سندھ کی سرزمین ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہی ہے۔ کبھی یونانیوں نے اس پر تیر برسائے ہیں تو کبھی عربوں، ترخانوں، مغلوں، انگریزوں کے گھوڑوں نے اپنی ٹاپوں سے اسے روندا ہے۔ جب تاریخ کی کتابوں کی ورق گردانی کی جاتی ہے تو بہت کچھ واضح ہونے لگتا ہے، اور ہمیں فتح و شکست کے کئی قصے پڑھنے کو ملتے ہیں۔
تصور کریں ایسی جگہ کا جو آج سے صرف چند صدی قبل میدانِ جنگ رہی ہو، جس کی فضا میں بارود کی بو ایک طویل عرصے تک موجود ہو۔ جہاں شہید ہونے والوں کی اجتماعی قبریں بنائی گئیں ہوں، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب وہ میدانِ جنگ پھولوں سے مہکتا ہو، جہاں ہر طرف سبزہ ہو، لہلہاتے کھیت اور باغات ہوں تو یقین نہیں ہوتا کہ وہاں پر کبھی توپوں کی گھن گرج کے درمیان اتنی قتل و غارت ہوئی ہوگی۔
گولیوں کی بوچھاڑ نے کئی سپاہیوں کے سینوں کو چھلنی کیا ہوگا، اور کسی کی تلوار سے کوئی گردن تن سے جدا ہوئی ہوگی۔ فتح کے جھنڈے گاڑے گئے ہوں گے اور شکست کھائے حکمرانوں نے فاتح فوج کے آگے سر خم کیا ہوگا۔
سندھ میں ایک ایسا ہی میدانِ جنگ موجود ہے جہاں آپ کو چہارسو ہریالی نظر آئی گی، ہر جانب مہکتے گلاب اور لہلہاتے کھیت دکھائی دیں گے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سندھ کے تالپور حکمرانوں نے دوبے اور میانی کی جنگیں لڑیں تھیں۔ یہ لفظ سندھی زبان کے لفظ دو- آبو کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
اسی مقام پر ایک جنگ ہوئی تھی جسے دوبے والی جنگ کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ میرپورخاص کے منکانی تالپور حکمران میر شیر محمد تالپور اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے جنرل سر چارلس جیمز نیپئر کے درمیان لڑی گئی تھی۔
سندھ کے دارالحکومت حیدرآباد پر نیپئر کے قبضے کے بعد سندھ کی آزادی کے لیے اس وقت یہ پہلی جنگ تھی جو کہ 24 مارچ 1843 میں لڑی گئی اور اس جنگ میں ہزاروں بلوچوں اور تالپوروں کے جنرل ہوش محمد عرف ہوشو شیدی نے جام شہادت نوش کیا تھا۔
سندھ میں حبشی غلاموں کی تجارت تالپور حکمرانوں کے دور میں بہت زیادہ تھی اور سندھ میں ان غلاموں کا سلسلہ کافی وقت تک جاری رہا۔ ہوشو شیدی کے بارے میں یہ رائے سننے میں آتی ہے کہ وہ غلام کی حیثیت سے تالپور حکمرانوں کے خاندان میں شامل ہوئے تھے۔
دوسری رائے یہ بھی ہے کہ وہ حکمران خاندان کے ساتھ غلام کی حیثیت میں نہیں بلکہ آزاد حیثیت میں ایک وفادار سپاہی رہے۔ ولیم نیپئر اپنی کتاب "کانکیسٹ آف سندھ" (فتح سندھ) میں لکھتے ہیں کہ "ہوشو نے توپخانے کا ہنر فرانسیسی فوجیوں سے سیکھا تھا، وہ مصر میں شکست کے بعد مسقط آئے. جب سندھ کے حکمرانوں نے مسقط کے امیروں سے چند توپیں اور ہتھیار منگوائے تو ہوش محمد بھی ان کے ساتھ سندھ آئے کیونکہ وہ نہایت ہی ماہر توپچی تھے اور یوں انہوں نے سندھ کو اپنا مسقتل وطن بنا لیا۔''
