• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

دہشت گردی کے خلاف کامیابی موثر بارڈر مینجمنٹ سے منسلک

شائع July 3, 2016

اسلام آباد: باہمی اعتماد متذلزل ہونے کے باوجود پاکستان اور امریکا نے افغانستان میں مفاہمت اور قیام امن کی کوششوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا عزم ظاہر کیا ہے۔

امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان و پاکستان رچرڈ اولسن اور پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں سمجھوتہ طے پایا۔

یہ بھی پڑھیں: پاک-افغان کشیدگی میں کمی کیلئے موثرسرحدی انتظام ناگزیر،اعلامیہ

نوشکی میں امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما ملا منصور اختر کی ہلاکت کے بعد سے امریکی و پاکستانی حکام کی یہ دوسری ملاقات ہے۔

دریں اثناء آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے امریکی سینیٹ کی آرمڈ فورسز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان میکین اور امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان اور پاکستان رچرڈ اولسن نے الگ الگ ملاقاتیں کی۔

ملاقات میں آرمی چیف نے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب میں فوج کی کیامیابیوں کا تذکرہ کیا۔

آرمی چیف نے وفد کو بتایا کہ غیر منظم سرحد اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی دہشتگردی کے خلاف کامیابیوں کے تسلسل میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق آرمی چیف نے وفد کو پاکستان کو درپیش سیکیورٹی مسائل اور خطے کے امن و استحکام کیلئے پاکستان کے کردار سے تفصیل سے آگاہ کیا۔

بیان کے مطابق آرمی چیف نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابیوں اور پاک افغان سرحد پر موثر انتظام کاری پر بھی زور دیا۔

مزید پڑھیں:پاک افغان سرحد پر بارڈر مینجمنٹ سسٹم نصب

بیان میں مزید کہا گیا کہ ملاقات میں پاکستان افغان سرحد کے دونوں جانب غیر قانونی نقل و حمل کو روکنے کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔

وفد میں سینیٹر لنزے گراہم اور جوئے ڈونیلی بھی شامل تھے جو خصوصی طور پر آرمی چیف کی دعوت پر پاکستان آئے ہیں۔

پاکستان میں اپنے قیام کے دوران وفد دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات اور اس کے خطے کے امن و استحکام پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لے گا۔

وفد آپریشنل علاقوں کا بھی دورہ کرے گا، واضح رہے کہ امریکی کانگریس میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان آپریشن ضرب عضب میں حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے خلاف مکمل کارروائی نہیں کررہا۔

اسی بنیاد پر امریکی کانگریس کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پاکستان کی امداد اور ایف سولہ طیاروں کی فروخت روک دی تھی۔

تاہم امریکی وزیر دفاع کانگریس کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے خلاف بھی موثر کارروائی کی ہے۔

رچرڈ اولسن نے بھی 21 جون کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کا مستقبل اس وقت تک روشن نظر نہیں آتا جب تک وہ افغان طالبان کے خلاف کارروائی نہ کرے۔

واشنگٹن کی منطق

امریکا کا موقف ہے کہ پاکستان کی جانب سے طالبان کی محفوظ پناہ گاہوں اور ان کی سپلائی لائنز کے خلاف سخت کارروائی سے دہشتگرد گروپس امن عمل کا حصہ بننے پر مجبور ہوجائیں گے۔

تاہم پاکستان ہمیشہ یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اس کی سیکیورٹی فورسز تمام دہشتگرد گروہوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی میں مصروف ہیں۔

لیکن آخر میں پاکستان نے اس بات کا اعتراف کرلیا کہ وہ افغانستان کی وجہ سے حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف کارروائی کرکے اپنی سرزمین پر نئی جنگ شروع نہیں کرستکا۔

جنرل راحیل شریف نے امریکی وفد سے ملاقات میں خطے کی موجودہ صورتحال کو واضح طریقے سے بیان کیا اور کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر تعلقات خطے کی سلامتی و استحکام کیلئے ناگزیر ہیں۔

جنرل راحیل شریف نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں کامیابیاں موثر پاک افغان بارڈر مینجمنٹ سے منسلک ہیں۔

پاکستانی حکام کو امید ہے کہ امریکی وفد کے دورے سے کانگریس میں پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی۔

سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ وہ امریکی وفد کے ساتھ ملاقات میں پاکستان پر لگنے والے الزامات کا دفاع کریں گے۔

البتہ اب تک امریکی وفد کے دورہ جی ایچ کیو کے حوالے سے سینیٹر جان میک کین کے دفتر سے کوئی بیان جاری نہیں ہو اہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی وفد نے پاکستان کی کامیابیوں کو سراہا ہے اور اس کی مجبوریوں کو سمجھا ہے۔

رچرڈ اولسن نے بھی آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے علیحدہ ملاقات کی۔

سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری اور رچرڈ اولسن کے درمیان ہونے والی ملاقات کے حوالے سے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق دونوں فریقوں نے پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم، صحت اور توانائی کے شعبے میں تعمیری تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

اعزاز چوہدری نے چار فریقی مفاہمی گروپ میں پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ گروپ افغانستان میں قیام امن اور مفاہمی عمل کے لئے انتہائی اہم اور موثر پلیٹ فارم ہے۔

دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق رچرڈ اولسن نے باہمی مفادات کے معاملات پر پاکستان اور امریکا کے درمیان مسلسل تعاون پر مبنی تعلقات کو بھی سراہا۔

یہ خبر 3 جولائی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024