں بھی ہیں۔‘‘
’’اچھّا! کیا ہم اُن سے مِل سکتے ہیں؟ آج ہماری چھٹّی ہے تو ہم نے سوچا کہ اُن کے ساتھ تھوڑا وقت گزاریں گے۔ اُنہیں پاکستان کے بارے میں بتائیں گے۔‘‘
’’نہیں، آپ کو بچّوں کے لیے جو دینا ہے، وہ یہاں دے دیجیے۔ ہم خود اُن تک پہنچا دیں گے۔‘‘ استقبالیے پر بیٹھی ایک لڑکی نے کہا۔
’’اب ہم کسی کو بچّوں سے ملنے نہیں دیتے،‘‘ ایدھی صاحب اپنے مخصوص گجراتی لہجے میں گویا ہوئے۔ ’’لوگ آتے ہیں، بچّوں سے ملتے ہیں اور پھر فرمائشیں شروع کر دیتے ہیں کہ ہمیں یہ بچّہ چاہیے، ہمیں وہ بچّہ چاہیے اور پھر جب بچّوں کو لے جاتے ہیں تو اُن سے مشقّت کرواتے ہیں۔‘‘
’’جی بالکل، آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر ہم خاموش ہو گئے۔ اُنھوں نے کچھ اِس انداز سے کہا کہ ہماری ہمّت ہی نہ ہوئی کہ ہم بچّوں سے ملنے کے لیے اُن سے مزید اصرار کرتے۔
ایدھی صاحب نے کرسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بیٹھ جائیں۔ ہم بیٹھ گئے اور اُن سے باتیں کرنے لگے۔
انہوں نے یہ بتا کر ہمیں حیران کر دیا کہ ایک بار ان کی وین سندھ کے کسی چھوٹے شہر میں امدادی کام کے لیے جا رہی تھی کہ چند ڈاکوؤں نے وین کو زبردستی روک لیا۔
جب انہوں نے اندر بیٹھے ایدھی کو پہچانا، تو سلام کرتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔ پھر انہوں نے بلوچستان کے دہشت گردوں سے لے کر خیبر پختونخواہ کے طالبان تک سے مذاکرات کے قصّے سنائے۔
وہ بتانے لگے کہ ایک مرتبہ کراچی کے ایک علاقے میں دو گروہوں میں شدید فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا، تو وہ اپنے رضاکاروں کے ساتھ زخمیوں کو اٹھانے پہنچ گئے۔ فائرنگ کرتے ہوئے ایک شخص نے انہیں دیکھا تو چیخ کر کہا، ’’ایدھی، چلے جاؤ یہاں سے، ورنہ گولی لگ جائے گی۔‘‘
ایدھی نے اس سے کہا، ’’میں نہیں جاؤں گا۔ تمہیں جو کرنا ہے تم کرو، میں اپنا کام کرتا رہوں گا۔‘‘
اس دن اُن سے مل کر ہمیں صحیح معنوں میں احساس ہوا کہ جو انسانیت کو سب سے بڑا مذہب سمجھتا ہو، اُسے کسی کا ڈر نہیں رہتا۔
باتوں کے دوران ایدھی کہنے لگے، ’’نئی حکومت آتی ہے تو مجھ سے سوال کرتی ہے کہ بتائیں ہم آپ کی کیا خدمت کریں؟ میں کہتا ہوں کہ مجھے کسی کی خدمت کی ضرورت نہیں ہے۔ تم بتاؤ تمہیں کس مدد کی ضرورت ہے؟‘‘
اس دوران میز پر رکھا فون ہر تھوڑی دیر بعد بجتا رہا اور کبھی وہ، تو کبھی ان کا عملہ شہر بھر میں ہونے والی مختلف ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے فوری ہدایات جاری کرتا رہا۔
باتوں باتوں میں ایک دوست نے کہا کہ آج چھٹّی تھی تو ہم نے ایمپریس مارکیٹ کی صفائی کی۔ پھر ہم نے سوچا کہ یہاں آجاتے ہیں۔
’’ایمپریس مارکیٹ میں کیا کِیا آپ لوگوں نے؟‘‘ ایدھی صاحب نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
’’صفائی کی۔‘‘
’’کیسے؟ جھاڑو مارا کیا؟‘‘ ایدھی کی آنکھوں کی چمک دیدنی تھی۔
’’ نہیں، ہاتھوں سے کچرا اٹھایا تھا۔‘‘
یہ سُن کر ایدھی صاحب کے چہرے پر مسرّت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ کہنے لگے، ’’یعنی آپ لوگوں نے پہلا قدم اٹھا لیا ہے!‘‘
پھر گجراتی زبان میں دفتر میں موجود ایک لڑکی سے کہنے لگے کہ اِن کو اوپر لے جاؤ، بچّوں سے ملوانے!