سندھ میں تالپوروں سے اقتدار چھیننے میں جس انگریز نے سب سے اہم کردار ادا کیا وہ چارلس نیپئر تھے۔ وہ 1792 میں فوج کی 23 رجمینٹ میں شامل ہوئے۔ 1803 میں ہسپانیہ اور 1813 میں مشترکہ امریکا کی جنگوں میں حصہ لیا۔
انہیں 1841 میں ہندوستان بھیجا گیا اور پھر 1842 میں انگریزوں کے ایک لشکر کے ساتھ انہیں سندھ روانہ کیا گیا، جہاں پر وہ محاذ پر کمانڈر مقرر ہوئے۔ دسمبر 1842 میں نیپئر نے سندھ کے امام گڑھ کے قلعے کو فتح کیا جبکہ 17 جنوری 1843 کو انہوں نے میانی کے میدان میں تالپور حکمرانوں کی فوجوں کو شکست سے دو چار کیا۔
دوبے والی جنگ کے لیے چارلس نیپئر کے پاس 11 سو گھڑ سواروں کے ساتھ 5 ہزار سپاہی تھے، جنہیں انہوں نے محاذ پر کھڑا کر دیا تھا۔ اس جنگ میں تالپوروں کی جانب سے لڑنے والے سپاہی بلوچ قبیلوں سے بھی تھے۔
تالپور دور میں دو جنگیں، میانی اور دوبے والی ہی اہم جنگیں ہیں۔ مگر ان جنگوں کا بھی ایک تاریخی پس منظر ہے۔ تالپور حکمرانوں نے اس وقت انگریزوں سے کم و بیش چھ ایسے معاہدے کیے تھے جنہوں نے ان کا تخت ہی چھین لیا۔
سندھ میں انگریزوں نے پہلی تجارتی بیٹھک 1635 میں ٹھٹھہ میں قائم کی تھی، مگر کچھ وجوہات کی بنا پر یہ تجارتی بیٹھک 1662 میں بند کرنی پڑی۔ انگریزوں کی جانب سے سندھ میں اپنا اقتدار جمانے کی یہ پہلی کوشش تھی۔
اس کے بعد رابرٹ سمپٹن نے میاں غلام شاہ سے بات چیت کرنے کے بعد 22 ستمبر 1758 کو سندھ میں تجارتی بیٹھک کھولنے کا اجازت نامہ لیا۔ جس کا مرکز شاہ بندر کی جانب قائم کیا گیا۔
انگریزوں نے جو معاہدے تالپور حکمرانوں سے کیے تھے وہ دراصل ان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی ایک بہت بڑی سازش تھی، مگر اس وقت کے حکمران انگریزوں کی اس سازش کو سمجھ نہیں پائے تھے۔ ان تمام معاہدوں میں یہ بھی بیان کیا گیا تھا کہ حکمرانوں سے تعاون کو جاری رکھا جائے گا مگر آہستہ آہستہ انگریزوں نے ان معاہدوں کے پنجوں میں تالپور حکمرانوں کو ایسا دبوچ لیا تھا کہ ان کے لیے اب اقتدار میں رہنا مشکل ہو گیا تھا۔
سندھ کے حکمران کبھی بھی جنگجو نہیں رہے تھے، اور نہ ہی انہوں نے کبھی کسی ملک پر حملہ کر کے اسے فتح کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس لیے ان کے پاس فوجی حکمت عملی کی کمی نظر آتی ہے۔ وہ بس اپنے اقتدار کو بچانے کی کوشش میں لگے رہے، جسے بھی وہ نہیں بچا سکے۔
تالپوروں سے کیے گئے معاہدوں میں جو نکات شامل کیے گئے تھے ان میں کہا گیا تھا کہ سندھ حکومت اور انگریز حکومت دوست بن کر رہیں گی، اگر کسی کو بھی عسکری مدد کی ضرورت ہوگی تو مدد فراہم کی جائے گی، برٹش حکومت کی میر کرم علی اور میر مراد علی کی حکومت سے دائمی دوستی رہے گی۔
برٹش سرکار یہ عرض کرتی ہے کہ تالپور ہندوستان کے تاجروں کو دریائے سندھ اور سندھ کے راستے سے مال لانے اور بھیجنے کی اجازت دیں گے۔ کوئی بھی سوداگر اپنے ساتھ جنگی سامان نہیں لائے گا، اور نہ ہی جنگی جہاز دریائے سندھ پر لنگرانداز ہوں گے۔ کوئی بھی انگریز تاجر سندھ میں گھر بنا کر نہیں رہے گا۔
