انگلینڈ کو شکست دینی ہے؟ یہ کام عامر پر چھوڑ دیں
اگر کرکٹ کے منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان کا دورہ انگلینڈ کسی بڑے چیلنج سے کم دکھائی نہیں دے رہا۔
انگلینڈ، نے حال ہی میں سری لنکا کو 0-2 سے شکست دی ہے، اور جولائی 2014 سے اپنی سر زمین پر فتح کا ریکارڈ قائم رکھے ہوئے ہے۔
اگر اس طرح کی مضبوط ٹیم کو شکست دینی ہو تو کامیابی کا نسخہ، پاکستانی ٹیم کی بنیادی قوت، یعنی باؤلنگ لائن میں چھپا ہے۔ انگلینڈ کا مناسب موسم پاکستانی ٹیم کے لیے باؤلرز کو شاندار انداز سے سوئنگ، تیز گیند بازی اور گیند باؤنس کرنے کے لیے موزوں ہے۔
میرے خیال میں اگر پوری پاکستانی ٹیم اپنے فاسٹ باؤلرز کے ساتھ نظم و ضبط اور سمت منسلک کر لے، تو تماشائیوں کو شاندار مقابلہ دیکھنے کا موقعہ ملے گا۔
اگر میچ میں کامیابی چاہیے تو انگلینڈ کے ٹاپ آرڈر کو مفلوج کرنا بہت ضروری ہوگی۔
پچھلے سال مئی میں انگلینڈ کے ٹاپ آرڈر نے اپنی سرزمین پر 1690 رنز داغے، جس میں نصف رنز تنہا الیسٹیئر کُک نے اسکور کیے۔
اب اگر ہمیں ابتدائی وکٹیں چاہیئں تو ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ ہمیں یہ کام صرف عامر پر چھوڑ دینا ہے۔
138 سے بھی زیادہ رفتار کے ساتھ دونوں جانب گیند کو سوئنگ کرنے کی ناقابل یقین صلاحیت اس 24 سالہ کھلاڑی کو ایک ایسی زبردست قوت کا حامل بناتی ہے جس پر ٹیم انحصار کر سکتی ہے۔
سب سے اہم بات یہ کہ ان کی مسلسل آف اسٹمپ سے تھوڑا باہر جاتی گیند سے انگلینڈ کے اہم ترین کھلاڑی کُک سے جلد از جلد چھٹکارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
2010 میں عامر نے اپنے اہم دورے کے دوران کُک کو تین بار آؤٹ کیا تھا، جبکہ انہوں نے مڈل اسٹمپ سے دور جاتی گیند کروا کر کُک کی کمزوری سے بھی پردہ اٹھا دیا۔ یہی حکمت عملی کومپٹن اور ہیلز کے خلاف بھی استعمال کی جاسکتی ہے، جو زیادہ تر کُک کے ساتھ ٹاپ آرڈر میں شامل ہوتے ہیں۔
چونکہ ٹیسٹ میچز میں ان کھلاڑیوں نے عامر کا پہلے کبھی بھی سامنا نہیں کیا، اس لیے پاکستان یقینی طور پر عامر کے باکمال ہاتھ میں نئی گیند کو انگلینڈ ٹاپ آرڈر کے خلاف بخوبی استعمال کر سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے خوش قسمتی کی بات یہ بھی ہے کہ عامر انگلینڈ کی پچ سے بالکل بھی انجان نہیں ہیں۔
2010 میں لارڈز، برمنگھم اور کینینگٹن اوول کے میدانوں میں انہوں نے 19 وکٹیں لیں جبکہ وہاں ان کی اوسط 18 اعشاریہ 36 رہی۔
انگلینڈ کے دورے میں پاکستان ان میدانوں میں ہی کھیلے گا۔ عامر جلد ہی انگلینڈ کے حالات میں خود کو ڈھال کر اپنی ٹیم کو بڑی وکٹیں دلوا سکتے ہیں۔
اس کے بعد وکٹوں کے سلسلے کو جاری رکھنے کا بوجھ سہیل خان، راحت علی اور وہاب ریاض کے کندھوں پر ہوگا۔
سہیل جو کہ ممکنہ طور پر عامر کے ساتھ نئی گیند شیئر کریں گے، ایک غیر پیچیدہ فاسٹ باؤلر ہیں جو ٹیم کو مشکل سے نکالنے کا جذبہ بھی رکھتے ہیں۔
