ایک پردیسی کی عید کی روداد
پردیسی عیدیں مناتے بہت سال ہو گئے مگر ایک گفتگو کے نتیجے میں سوچا کہ اپنے ہم وطنوں کو بھی اپنی سہانی اور دلچسپ عیدوں کی روداد سنانی چاہیے۔
بہت سارے لوگ پردیس کی برانڈڈ زندگی اور ماڈرن طرز زندگی سے تو متاثر ہوتے ہیں مگر ان پھولوں کے ساتھ جتنے کانٹے اگتے ہیں ان سے کچھ خاص واقفیت نہیں رکھتے۔ چنانچہ کچھ الفاظ اپنے ہم وطنوں کے لیے پیش خدمت ہیں۔
پردیسی عید کی ایک سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ ہمیشہ ایک جیسی نہیں ہوتی، یہ آپ کو ہر سال ایک نئے انداز سے نظر آتی ہے اور اس کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ آپ کے عزیز و اقارب کی تعداد کتنی ہے، آپ کے آس پاس کتنے رشتہ دار بستے ہیں، آپ کیسے علاقے میں رہتے ہیں، وغیرہ۔
اگر آپ ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں آس پاس آپ کی کمیونٹی کے لوگ کثیر تعداد میں پائے جاتے ہوں توعید آپ کے لیے خاصی مصروف اور پررونق ہوجائے گی اور اگر آپ ہماری طرح کسی دوسری کمیونٹی کے علاقے میں رہتے ہیں تو اس عید کو خوبصورت بنانے کے لیے خاصی تگ و دو کی ضرورت ہے۔
مجھے ابو ظہبی میں اپنی پہلی عید آج بھی یاد ہے، جب ہم اپنی ایک سالہ بیٹی کے ساتھ ابو ظہبی کے ایک علاقے مصحفہ کی گلیوں میں عید کی رات باہر نکلے تھے تب اس کی گاڑیوں سے بھری رہنے والی سڑکیں کسی ویرانے کا منظر پیش کر رہی تھیں۔
سارا علاقہ سیر و تفریح، بار بی کیو پارٹیز یا دبئی یاترا کے لیے روانہ ہو چکا تھا۔ یہاں پر تارکین وطن کثیر تعداد میں ہونے کی وجہ سے اکثریت کا بہترین مشغلہ پارکس میں جا کر اس کے خوبصورت گھاس سے بھرے گراؤنڈز میں بار بی کیو کرنا ہے یا پھر دبئی کی طرف کوچ کر جانا اور اس کے مالز میں ہونے والی مختلف مفت سرگرمیاں دیکھنا ہے۔
ہم چونکہ ابھی نئے نویلے تھے، لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے کار نہ تھی تو ابو ظہبی جیسے چھوٹے سے شہر کے لمبے لمبے فاصلے اپنی مدد آپ کے تحت طے کرنے کے مجاز نہ تھے، چنانچہ بیٹی کے ہمراہ چہل قدمی کرنے ابو ظہبی کی سڑک پر نکلے تو ہر طرف خاموشی اور سکوت راج کرتا نظر آیا۔
اس وقت نہ کارپیٹڈ سڑکیں خوبصورت لگ رہی تھیں نا چمچماتی عمارتیں۔ جہاں پر رشتوں کی اور محبتوں کی ضرورت ہو وہاں خوبصورت شہر اور شیشے کی سڑکیں اپنا حسن بے معنی لگتی ہیں۔
پچھلے چند سالوں کی عدیں کبھی بھولا کبھی یاد کیا کے مترادف، کبھی سوتے کبھی جاگتے، کبھی آہیں بھرتے کبھی دن گزرنے کا انتظار کرتے گزریں۔ پردیس میں ہونا آپ کے اپنے وطن میں ہونے کے مترادف کبھی نہیں ہو سکتا جہاں پر شاندار یا چھوٹا گھر آپ کو اپنے والدین کی طرف سے مفت میں مل جاتا ہے، گھر کا ساز و سامان جہیز کے نام پر لڑکی کے ساتھ آ جاتا ہے اور اگر جوائنٹ فیملی میں رہتے ہوں، تو زندگی کے نصف اخراجات کوئی دوسرا ادا کر دیتا ہے۔
یہاں پر تو پانی پینے کے لیے بھی جیب دیکھنی پڑتی ہے کہ یہاں پینے کا پانی اپنے نلکوں اور ٹونٹیوں میں نہیں دوکان سے آتا ہے۔ لہٰذا عید جیسے تہوار پر آپ کو ملنے ملانے کے لیے ایک کثیر رقم درکار ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے آپ کے پاؤں مضبوطی سے جمنے لگتے ہیں تب آپ اس قابل ہوتے ہیں کہ عید جیسی عیاشیاں برداشت کر سکیں۔
یہاں پاکستان جیسے سستے موبائیل پیکجز دستیاب نہ تھے کہ پاکستان سب کو عید مبارک کا فون کر سکیں چار و ناچار انتظار کی ایک لمبی مزدوری کرنی پڑتی تھی کہ کسی کو فرصت ملے تو کوئی ہمیں فون کرے۔
