• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

لاہور کے سرکاری ہسپتال میں میرے 10 تکلیف دہ دن

شائع July 2, 2016 اپ ڈیٹ July 3, 2016
پاکستان میں کچھ لوگ محض ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی غیر حاضری اور ڈائیلیسز میشین کی عدم دستیابی سے موت کا شکار بن جائیں گے — کری ایٹو کامنز
پاکستان میں کچھ لوگ محض ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی غیر حاضری اور ڈائیلیسز میشین کی عدم دستیابی سے موت کا شکار بن جائیں گے — کری ایٹو کامنز

شام کے تقریباً 4 بجے ایک مریضہ، جسے مرگی کا دورہ پڑا تھا، کو لاہور کی ایک سرکاری ہسپتال کے زنانہ ایمرجنسی وارڈ میں منتقل کیا گیا۔ یکے بعد دیگرے ہسپتال کے ڈاکٹرز اس کا معائنہ کرتے، انہیں لاتعداد ڈرپس لگائی جاتیں، مگر ان میں سے کوئی چیز ان کے شدید دورے کو قابو میں نہیں لا پا رہی تھی۔

انہیں ہر ایک منٹ کے وقفے کے بعد دورہ پڑتا۔ وہ مریضہ میری کزن تھیں۔

میری کزن کو نیورولاجسٹ کی ضرورت تھی۔ وارڈ کے ڈاکٹرز جتنا کر سکتے تھے انہوں نے وہ سب کیا، مگر وہاں کوئی بھی اسپیشلسٹ دستیاب نہیں تھا جو ان کی ابتر حالت کے پیش نظر مناسب ادویات تجویز کرسکتا۔

ہماری ایمرجنسی 24 سے 27 دسمبر کی طویل ہفتہ وار چھٹیوں میں واقع ہوئی تھی۔ جب ہم نے ان سے کہا کہ ہم مریضہ کو ہسپتال کے نیورو اسپیشلسٹ کو دیکھانا چاہتے ہیں، تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ چھٹیوں کے بعد ہی دستیاب ہوں گے، بھلے ہی اس دوران کوئی ایمرجنسی کیسز ہی کیوں نہ ہوں۔

پڑھیے: سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی حالت زار

ہسپتال میں موجود ایک جونیئر ڈاکٹر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا: ''حتیٰ کہ ہمیں پروفیسر کو فون کرنے کی بھی اجازت نہیں۔''

اس طرح مناسب علاج کے لیے میری کزن کا سب سے طویل اور انتہائی تکلیف دہ انتظار شروع ہوا، اور ہمارا گھرانہ انہیں شدید کرب میں لاچاری سے دیکھتا رہا۔

جب ہم انتظار کر رہے تھے، تو اسی اثنا میں میری کزن کے پیروں کو کاسٹ میں ڈالا گیا تھا کیونکہ مرگی کے دوروں کے دوران ان کے اعصاب تناؤ کا شکار ہو گئے تھے — اس حالت کو فُٹ ڈراپ کہتے ہیں۔

اس دوران میں نے اپنے ہر ڈاکٹر دوست سے رابطہ کیا کہ شاید کوئی مجھے اس اسپیشلسٹ تک پہنچنے میں مدد کر سکے۔ میں سوچنے لگی کہ اگر ہم جیسے اچھے خاصے متوسط طبقے کے گھرانے کا اس ہسپتال میں ایسا حشر ہے تو پھر ان بے چارے ملک کے پسے ہوئے طبقے کا کیا حال ہوتا ہوگا جو یہاں اپنے علاج کی غرض سے یہاں آتے ہیں؟

انصاف سے کہوں تو وہاں ادویات بے حد کم قیمت پر دستیاب تھیں اور ہر کچھ گھنٹوں بعد جنرل فزیشن وارڈز کا دورہ بھی کرتا تھا۔

مگر جس چیز نے مجھے ذہنی اضطراب کا شکار بنایا، وہ یہ کہ نہ صرف ہیڈ نیورولاجسٹ چھٹی پر تھے، بلکہ ہنگامی حالت کے لیے ان کی جگہ پر بھی اور کوئی نیورولاجسٹ موجود نہیں تھا۔ یہاں تک کہ ان نیورولاجسٹ کی غیر حاضری میں نیورولاجی ڈپارٹمنٹ ہی پورے چار دنوں تک بند رہا۔

کسی کو بھی نیورولاجی کے مریض کی پرواہ نہیں تھی کیونکہ کوئی بھی نیورولاجی کے مریض کے آنے کی توقع ہی نہیں کر رہا تھا۔

کام کا ہفتہ شروع ہونے تک ایمرجنسی وارڈ میں موجود ڈاکٹرز میری کزن کی حالت کافی حد تک قابو میں لانے میں کامیاب رہے تھے۔ جب چھٹیاں ختم ہوئیں، تب بھی ان اسپیشلسٹ ڈاکٹر کو میری کزن کے پاس آنے کی فرصت نہ ملی؛ خود آنے کے بجائے انہوں نے اپنا جونیئر ڈاکٹر بھیج دیا۔

مزید پڑھیے: علاج اچھا، پر غریب کے لیے نہیں

بہت دیر کے بعد بالآخر جب متعلقہ ڈاکٹرز میری کزن کے پاس پہنچے تو انہوں نے ایم آر آئی کروانے کی تجویز دی۔ ہسپتال میں بہت سی ضروری مشینوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہمیں مجبوراً نجی کلینک کا رخ کرنا پڑا، وہ بھی اپنے آپ میں ایک عذاب تھا کیونکہ وہاں نہ مناسب اسٹریچر تھے اور نہ ہی ایمبولینسیں۔

جب تک میری کزن ہسپتال میں داخل رہیں، میں ہر روز آنے والی مریضوں کی بڑی تعداد کو دیکھ کر سوچ میں پڑ جاتی تھی کہ انتہائی کم آلات سے آراستہ اس ہسپتال میں ان کا علاج کس طرح ہوتا ہوگا۔ یونٹ کے کئی وارڈز میں بستروں کی کمی وجہ سے اکثر اوقات نرسیں دو مریضوں کو ایک ہی بستر پر لیٹا دیتی تھیں۔

بستروں کے ساتھ ڈرپس یا خون کی بوتلوں کو لٹکانے کے لیے کوئی اسٹینڈ بھی نہ تھا؛ ہسپتال کا اسٹاف دیوار پر لگی کیلوں کے سہارے انہیں ٹانگ دیا کرتا۔

دیواریں بہت میلی تھیں، صفائی کا فقدان تھا اور بلیاں آزادی سے گھوم پھر رہی تھیں اور مریضوں کے کھانوں میں منہ مار رہیں تھیں۔

وہاں پر کوئی تخلیہ بھی نہ تھا، اگر کسی مریض کو برتن میں رفع حاجت کرنی ہوتی تو تیزی سے پردوں کو گھسیٹا جاتا اور دیگر مریضاؤں کے تمام مرد رشتہ داروں کو باہر جانا پڑتا۔

مردوں کے وارڈ کی حالت تو اور بھی بدتر تھی؛ وارڈ مریضوں سے بھرا ہوا تھا یہاں تک کہ مریض اسٹریچرز پر راہداری میں بھی پڑے ہوئے تھے۔

مگر اس سب کے باوجود بہت سارے ڈاکٹرز اور دیگر اسٹاف کافی مددگار ثابت ہوئے مگر ان کے اوپر اضافی کام کا بوجھ بھی صاف نظر آ رہا تھا۔ ان کی مرہونِ منت ہی میری کزن کو دورے آنا بند ہوئے تھے اور ہم انہیں گھر لے جانے کے قابل بن سکے۔ ہم ہسپتال میں پورے دس دن رہے مگر نیورو اسپیشلسٹ کو دیکھ نہیں پائے۔

جانیے: معذوری کی وجہ: ڈاکٹروں کی غفلت

جب کبھی بھی اس واقعے کو یاد کرتی ہوں تو مجھے وہ درد یاد آتا ہے جو اپنے پیارے کو بیماری میں تڑپتے ہوئے دیکھنے پر محسوس ہوتا ہے۔ مجھے تکلیف میں مبتلا تمام مریض بھی یاد آتے ہیں جو اس ہسپتال میں اس امید سے اندر داخل ہوتے تھے کہ یہاں انہیں تھوڑا بہت قرار مل سکے گا مگر انہیں وہاں کچھ ایسا حاصل نہیں ہو پاتا۔

تو کیا ہمیں اپنی نگہداشت خود کرنے پر چھوڑ دیا گیا ہے؟

بظاہر ایسا یقینی لگتا ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ ماضی قریب میں کسی سیاستدان نے کسی سرکاری ہسپتال کا دورہ کیا ہو۔ بلکہ ملک میں سب سے زیادہ آبادی رکھنے والے صوبے کے پاس تو وزیر صحت تک نہیں۔

یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ یہ یقینی بنانا کس کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان میں سرکاری ہسپتالوں کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر ذاتی کلینکس کے بجائے سرکاری ہسپتالوں میں موجود مریضوں کا باقاعدگی سے علاج کریں؟

اور سرکاری ہسپتالوں میں جہاں سخت قوانین کی کمی ہے وہاں قوانین پر عملدرآمد یقینی ہو جس سے لوگوں کو بروقت صحت کی سہولیات میسر ہوں؟

اور جب ملک کے وزیر اعظم کے پاس اپنے طبی مسائل کی تشخیص کے لیے لندن جانے کے شاہانہ وسائل رکھتے ہیں، تو کیا پاکستان کے لوگ اپنے ملک میں ہی مناسب علاج کے مستحق نہیں ہیں؟

وزیر اعظم صحت پروگرام جیسے اقدامات مسئلے کو حل کرنے کے عارضی انتظامات ہیں جو ہمارے انتہائی بیمار طبی نظام کے لیے ناکافی ہیں۔

پاکستان میں کچھ لوگ تو محض ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی غیر حاضری اور ڈائیلائیسز میشین کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہی موت کا شکار بن جائیں گے۔

ایسے میں جب ہم صحت کے شعبے پر مجموعی قومی پیداوار کا صرف 0.9 فیصد خرچ کرتے ہیں، تو دفاع پر 20 فیصد اور وزراء کے مفت بیرونِ ملک دوروں کی توجیہہ کس طرح پیش کر سکتے ہیں؟

آپ بھی بتائیے: کیا آپ یا آپ کا کوئی عزیز سرکاری ہسپتالوں میں ایسی صورتحال سے گزر چکا ہے؟ اپنی رائے نیچے کمنٹس میں دیجیے۔

حرا نفیس شاہ

حرا نفیس شاہ فل برائٹ اسکالر ہیں، اور کولمبیا یونیورسٹی کے اسکول آف جرنلزم سے ماسٹرز کر چکی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: HiraShah05@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (12) بند ہیں

Saleem Niazi Jul 02, 2016 01:09pm
haan aor us k baad main ne haspatal jany se tobaa kr li. Allah hakomat e waqt ko hadyat dy haspetl ko set krny ki.
ahmaq Jul 02, 2016 02:32pm
You can see worst stories in the hospitals ۔ It was about 4 in the evening January 11 this year when my brother was admitted in JPG Lahore. The head doctor came and told us he needs stunts and I need money. Arrange it or let him die. My brother died next afternoon at 1300 pst five hours after the mony was arranged without any stunts
Imran Jul 02, 2016 02:51pm
tabsra ye hai k khadim aala apny city ko bhi theek nai ker saky.
انوارالحق Jul 02, 2016 03:05pm
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ انسان کا غریب پیدا ہونا جرم نہیں مرنا جرم ہے. میری زندگی کا نصف سے زیادہ حصہ ہسپتالوں کی مٹر گشت میں گزرا کبھی خود مزدوری کرتے ہوۓ زخمی ہوکر کبھی بچے کی ایکسﮈنٹ میں ٹانگیں ٹوٹنے پر اور کبھی شریک حیات کو تپ دق جیسامرض لاحق ہونے پر. اگر علاج میں کمی رہی تو اس میں سرکاری ہسپتال یا ﮈاکٹر کو کیوں مورد الزام ٹھراؤں? غریب پیدا ہوکر میں غریب کیوں رہا ? ہمارے وزیراعظم ایک غریب مزدور کے بیٹے تھے پانامالیکس کے جواب میں اسمبلی میں بقول ان کے,لیکن دن رات محنت کرکے خون پسینے کی کمائ سے انہوں نے یہ مقام حاصل کیا کہ حکومت بنانے کے لیے چھانگامانگامیں ممبر اسمبلی خریدے اور پھر ترقی کرتے ہوۓ بیرون ملک علاج کے قابل ہوۓ. اگر وزیراعظم محنت کرکے غربت کی جہنم سے نکل سکتے ہیں تو ہم عام غریب لوگ کیوں نہیں?
حافظ Jul 02, 2016 04:42pm
ووٹنگ میں زیرو نہیں تھا اس لئے 1 پر کلک کیا ہے
انیقہ علی Jul 02, 2016 05:59pm
اگر حرا جی کو پتہ تھا کہ نیورالوجی کیس ہے، تو انہیں ڈاکٹروں کا انتظار کرنے کی بجائے مریضہ کو جنرل ھسپتال چونگی امرسدھو نزد قینچی موڑ لاہور میں ریفر کرنے کا سوچنا چاہیے تھا۔ جنرل ھسپتال کی خصوصیت نیورالوجی ہے۔
irfan Jul 03, 2016 06:58am
ہمارے سرکاری بلکہ کچھ پرائیویٹ اسپتال عوام کو اوپر پہہچانے کا ایک درد ناک ذریعہ ہیں!!!!
KH Jul 03, 2016 03:54pm
100% Agreed with Anwar Ul Haq Sb.
Razzak Abro Jul 03, 2016 09:49pm
I have voted on number one in above survey. However, whenever I did visit to a government hospital it was satisfactory for me to think that govt hospitals are great source of medical treatment for common people. Do we not know medical treatment at private institutions is out of reach of poor segment of society. I have observed that government hospitals have top and experienced doctors and medical staff. They are much better than those doctors and staff working at many private hospitals. We only need good administrators and continuous monitoring at govt. hospitals.
khanz Jul 04, 2016 03:18am
me ne no 3 vote kia hy because KPK me hospitals ki halat itni buri nahe hy pichle dino muje Mardan medical complex jana para jahan per taqreeban her department me 3,3 doctors mojood they agar koi doctor chuti b krta to peche 2 doctor mojjod hote hn
حسن اکبر Jul 04, 2016 07:22am
بہتری کی گنجائش موجود ہے ۔ لیکن پھر بھی سرکاری ہسپتال کئی نجی ہاسپٹل سے بہتر ہیں۔ سال 2013 کو میری والدہ کو کینسر ہوگیا۔ شروع میں شوکت خانم گے ۔ سب سے پہلے تو یہ معلوم ہوا شوکت خانم میں ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے مریض کو کوئی رعایت نہیں دی جاتی ۔ صرف تین ماہ میں شوکت خانم کے ٹیسٹ و دیگر اخراجات پر سات لاکھ پچاس ہزار روپے خرچ ہوئے ۔ اور ان کے بقول میری والدہ کے زندہ رہنے کے صرف دس فیصد امکانات ہے ۔ پھرہم مایوس ہو کر ان کو سرکاری ہاسپٹل انمول لاہور میں لے آیا۔وہاں ان کا تقریبا سات ماہ علاج جاری رہا ۔ اور صرف دو لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ ماشااللہ اب گذشتہ تین سال سے میری والدہ بالکل ٹھیک ہیں۔ اور بیماری سے پہلے کی طرح زندگی گزار رہی ہیں۔
Waqas Mahmood Jul 04, 2016 03:09pm
سرکاری ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز اور ایک مرغی فروش کی دوکان کا منطر ایک جیسا لگتا ہے۔ نئے ڈاکٹرز ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی بڑی تعداد عوام کو کچھ نہیں سمجھتی۔ جب حکومت ہی نااہل ہو وہاں یہی کچھ ہوگا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024