ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کی پاکستان کے ساتھ عید
رپورٹ : عمر بن اجمل
سری نگر: ہندوستان میں رمضان کے اختتام پر عید جمعرات کو منانے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں عید الفطر کے لیے پاکستان کے اعلان کو زیادہ اہمیت دی گئی۔
ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع سری نگر کے رہائشی محمد فیصل کا کہنا تھا کہ عید ایک خوشی کا تہوار ہے، اور یہ ان چند مواقع میں شامل ہے جب تمام کشمیری خوشی منانے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
محمد فیصل کا کہنا تھا کہ کشمیری ہمیشہ ٹی وی چینلز کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب مفتی منیب الرحمٰن ہمارے لیے عید کا اعلان کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان میں عید کبھی بھی کشمیریوں کا مسئلہ نہیں رہا کیونکہ جغرافیائی طور پر ہم پاکستان کے قریب ہیں۔
جموں و کشمیر کے دور دراز علاقوں میں لائبریریوں کے قیام میں مصروف عمل محمد فیصل کا یہ بھی کہنا تھا کہ ثقافتی اور مذہبی لگاؤ بھی کشمیریوں کو پاکستان سے قریب کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی پاکستان میں عید ہوگی، کشمیر میں بھی اسی روز عید منائی جائے گی۔
عید کے حوالے سے سری نگر میں موجود صحافی طاہر ابن منظور کا کہنا تھا کہ سری نگر میں حضرت بل کے مزار میں 45 ہزار افراد کا اجتماع ہوتا ہے، جو کہ سب سے بڑا اجتماع کہلاتا ہے۔
طاہر ابن منظور نے مزید بتایا کہ سری نگر میں عید کا دوسرا بڑا اجتماع پرانے شہر میں عید گاہ میں ہوتا ہے جہاں 40ہزار افراد نماز کیلئے آتے ہیں جبکہ ٹی آر سی پولو گراؤنڈ میں 20 ہزار افراد عید کی نماز کیلئے جمع ہوتے ہیں۔
احتجاج، آنسو گیس اور حریت رہنماؤں کی نظر بندی
جموں کشمیر کی انتظامیہ نے آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنماؤں سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک سمیت دیگر کو عید کی نماز سے قبل نظر بند کر دیا تھا، انتظامیہ اس حوالے سے خوفزدہ تھی کہ ان کی نماز عید پر موجودگی سے احتجاج شدید ہو سکتا ہے۔
اس حوالے سے محمد فیصل نے بتایا کہ ہمارے رہنماؤں کو 2010 سے ہی ہر عید پر نظر بند کر دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج بھی میر واعظ عمر فاروق کو فجر کی نماز کے بعد اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ ایک مجلس میں خطار کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ میر واعظ عمر فاروق حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے چیئرمین ہیں، جبکہ کشمیر کے سب سے اہم مذہبی رہنما یعنی ’میر واعظ‘ بھی ہیں۔
ہندوستانی فورسز کی سخت پابندیوں کے باوجود عید کی نماز کے بعد احتجاج ہوا، عید گاہ میں نماز کے بعد نوجوان احتجاج کرتے ہوئے سامنے آئے، جن کے ہاتھوں میں پاکستان کے جھنڈے تھے۔
کشمیر کے نوجوان محمد فیصل نے بتایا کہ فورسز کی جانب سے نوجوانوں کے خلاف آنسو گیس استعمال کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ فورسز کی جانب سے اس قدر گیس کے شیل فائر کیے گئے کہ عیدگاہ مکمل طور پر گیس سے بھر گئی، جبکہ اس دوران کئی افراد زخمی ہوئے۔
محمد فیصل کے مطابق عید گاہ اور قریب کے گھروں میں موجود خواتین سب سے زیادہ گیس سے متاثر ہوئیں، جبکہ بزرگ افراد کو بھی سانس لینے میں تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔
احتجاج کے دوران پاکستانی پرچم لہرائے جانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ جھنڈے ہمیشہ کشمیر میں لہرائے جاتے ہیں، جس کا مقصد نظریاتی وابستگی کے ساتھ ساتھ اپنے اختلاف کا اظہار بھی کرنا ہوتا ہے، اس لیے جب بھی احتجاج ہوتا ہے تو اس میں پاکستانی جھنڈے بلند کیے جاتے ہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں