افراط زر 13 برس کی کم ترین سطح پر
اسلام آباد: حال ہی میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران پاکستان میں افراط زر کی اوسط شرح 2.86 فیصد رہی جو گزشتہ 13 برس میں کم ترین ہے۔
پاکستان بیورو برائے شماریات کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق افراط زر میں کمی کی اہم وجہ تیل اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی، روپے کی قدر میں استحکام اور وفاقی و صوبائی سطح پر قیمتوں کی نگرانی ہیں۔
مالی سال 2014-15 میں اوسط افراط زر 4.53فیصد تھا جبکہ 2013-14 میں 8.62 اور 2012-13 میں 7.36 فیصد تھا۔
یہ بھی پڑھیں: جولائی میں افراط زر کی شرح 8.3 فیصد رہی
کنزیومر پرائس انڈیکس یا اشاریہ صارفی قیمت (سی پی آئی) جس کے تحت ہر ماہ ملک کے بڑے شہروں میں 481 اشیائے صرف کی قیمتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے، اس کے مطابق مئی کے مقابلے میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں جون میں معمولی اضافہ ہوا اور یہ 3.17 فیصد سے بڑھ کر 3.19 فیصد ہوگئی۔
وزارت خزانہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ محتاط مالی اور زری پالیسیوں کی وجہ سے افراط زر اور اس سے وابستہ دیگر عوامل کو اعتدال میں لانے میں مدد ملی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت نے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ صارفین تک پہنچایا جس کی وجہ سے سی پی آئی میں شامل اشیائے صرف کی قیمتوں میں استحکام آیا۔
مزید پڑھیں: افراط زر کی شرح دس سال کی کم ترین سطح پر
زرعی اجناس جن کا سی پی آئی میں 37 فیصد حصہ ہے، ان اشیاء کے حوالے سے جون میں مہنگائی کی شرح 2.3 فیصد رہی جو کہ گزشتہ مالی سال میں جون کے مہینے میں 3.2 فیصد تھی۔
زرعی اجناس کی قیمتوں میں کمی کی وجہ جلد خراب ہوجانے والی کھانے کی اشیاء کی قیمتوں میں 1.82 فیصد کمی کی وجہ سے واقع ہوئی۔
ماہانہ بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو جون میں افراط زر میں 1.4فیصد اضافہ ہوا کیوں کہ جلد خراب ہوجانے والی اشیاء کی قیمتوں میں 7.87 فیصد جبکہ دیر تک چلنے والی اشیاء کی قیمتوں میں 0.19 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
جن اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ان میں ٹماٹر 61 فیصد، آلو 45.5فیصد، انڈے 8.5 فیصد، تازہ سبزیاں 5.9 فیصد، چنا 5.7 فیصد، تازہ پھل 2.5 فیصد، بیسن 2.4 فیصد، دال 2.2 فیصد اور چاول 1.4 فیصد مہنگے ہوئے۔
غیر مسقتل قیمتوں کے حامل غذائی اجناس اور توانائی کی قیمتوں کو نکال دیا جائے تو بنیادی افراط زر کی شرح جون 2016 میں 4.6 فیصد ریکارڈ کی گئی جو گزشتہ ماہ کی نسبت 0.1 فیصد زیادہ ہے۔
افراط زر کی شرح میں کمی کہ وجہ سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو بھی شرح سود 42 سال کی کم ترین سطح 5.75 فیصد پر لانی پڑی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اسٹیٹ بینک کا شرح سود میں کمی کا اعلان
سخت مانیٹری پالیسی اور خوارک اور توانائی کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے بنیادی افراط زر کو قابو میں رکھنے میں مدد ملی۔
وزارت خزانہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتی شعبوں کی جانب سے قرض لینے کی شرح جولائی سے مارچ 2015-16 کے دوران 6.26 فیصد کمی واقع ہوئی جس کی وجہ سے بنیادی افراط زر بھی کم ہوا۔
نان فوڈ افراط زر 3.8 فیصد ہی جو گزشتہ ماہ 3.9 فیصد تھی، نان فوڈ گروپ میں ایجوکیشن انڈیکس میں 0.18 فیصد اور صحت میں 0.13 فیصد اضافہ ہوا، سب سے زیادہ اضافہ 4.24 فیصد الکوحل مشروبات اور تمباکو کے انڈیکس میں ہوا۔
حساس قیمتوں کے اشاریے (ایس پی آئی) کے تحت افراط زر میں 1.31 فیصد جبکہ اور ہول سیل پرائس انڈیکس (ڈبلیو پی آئی) کے تحت افراط زر منفی 1.05 فیصد رہی۔
ڈبلیو پی آئی میں کمی اس بات کا اشارہ ہے مقامی اشیائے صرف کی مانگ کم ہے اور اس کی وجہ قوت خرید میں کمی ہے۔
تعمیراتی شعبے میں شرح نمو منفی تک پہنچنا معیشت میں تفریط زر کا اشارہ ہے۔
یہ خبر 2 جولائی کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