• KHI: Fajr 5:30am Sunrise 6:48am
  • LHR: Fajr 5:06am Sunrise 6:30am
  • ISB: Fajr 5:14am Sunrise 6:40am
  • KHI: Fajr 5:30am Sunrise 6:48am
  • LHR: Fajr 5:06am Sunrise 6:30am
  • ISB: Fajr 5:14am Sunrise 6:40am
شائع June 17, 2016

سندھ کی سرزمین ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہی ہے۔ کبھی یونانیوں نے اس پر تیر برسائے ہیں تو کبھی عربوں، ترخانوں، مغلوں، انگریزوں کے گھوڑوں نے اپنی ٹاپوں سے اسے روندا ہے۔ جب تاریخ کی کتابوں کی ورق گردانی کی جاتی ہے تو بہت کچھ واضح ہونے لگتا ہے، اور ہمیں فتح و شکست کے کئی قصے پڑھنے کو ملتے ہیں۔

تصور کریں ایسی جگہ کا جو آج سے صرف چند صدی قبل میدانِ جنگ رہی ہو، جس کی فضا میں بارود کی بو ایک طویل عرصے تک موجود ہو۔ جہاں شہید ہونے والوں کی اجتماعی قبریں بنائی گئیں ہوں، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب وہ میدانِ جنگ پھولوں سے مہکتا ہو، جہاں ہر طرف سبزہ ہو، لہلہاتے کھیت اور باغات ہوں تو یقین نہیں ہوتا کہ وہاں پر کبھی توپوں کی گھن گرج کے درمیان اتنی قتل و غارت ہوئی ہوگی۔

گولیوں کی بوچھاڑ نے کئی سپاہیوں کے سینوں کو چھلنی کیا ہوگا، اور کسی کی تلوار سے کوئی گردن تن سے جدا ہوئی ہوگی۔ فتح کے جھنڈے گاڑے گئے ہوں گے اور شکست کھائے حکمرانوں نے فاتح فوج کے آگے سر خم کیا ہوگا۔

سندھ میں ایک ایسا ہی میدانِ جنگ موجود ہے جہاں آپ کو چہارسو ہریالی نظر آئی گی، ہر جانب مہکتے گلاب اور لہلہاتے کھیت دکھائی دیں گے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سندھ کے تالپور حکمرانوں نے دوبے اور میانی کی جنگیں لڑیں تھیں۔ یہ لفظ سندھی زبان کے لفظ دو- آبو کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔

میانی اور دوبے والی جنگوں کا میدان جنگ جہاں اب لہلہاتے کھیت نظر آتے ہیں — تصویر اختر حفیظ
میانی اور دوبے والی جنگوں کا میدان جنگ جہاں اب لہلہاتے کھیت نظر آتے ہیں — تصویر اختر حفیظ

میانی اور دوبے والی جنگوں کے میدان جنگ پر اب سبزہ زاری ہی نظر آتی ہے — تصویر اختر حفیظ
میانی اور دوبے والی جنگوں کے میدان جنگ پر اب سبزہ زاری ہی نظر آتی ہے — تصویر اختر حفیظ

اسی مقام پر ایک جنگ ہوئی تھی جسے دوبے والی جنگ کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ میرپورخاص کے منکانی تالپور حکمران میر شیر محمد تالپور اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے جنرل سر چارلس جیمز نیپئر کے درمیان لڑی گئی تھی۔

سندھ کے دارالحکومت حیدرآباد پر نیپئر کے قبضے کے بعد سندھ کی آزادی کے لیے اس وقت یہ پہلی جنگ تھی جو کہ 24 مارچ 1843 میں لڑی گئی اور اس جنگ میں ہزاروں بلوچوں اور تالپوروں کے جنرل ہوش محمد عرف ہوشو شیدی نے جام شہادت نوش کیا تھا۔

سندھ میں حبشی غلاموں کی تجارت تالپور حکمرانوں کے دور میں بہت زیادہ تھی اور سندھ میں ان غلاموں کا سلسلہ کافی وقت تک جاری رہا۔ ہوشو شیدی کے بارے میں یہ رائے سننے میں آتی ہے کہ وہ غلام کی حیثیت سے تالپور حکمرانوں کے خاندان میں شامل ہوئے تھے۔