کسی کھلاڑی کو پیڈز پر جھک کر کھیلنے پر مجبور کرنے سے پہلے نرالے انداز میں آف سائیڈ سے کافی دور چند سیدھی گیند پھینکنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔
انگلینڈ کے اپر مڈل آرڈر کو شاٹ کھیلنا بہت پسند ہے، لہٰذا جب سہیل خان بالنگ کر رہے ہوں تو سلپ فیلڈرز کو کئی شاندار مواقع حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
ٹیم میں راحت علی کی شمولیت پاکستان کو ایک ایسا سوئنگ بالر فراہم کرسکتی ہے جس کا سائیڈ- آن ایکشن سیدھے ہاتھ کے بیٹسمین سے گیند کٹ کر کے نکال سکتا ہے۔ فروری 2013 میں جنوبی افریقا کے خلاف ان کے ابتدائی میچ کے بعد سے اس کھلاڑی کو کھیلنے کے بہت ہی کم مواقع فراہم کیے گئے اور اسی وجہ سے زیادہ تر ان کی افادیت نظر انداز رہی ہے۔
انگلینڈ کے مڈل آرڈر، یعنی روٹ، بیرسٹو اور ونس کو ان کی سوئنگ کی رینج کی وجہ سے باہر جاتی ہوئی گیند کے تعاقب میں لائن سے ہٹ کر بیٹنگ کرنی پڑے گی۔ ہلتی ہوئی گیند کو تیزی سے کھیلنا کھلاڑیوں کے لیے کسی چیلنج سے کم نہ ہو گا۔ اور اس طرح مخالف سخت امتحان سے دو چار ہوجائیں گے۔
اس شاندار کھلاڑی کے ساتھ وہاب کی جانبازی کو ملا دیجیے تو پھر انگلینڈ کے میچ بچانے والے کھلاڑی، جو روٹ کو آوٹ کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہو جائے گا۔ مئی 2015 سے اب تک بنائے گئے 730 رنز میں آسٹریلیا کے خلاف میچ میں بازی پلٹنے والی دو سینچریاں بھی شامل ہیں۔
ان کی دھواں دار بیٹبگ کے دوران انہوں اپنی بیٹنگ کی کچھ کمزور جگہوں کا بھی مظاہرہ کیا.
کچھ مواقع پر میچل اسٹارک نے مڈل اسٹمپ پر آتی ہوئی گیندوں سے پریشان رہنے کے بعد روٹ سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
وہاب ریاض کی 140 کی رفتار کے ساتھ شارٹ بال سے محبت کون نہیں جانتا۔ اس طرح میچل اسٹارک کو آؤٹ کرنے کا کام اور بھی آسان ہو جانا چاہیے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ، جیسے جیسے میچ آگے بڑھے گا ویسے ویسے برطانوی پچ پرانی اور اس میں دراڑیں ہوتی جائیں گی۔ اب وقت آتا ہے کہ پاکستانی ٹیم یاسر شاہ اور ذولفقار بابر کی صورت میں اپنا اکہ باہر نکالے۔
چوتھے دن کی دراڑ شدہ پچ پر یاسر کی لیگ-اسپن گیند انگلینڈ کے لیے کافی مہنگی ثابت ہوسکتی ہے۔ جس کی مثال ہم نے نومبر میں انگلینڈ کے خلاف دیکھ لی جب انہوں نے 15 وکٹیں لی تھیں۔
ذولفقار بابر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ ان کی جادوئی فلائیٹ اور ٹرن یاسر جیسے ہی ہیں۔ جب اسی ماہ، شارجہ میں انگلینڈ کو 156 رنز تک محدود رکھا۔
تاہم اگر پاکستان ان میں سے کسی ایک اسپنر کے ساتھ دورے پر جاتا ہے تو ڈرا کی طرف جاتے میچ کو فتح میں تبدیل کرنے کے روشن امکانات ہیں۔
اسپن پر قطعی طور پر پاکستانی ٹیم کی انگلینڈ پر سبقت اور اس کے ساتھ ساتھ فاسٹ باؤلرز کی صلاحیت، دورہ انگلینڈ میں ان کی ہی سرزمین پر مات دینے میں اہم ثابت ہوگی۔
اگر ان تمام مقاصد کا حصول ممکن ہوجاتا ہے تو پاکستان انگلینڈ کو بڑا اسکور سجانے سے روک سکتا ہے جس کا تعاقب پاکستان کی کمزور بیٹنگ لائن اپ کے لیے ممکن ہو سکے گا۔