انٹرنیٹ جتنا ہائی اسپیڈ تھا اتنا ہی مہنگا اور شروعاتی سالوں میں جب بندہ ہر درہم کو روپوں میں بدلتا ہے، اور تنخواہیں قلیل ہونے لگتی ہیں جبکہ مہنگائی آسمانوں کو پھاڑتی دکھائی دیتی ہے، تو سات ہزار کمانے والا پانچ ہزار گھر کا کرایہ دے کر پچاس درہم کا گوشت کیسے لائے؟ سو عیدوں کو خوبصورت کرنے والے اسباب سکڑتے جاتے ہیں۔
اگلے کچھ سالوں میں لوگوں پر قیامت بن کر ٹوٹنے والی عالمی مندی و کساد بازاری نے اپنے ہاتھوں بچ جانے والے لوگوں کے لیے یہ اچھا کیا کہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے والے کرائے کم ہونے لگے، تو پاؤں جمانا کچھ آسان ہوا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ عید کے روز دوست احباب کے ساتھ دعوتیں منعقد کی جانے لگیں۔
تارکین وطن کی اکثریت ہزار ہا درہموں کے عیوض ملازمین رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتی، چنانچہ دو تین مہمانوں کو گھر بلانا ہی آپ کو اگلے تین دن تک سخت مصروف رکھنے کے لیے کافی ہے۔
بہرحال بچوں کی عید شاپنگ شروع ہوئی، دوست احباب کو کھانوں پر بلایا جانے لگا اور موبائل اور انٹرنیٹ کا خرچ برداشت پونے لگا تو تنہا اور اداس عیدوں میں جان پڑنے لگی۔
مگر دلی ہنوز دور است، یہ کاٹھ کی ہنڈیا بھی زیادہ دن نہ چڑھ سکی کیونکہ کچھ لوگ آپ سے نیچے بھی ہیں جو آپ جتنا خرچہ نہیں کر سکتے سو آپ سے ملتے کتراتے ہیں اور کچھ آپ سے اوپر ہیں اور اب آپ کتراتے ہیں کہ اپنا کمبل چھوٹا ہے۔
گزرے سالوں نے ہمارے قدم جما کر ہمیں آسودہ حال لوگوں میں شامل کردیا ہے تو اب عید منانے کا ایک نیا طرز سامنے ہے، عید کی چھٹیوں پر کسی ریزورٹ کی بکنگ کروا لیں اور دو دن ان کی سہولتوں سے خوب فائدہ اٹھائیں. سارا دن بچوں کے ساتھ پول میں گزاریں، جھولے جھولیں، پکے پکائے کھانے کھائیں، اعلیٰ رہائش اور سہولتوں کا خوب لطف اٹھائیں۔
اگر اس سے بھی زیادہ پیسے ہیں تو یہ ہوٹل یا ریزورٹ کسی دور دراز ملک کا بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ عید منانے اپنے رشتہ داروں سے ملنے اپنے شہر یا گاؤں چلے جائیں، بس اس کے لیے چاہیئں تو ڈھیر سارے درہم یا ڈالر۔
عید بکر کی کہانی میں کچھ اور بھی مصالحے ہیں جو اس کا ذائقہ مزید ترش کر دیتے ہیں۔ مثلاً قربانی کا جانور یہاں پاکستان سے زیادہ مہنگا ہے لیکن اس سے زیادہ مشکل ہے اس سے وابستہ لوازمات۔
یہاں آپ اپنے گھر کے سامنے یا ساتھ والے پلاٹ میں کسی بھی خالی جگہ پر جانور گرا کر قربانی نہیں کر سکتے ورنہ جرمانے کی صورت میں آپ کی قربانی ہو جانا یقینی ہے۔
چنانچہ آپ سلاٹر ہاؤس، جو شہر کے دوسرے کونے میں ہیں، وہاں جائیں اور جا کر لمبی لائنوں میں کھڑے ہو جائیں. خوش قسمت ہوئے تو آج ہی آپ کی باری آ جائے گی۔
اب سال میں ٹوٹل سات اضافی چھٹیاں پانے والے کا کہاں حوصلہ کہ وہ اپنا پورا دن سلاٹر ہاؤس کی لائن میں گزار دے۔ چنانچہ لوگوں کی اکثریت اپنے حصوں کی قربانیاں اپنے آبائی گھروں اپنے ہم وطنوں میں کروانے کے لیے رقم بھجوا دیتی ہے اور خود عید کے دن مارکیٹ سے گوشت خرید کر پکاتی ہے یا پیزا برگر کھا کر گزارا کرتی ہے۔
آپ کہیں بھی چلے جائیں آپ کی تواضع تکہ بوٹی، کڑاہی یا چانپ کی بجائے سینڈوچ رولز یا چکن سے ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وقت کے ساتھ یہاں سب سیکھ جاتے ہیں کہ عیدیں بکرے یا گوشت سے نہیں عزیزوں اور محبتوں سے ہوتی ہیں اور یہ کمی وہ پوری نہیں کر پاتے۔ چنانچہ اپنی قربانی کو حقیقی قربانی میں بدل کر ادھوری عیدوں پر مطمئن ہو جاتے ہیں۔
تبصرے (4) بند ہیں