مگر ایک معاہدہ جو کہ معاہدہ نمبر پانچ کہلاتا ہے، اس میں کہا گیا کہ آئندہ کے لیے کراچی میں 3 ہزار انگریز فوج تعینات کیے جائیں گے اور حیدرآباد کے تالپور انگریز حکومت کو سالانہ تین لاکھ روپے دیں گے۔
مگر یہ تمام معاہدے اس وقت دھرے کے دھرے رہ گئے جب انگریزوں نے حیدرآباد پر قبضہ جما لیا۔ حیدرآباد میں اس وقت میر غلام علی، میر کرم علی اور میر مراد اقتدار کی باگ ڈور سنبھال رہے تھے جبکہ خیرپور میں میر رستم خان تالپور تھے۔
حیدرآباد پر انگریزوں کے قبضے کے بعد میر شیر محمد تالپور نے چارلس نیپیئر کو پیغام بھجوایا کہ اگر وہ قلعہ چھوڑ دیں تو ان کی جان کی حفاظت کا ذمہ لیا جائے گا، مگر چارلس نیپیئر نے سراسر انکار کر دیا۔
بالآخر مجبور ہو کر سندھ کے فوجیوں نے انگریزوں پر چھوٹے چھوٹے حملے شروع کیے، جس سے طیش میں آ کر چارلس نیپیئر نے دوسرے شہروں سے مزید سپاہی طلب کیے۔
24 مارچ کو حیدرآباد کے قریب تالپور اور انگریز افواج کے درمیان سخت جنگ چھڑی، جس میں ابتدائی طور پر تو بلوچوں کا پلڑا بھاری رہا، مگر بالآخر انگریزوں کو کامیابی حاصل ہوئی، جبکہ ہوش محمد شیدی اور ان کے کئی دیگر ساتھیوں نے آخری دم تک مقابلہ کیا۔
آج جب اس جگہ کو دیکھا جاتا ہے تو ہمیں نہ صرف ہوش محمد شیدی کی مزار دکھائی دیتی ہے بلکہ ان انگریز سپاہیوں کی یاگاریں بھی دکھائی دیتی ہیں جو اس جنگ میں مارے گئے تھے۔
میانی کے مقام پر انگریز سپاہیوں کی ایک اجتماعی قبر ہے جس میں کئی انگریز دفن ہیں۔ جبکہ دوبے کے مقام پر بھی ایک یادگار بنی ہوئی ہے۔ اس یادگار کے مقام پر 8 توپوں کو بھی الٹا نصب کیا گیا ہے۔ جو اس وقت جنگوں میں استعمال کی گئی تھیں۔ جبکہ مشرق کی جانب ایک قبرستان بھی ہے۔
اس سے تھوڑا دور ہی ہوشو شیدی کا مزار ہے۔ میں جس وقت اس مزار پر پہنچا تھا اس وقت اس کی توڑ پھوڑ جاری تھی کیونکہ حکومت سندھ نے اس مزار کو دوبارہ بہتر حالت میں تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ایک پارک بھی شامل ہوگا۔
میانی کے مقام سے تھوڑا آگے ہی ایک سفید مسجد بھی ہے، جسے ''میرن واری مسجد'' (میروں والی مسجد) کہا جاتا ہے مگر وہ مسجد تالپور حکمرانوں نے تعمیر نہیں کروائی تھی بلکہ وہاں قبرستان ہونے کی وجہ یہ اس مسجد کو یہ نام دیا گیا ہے۔
ماضی کے میدان جنگ میں کچھ وقت گزارنے کے بعد میری آنکھوں کے آگے ان جنگوں کا منظر نمودار ہونے لگا تھا جو سندھ کی بقا کی جنگیں تھیں، جس میں ہوشو شیدی دل و جان سے لڑتے لڑتے قربان ہو گئے تھے۔ جن کی تلوار ان انگریزوں کی گردنوں پر چلی تھی جنہوں نے ایک سازش کے تحت سندھ سمیت برِصغیر کے لوگوں کو غلام بنا لیا تھا۔
آج اس میدان جنگ کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا کہ کاش سندھ کے اس وقت کے حکمران انگریزوں کی ان تمام سازشوں کو سمجھ پاتے جن کی وجہ سے انہیں اپنے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
اگر سندھ کے حکمران ان معاہدوں کے پسِ پردہ موجود عزائم جان گئے ہوتے، تو 1843 کے بعد 104 سال تک سندھ کو غلام نہ رہنا پڑتا۔
اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے.
تبصرے (12) بند ہیں