دوسری رائے یہ بھی ہے کہ وہ حکمران خاندان کے ساتھ غلام کی حیثیت میں نہیں بلکہ آزاد حیثیت میں ایک وفادار سپاہی رہے۔ ولیم نیپئر اپنی کتاب "کانکیسٹ آف سندھ" (فتح سندھ) میں لکھتے ہیں کہ "ہوشو نے توپخانے کا ہنر فرانسیسی فوجیوں سے سیکھا تھا، وہ مصر میں شکست کے بعد مسقط آئے. جب سندھ کے حکمرانوں نے مسقط کے امیروں سے چند توپیں اور ہتھیار منگوائے تو ہوش محمد بھی ان کے ساتھ سندھ آئے کیونکہ وہ نہایت ہی ماہر توپچی تھے اور یوں انہوں نے سندھ کو اپنا مسقتل وطن بنا لیا۔''

ہوشو شیدی سے منسوب یادگار جہاں ان کا مشہور نعرہ 'مرویسوں مرویسوں، سندھ نہ ڈیسوں' (مر جائیں گے، سندھ نہیں دیں گے) لکھا ہے — تصویر اختر حفیظ
ہوشو شیدی سے منسوب یادگار جہاں ان کا مشہور نعرہ 'مرویسوں مرویسوں، سندھ نہ ڈیسوں' (مر جائیں گے، سندھ نہیں دیں گے) لکھا ہے — تصویر اختر حفیظ

ہوشو شیدی کی قبر کا کتبہ — تصویر اختر حفیظ
ہوشو شیدی کی قبر کا کتبہ — تصویر اختر حفیظ

ہوش محمد عرف ہوشو شیدی کی قبر — تصویر اختر حفیظ
ہوش محمد عرف ہوشو شیدی کی قبر — تصویر اختر حفیظ

سندھ میں تالپوروں سے اقتدار چھیننے میں جس انگریز نے سب سے اہم کردار ادا کیا وہ چارلس نیپئر تھے۔ وہ 1792 میں فوج کی 23 رجمینٹ میں شامل ہوئے۔ 1803 میں ہسپانیہ اور 1813 میں مشترکہ امریکا کی جنگوں میں حصہ لیا۔

انہیں 1841 میں ہندوستان بھیجا گیا اور پھر 1842 میں انگریزوں کے ایک لشکر کے ساتھ انہیں سندھ روانہ کیا گیا، جہاں پر وہ محاذ پر کمانڈر مقرر ہوئے۔ دسمبر 1842 میں نیپئر نے سندھ کے امام گڑھ کے قلعے کو فتح کیا جبکہ 17 جنوری 1843 کو انہوں نے میانی کے میدان میں تالپور حکمرانوں کی فوجوں کو شکست سے دو چار کیا۔

دوبے والی جنگ کے لیے چارلس نیپئر کے پاس 11 سو گھڑ سواروں کے ساتھ 5 ہزار سپاہی تھے، جنہیں انہوں نے محاذ پر کھڑا کر دیا تھا۔ اس جنگ میں تالپوروں کی جانب سے لڑنے والے سپاہی بلوچ قبیلوں سے بھی تھے۔

تالپور دور میں دو جنگیں، میانی اور دوبے والی ہی اہم جنگیں ہیں۔ مگر ان جنگوں کا بھی ایک تاریخی پس منظر ہے۔ تالپور حکمرانوں نے اس وقت انگریزوں سے کم و بیش چھ ایسے معاہدے کیے تھے جنہوں نے ان کا تخت ہی چھین لیا۔

سندھ میں انگریزوں نے پہلی تجارتی بیٹھک 1635 میں ٹھٹھہ میں قائم کی تھی، مگر کچھ وجوہات کی بنا پر یہ تجارتی بیٹھک 1662 میں بند کرنی پڑی۔ انگریزوں کی جانب سے سندھ میں اپنا اقتدار جمانے کی یہ پہلی کوشش تھی۔

دوبے والی جنگ میں انگریز سپاہی بلوچوں پر حملہ کرتے ہوئے۔ السٹریٹڈ بیٹلز آف نائنٹینتھ سینچری، صفحہ 549۔
دوبے والی جنگ میں انگریز سپاہی بلوچوں پر حملہ کرتے ہوئے۔ السٹریٹڈ بیٹلز آف نائنٹینتھ سینچری، صفحہ 549۔

ہوشو شیدی کے نام سے منسوب فلاحی تنظیم کی طرف سے نصب شدہ عقیدت مندانہ تختی — تصویر اختر حفیظ
ہوشو شیدی کے نام سے منسوب فلاحی تنظیم کی طرف سے نصب شدہ عقیدت مندانہ تختی — تصویر اختر حفیظ

کھیتوں کے درمیان بنیں سپاہیوں کی یادگاریں — تصویر اختر حفیظ
کھیتوں کے درمیان بنیں سپاہیوں کی یادگاریں — تصویر اختر حفیظ

