عمران فاروق قتل کیس: معظم علی کی درخواست ضمانت مسترد
اسلام آباد: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینئر رہنما ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں ملوث ملزم معظم علی کی بعد ازگرفتاری درخواست ضمانت کا تحریری فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جاری دیا۔
فیصلے کے مطابق گرفتار ملزم معظم علی نے سہولت کار کا کردار ادا کیا، ابھی تفتیش مکمل نہیں ہوئی اس لیے تکنیکی وجوہات پر ضمانت منظور نہیں کی جا سکتی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس نورالحق قریشی اور جسٹس اطہر من اللہ نے 10 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا۔
یہ بھی پڑھیں : عمران فاروق قتل کیس:برطانوی تحقیقاتی ٹیم واپس روانہ
فیصلے میں کہا گیا کہ معظم علی نے عمران فاروق کے قتل میں ملوث مرکزی ملزمان کے سہولت کار کا کردار ادا کیا جبکہ قاتلوں کو فنڈز کی فراہمی اور برطانوی یونیورسٹی میں داخلے کے لیے دستاویزات فراہم کیں، خالد شمیم اور محسن علی کے اعترافی بیان میں بھی ان حقائق کا ذکر ہے، جبکہ مقدمے کا تاحال مکمل چالان بھی تیار نہیں کیا گیا، اس حوالے سے پاکستان اور برطانیہ کی تفتیشی ایجنسیوں کے درمیان معلومات کا تبادلہ بھی جاری ہے، تفتیش ابھی جاری ہے اس لیے تکینکی وجوہات پر ضمانت منظور نہیں کی جاسکتی۔
معظم علی کی درخواست ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری ہونے پر ملزم کے وکیل نے ’ڈان نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ضمانت کے حصول کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔
دوسری جانب انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج سید کوثر عباس زیدی نے ملزمان خالد شمیم ،معظم علی اور محسن علی کے جوڈیشل ریمانڈ میں 30 جون تک توسیع کر دی۔
ملزمان کے وکیل منصور آفریدی کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے جان بوجھ کر پروسیکیوٹر تعینات نہیں کر رہی، اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم نے مصطفیٰ کمال سمیت دیگر ایم کیو ایم کے رہنماوں کا نام بھی لیا ہے اور اگر ایف آئی اے نے مصطفی کمال سمیت دیگر رہنماوں سے تفتیش کے لیے اقدام اٹھایا تو ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس نیا رخ اختیار کر جائے گا۔
ایف آئی اے کی جانب سے پروسیکیوٹر تعینات نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر اگر پروسیکیوٹرتعینات نہ کیا گیا تو عدالتی دائرہ اختیا ر کی درخواست پر اپنا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔
ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل
واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا۔
برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں : عمران فاروق قتل کا کوڈ 'ماموں کی صبح ہوگئی' تھا
برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا۔
دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔
جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیر کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا۔
مزید پڑھیں : عمران فاروق قتل کیس: دو ملزمان کا اعتراف جرم
تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی۔
یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کا الطاف حسین کے خلاف مقدمہ
ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں۔
لندن پولیس نے قاتلوں تک رسائی کے لیے عوام سے مدد کی اپیل کی جبکہ قاتل تک پہنچنے والی معلومات فراہم کرنے پر 20 ہزار پاؤنڈ انعام کا اعلان بھی کیا گیا۔
مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھے جانے سے متحدہ قومی موومنٹ کے سفر تک کے ہر لمحہ کا حصہ رہنے والے ایم کیو ایم کے رہنماء ڈاکٹر عمران فاروق پارٹی کے واحد جنرل سیکریٹری رہے ہیں۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