بغداد بم دھماکوں سے گونج اٹھا، 39 افراد ہلاک

بغداد: عراق کے دارالحکومت بغداد میں پیر کی شام مارکیٹوں اور گیراج میں ہونے والے دس بم دھماکوں میں کم از کم 39 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔
ان دھماکوں میں شیعہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سنیوں کے علاقے کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کے باعث بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔
پیر کو صدر شہر میں ہونے والے دھماکے میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے جہاں ایک عینی شاہد کے مطابق دھماکا ہوتے ہی افراتفریح پھیل گئی اور لوگ مختلف سمتوں میں بھاگنے لگے۔
وسطی ضلع کرادا میں ہونے والے دو کار بم دھماکوں میں آٹھ افراد ہلاک ہو گئے، ان میں ایک دھماکا گیراج میں ہوا تھا جبکہ مغربی ضلع جہاد کی مارکیٹ میں یکے بعد دیگرے ہونے والے دو بم دھماکوں میں بھی آٹھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔
اس کے علاوہ موصل میں ایک کیفے میں ہونے والے بم دھماکے میں بھی 5 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جس کے بعد پیر کو عراق میں ہلاکتوں کی تعداد 40 سے زائد ہو گئی۔
ایسے پرتشدد واقعات کا آغاز، عراق پر اتحادی فوجوں حملے کا بعد ہوا تھا تاہم پچھلے ماہ مئی میں مرنے والے افراد کی تعداد نے 2008 میں ہلاک ہونے والوں کو پیچھے چھوڑ دیا، اگرچہ اس قسم کے واقعات کے بعد سے یہ خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ کہیں یہ تشدد 2006ء اور 2007ء کی فرقہ وارانہ جنگ سے آگے نہ بڑھ جائے-
ناقدین کے مطابق عراق میں دسمبر 2011 میں امریکی فوج کے انخلا کے بعد اہل تشیع صدر نوری المالکی نے عدلیہ اور سیکیورٹی فورسز پر اپنا اثر ورسوخ مظبوط کرتے ہوئے متعدد بڑے سنی رہنماؤں کو گرفتار کروایا تھا۔
اس دوران شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے باعث بھی عراق کے حالات مزید خراب ہوئے۔
مبصرین نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ حکام کی قیادت کی ناکامی کے باعث سنی برادری کے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں بڑھاوا دیا۔
اقوام متحدہ (یواین) کے عراقی سفیر مارٹن کوبلر نے پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ پرتشدد واقعات مزید خطرناک شکل اختیار کرسکتے ہیں اور ان میں تیزی آ سکتی ہے-
وزیراعظم نوری المالکی نے کشیدگی کم کرنے کے لئے حال ہی میں اپنے کٹر مخالفین سے بھی ملاقات کی ہے جن میں پارلیمینٹ کے سنی اسپیکر اور علاقہ کرد کے خودمختار صدر شامل ہیں-
ملک کے بڑے سیاستدان مسلسل سیاسی تنازعات کو حل کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں تاہم تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ سب پرتشدد حادثات سے منسلک ہیں اور اس معاملے میں ابھی تک کوئی نمایاں پیشرفت سامنے نہیں آئی ہے۔