اس کے بعد رابرٹ سمپٹن نے میاں غلام شاہ سے بات چیت کرنے کے بعد 22 ستمبر 1758 کو سندھ میں تجارتی بیٹھک کھولنے کا اجازت نامہ لیا۔ جس کا مرکز شاہ بندر کی جانب قائم کیا گیا۔

انگریزوں نے جو معاہدے تالپور حکمرانوں سے کیے تھے وہ دراصل ان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی ایک بہت بڑی سازش تھی، مگر اس وقت کے حکمران انگریزوں کی اس سازش کو سمجھ نہیں پائے تھے۔ ان تمام معاہدوں میں یہ بھی بیان کیا گیا تھا کہ حکمرانوں سے تعاون کو جاری رکھا جائے گا مگر آہستہ آہستہ انگریزوں نے ان معاہدوں کے پنجوں میں تالپور حکمرانوں کو ایسا دبوچ لیا تھا کہ ان کے لیے اب اقتدار میں رہنا مشکل ہو گیا تھا۔

سندھ کے حکمران کبھی بھی جنگجو نہیں رہے تھے، اور نہ ہی انہوں نے کبھی کسی ملک پر حملہ کر کے اسے فتح کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس لیے ان کے پاس فوجی حکمت عملی کی کمی نظر آتی ہے۔ وہ بس اپنے اقتدار کو بچانے کی کوشش میں لگے رہے، جسے بھی وہ نہیں بچا سکے۔

تالپوروں سے کیے گئے معاہدوں میں جو نکات شامل کیے گئے تھے ان میں کہا گیا تھا کہ سندھ حکومت اور انگریز حکومت دوست بن کر رہیں گی، اگر کسی کو بھی عسکری مدد کی ضرورت ہوگی تو مدد فراہم کی جائے گی، برٹش حکومت کی میر کرم علی اور میر مراد علی کی حکومت سے دائمی دوستی رہے گی۔

برٹش سرکار یہ عرض کرتی ہے کہ تالپور ہندوستان کے تاجروں کو دریائے سندھ اور سندھ کے راستے سے مال لانے اور بھیجنے کی اجازت دیں گے۔ کوئی بھی سوداگر اپنے ساتھ جنگی سامان نہیں لائے گا، اور نہ ہی جنگی جہاز دریائے سندھ پر لنگرانداز ہوں گے۔ کوئی بھی انگریز تاجر سندھ میں گھر بنا کر نہیں رہے گا۔

اس میدان جنگ میں انگریز اور تالپور سپاہیوں کی یاد گاریں موجود ہیں — تصویر اختر حفیظ
اس میدان جنگ میں انگریز اور تالپور سپاہیوں کی یاد گاریں موجود ہیں — تصویر اختر حفیظ

کھیتوں کے درمیان بنیں سپاہیوں کی یادگاریں — تصویر اختر حفیظ
کھیتوں کے درمیان بنیں سپاہیوں کی یادگاریں — تصویر اختر حفیظ

یادگار میں نصب تختی جس پر جنگ میں شریک انگریز سپاہیوں کے نام درج ہیں — تصویر اختر حفیظ
یادگار میں نصب تختی جس پر جنگ میں شریک انگریز سپاہیوں کے نام درج ہیں — تصویر اختر حفیظ

مگر ایک معاہدہ جو کہ معاہدہ نمبر پانچ کہلاتا ہے، اس میں کہا گیا کہ آئندہ کے لیے کراچی میں 3 ہزار انگریز فوج تعینات کیے جائیں گے اور حیدرآباد کے تالپور انگریز حکومت کو سالانہ تین لاکھ روپے دیں گے۔

مگر یہ تمام معاہدے اس وقت دھرے کے دھرے رہ گئے جب انگریزوں نے حیدرآباد پر قبضہ جما لیا۔ حیدرآباد میں اس وقت میر غلام علی، میر کرم علی اور میر مراد اقتدار کی باگ ڈور سنبھال رہے تھے جبکہ خیرپور میں میر رستم خان تالپور تھے۔

حیدرآباد پر انگریزوں کے قبضے کے بعد میر شیر محمد تالپور نے چارلس نیپیئر کو پیغام بھجوایا کہ اگر وہ قلعہ چھوڑ دیں تو ان کی جان کی حفاظت کا ذمہ لیا جائے گا، مگر چارلس نیپیئر نے سراسر انکار کر دیا۔

بالآخر مجبور ہو کر سندھ کے فوجیوں نے انگریزوں پر چھوٹے چھوٹے حملے شروع کیے، جس سے طیش میں آ کر چارلس نیپیئر نے دوسرے شہروں سے مزید سپاہی طلب کیے۔