اب کی بار ہماری آنکھوں کی چمک دیدنی تھی۔
جب اوپر پہنچے تو ایک طرف بڑے بڑے تسلوں میں مرغی کا گوشت اور دال دھلنے کے لیے رکھی ہوئی تھی، سامنے دیوار پر "Happy Marriage"کا سجا ہوا بورڈ لگا ہوا تھا۔
ہمارے ساتھ موجود رضاکار لڑکی نے بتایا کہ کچھ دن قبل ہی ایدھی سینٹر کی ایک لڑکی کی شادی ہوئی ہے۔ آگے بڑھے تو چند شیر خوار بچّے سو رہے تھے۔ صفائی کا یہ عالَم کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ اِس جگہ بچّے رہتے ہیں۔
دو کمروں میں بچّوں کی کلاسیں ہو رہی تھیں۔ چار، پانچ برس کے ننّھے ننّھے بچّے پڑھائی میں مشغول تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ سب کھڑے ہو گئے اور باآوازِ بلند ’’السّلام علیکم‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اس سے پہلے کہ ہم ان کے سلام کا اسی پُر جوش انداز میں جواب دے پاتے، وہ خود ہی "thank you" کہہ کر اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہو چکے تھے۔
عبدالستار ایدھی پر دیگر دلچسپ مضامین
- وہ میٹھادر کا باپو، عبدالستار ایدھی
- عبدالستار ایدھی: خدمت کے 60 سالہ سفر کا اختتام
- کوئز: آپ عبدالستار ایدھی کو کتنا جانتے ہیں؟
ہمارے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دینے والے یہ معصوم چہرے، جن کے پیچھے ایک سے بڑھ کر ایک بھیانک کہانیاں چھپی ہوئی تھیں۔
جب ہم نیچے اترے تو انہوں نے ہمیں اپنی آپ بیتی ’’A Mirror to the Blind‘‘ تحفتًا پیش کی، جس پر ہم نے بطورِ یادگار ان سے دستخط لے لیے، جو انھوں نے گجراتی زبان میں دیے۔ ساتھ ہی بتایا کہ اُن کی آپ بیتی اب انگریزی اور اردو کے علاوہ پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی اور عربی زبان میں بھی شائع ہو چکی ہے، ہم جس زبان میں چاہیں اِسے پڑھ سکتے ہیں۔
ہم نے اس لڑکی کی شادی کے البم بھی دیکھے جس کی کچھ دن قبل شادی ہوئی تھی۔ ابھی ہم البم دیکھ ہی رہے تھے کہ دروازے پر ایک سپیرا آ کھڑا ہوا اور کہنے لگا، ’’ایدھی صاحب، آج تماشا نہیں دیکھیں گے؟‘‘
ایدھی صاحب کہنے لگے، ’’ہاں بھئی، کیوں نہیں دیکھیں گے، ضرور دیکھیں گے ۔‘‘ یہ سن کرسپیرے نے اپنا تھیلا اور پٹاری نیچے رکھی اور بین بجانے لگا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار سانپ کا تماشا ایدھی کے ساتھ دیکھا۔ سانپ کے ساتھ ساتھ ہمارے دل بھی جھومتے جا رہے تھے۔
ایدھی بتانے لگے کہ انھیں بین کی ’موسیقی‘ بہت اچھّی لگتی ہے۔
یہ وہی ایدھی تھے جن پر لوگوں نے ایسے ایسے الزامات لگائے کہ عقل حیران ہوتی ہے۔ گردے اور ہڈّیاں بیچنے سے لے کر لڑکیاں سپلائی کرنے تک کے گھناؤنے الزامات ایدھی کے گرد گھومتے رہے لیکن کبھی اُس جواں مرد کی ہمّت کو کبھی پست نہیں کر سکے، مددِ خدا جس کی ہمرکاب رہی۔
میں نے اپنی زندگی میں ایسا بے غرض اور مخلص انسان نہیں دیکھا۔ ایک ایسے شہر میں جہاں اپنا نقصان ہونے پر جلاؤ گھیراؤ اور ہڑتالیں اپنا حق سمجھ کر کی جاتی ہیں، وہیں ایک ایسا فرشتہ صفت انسان بھی بستا تھا جس نے اُس عورت کو بھی اپنے سینٹر میں پناہ دی جس نے ان کے چار سالہ نواسے بلال کو زندہ جلا دیا تھا، اِس بنا پر کہ وہ عورت ذہنی مریضہ تھی۔
اُس کے گھر والوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، اگر ایدھی بھی اُسے بے دخل کر دیتے تو وہ کہاں جاتی؟
جہاں علاج معالجے کی غرض سے حکومتی عہدے داروں کے سرکاری خرچ پر بیرونی دورے ایک مسلّمہ حقیقت بن چکے ہیں، وہاں دنیا کی سب سے بڑی نجی ایمبولینس سروس کا مالک اپنے عزیز ترین نواسے کے علاج کے لیے سِول اسپتال کے دھکّے کھاتا رہا، مگر وہاں موجود نرسوں نے یہ کہہ کر علاج سے انکار کر دیا کہ بڑے ڈاکٹر عید کی چھٹّیوں پر گئے ہوئے ہیں، وہ تین دن سے پہلے واپس نہیں آئیں گے۔
وہ معصوم بچّہ مر گیا لیکن نہ ہسپتالوں کی املاک کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا گیا، نہ ہی پارکنگ میں کھڑی گاڑیاں جلائی گئیں، صرف اس وسیع القلب شخص کا دل اپنے لختِ جگر کے لیے جلتا رہا۔
یہ عظیم تر انسان دوست شخص جاتے جاتے بھی اپنے اعضا عطیہ کر گیا اور قبل از مرگ آخری الفاظ بھی اپنے ملک کے غریبوں کے حق میں ادا کیے۔
اور یہاں کئی لوگ اسی بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ اعضاء عطیہ کرنا جائز ہے یا نہیں۔ ایدھی نے کبھی کسی بحث میں وقت ضائع نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ کر دکھانے پر یقین رکھا۔
ایدھی اپنی وفات کے بعد بھی ہمیں وہ سبق دے گئے جو بہت سے زندہ لوگ بھی نہیں دے پاتے۔
خوشبو رفیق جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل ہیں اور کراچی کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض سرانجام دیتی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhushbooRafiq@
تبصرے (17) بند ہیں