24 مارچ کو حیدرآباد کے قریب تالپور اور انگریز افواج کے درمیان سخت جنگ چھڑی، جس میں ابتدائی طور پر تو بلوچوں کا پلڑا بھاری رہا، مگر بالآخر انگریزوں کو کامیابی حاصل ہوئی، جبکہ ہوش محمد شیدی اور ان کے کئی دیگر ساتھیوں نے آخری دم تک مقابلہ کیا۔

آج جب اس جگہ کو دیکھا جاتا ہے تو ہمیں نہ صرف ہوش محمد شیدی کی مزار دکھائی دیتی ہے بلکہ ان انگریز سپاہیوں کی یاگاریں بھی دکھائی دیتی ہیں جو اس جنگ میں مارے گئے تھے۔

میانی کے مقام پر انگریز سپاہیوں کی ایک اجتماعی قبر ہے جس میں کئی انگریز دفن ہیں۔ جبکہ دوبے کے مقام پر بھی ایک یادگار بنی ہوئی ہے۔ اس یادگار کے مقام پر 8 توپوں کو بھی الٹا نصب کیا گیا ہے۔ جو اس وقت جنگوں میں استعمال کی گئی تھیں۔ جبکہ مشرق کی جانب ایک قبرستان بھی ہے۔

یادگار کے مقام پر 8 توپوں کو الٹا نصب کیا گیا ہے — تصویر اختر حفیظ
یادگار کے مقام پر 8 توپوں کو الٹا نصب کیا گیا ہے — تصویر اختر حفیظ

یادگار کے مقام پر 8 توپوں کو الٹا نصب کیا گیا ہے — تصویر اختر حفیظ
یادگار کے مقام پر 8 توپوں کو الٹا نصب کیا گیا ہے — تصویر اختر حفیظ

اس سے تھوڑا دور ہی ہوشو شیدی کا مزار ہے۔ میں جس وقت اس مزار پر پہنچا تھا اس وقت اس کی توڑ پھوڑ جاری تھی کیونکہ حکومت سندھ نے اس مزار کو دوبارہ بہتر حالت میں تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ایک پارک بھی شامل ہوگا۔

میانی کے مقام سے تھوڑا آگے ہی ایک سفید مسجد بھی ہے، جسے ''میرن واری مسجد'' (میروں والی مسجد) کہا جاتا ہے مگر وہ مسجد تالپور حکمرانوں نے تعمیر نہیں کروائی تھی بلکہ وہاں قبرستان ہونے کی وجہ یہ اس مسجد کو یہ نام دیا گیا ہے۔

میرن واری مسجد — تصویر اختر حفیظ
میرن واری مسجد — تصویر اختر حفیظ

میرن واری مسجد — تصویر اختر حفیظ
میرن واری مسجد — تصویر اختر حفیظ

ماضی کے میدان جنگ میں کچھ وقت گزارنے کے بعد میری آنکھوں کے آگے ان جنگوں کا منظر نمودار ہونے لگا تھا جو سندھ کی بقا کی جنگیں تھیں، جس میں ہوشو شیدی دل و جان سے لڑتے لڑتے قربان ہو گئے تھے۔ جن کی تلوار ان انگریزوں کی گردنوں پر چلی تھی جنہوں نے ایک سازش کے تحت سندھ سمیت برِصغیر کے لوگوں کو غلام بنا لیا تھا۔

آج اس میدان جنگ کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا کہ کاش سندھ کے اس وقت کے حکمران انگریزوں کی ان تمام سازشوں کو سمجھ پاتے جن کی وجہ سے انہیں اپنے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔

اگر سندھ کے حکمران ان معاہدوں کے پسِ پردہ موجود عزائم جان گئے ہوتے، تو 1843 کے بعد 104 سال تک سندھ کو غلام نہ رہنا پڑتا۔


اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے.

اختر حفیظ

اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (12) بند ہیں

samo Shamshad Jun 17, 2016 05:39pm
It is the history of Defeat, Even if Hoshu Fought bravely, but we were looser. Sindhis could not fight more than three hours. It is dark picture of Sindh,s history. But it is reality that Hoshu the great general of Sindh fought with bravely. But rulers were reluctant to face the situation. We Salute Hoshu Shedi. And it is nice effort to remember the reminiscence of history. I have visited many time these places.
G.N JARWAR Jun 17, 2016 06:04pm
weldone dear Akhter Sb....i use to read yr blog. yr writting always give me inspiration and inform.. yr writtings r always s
Ghulam shabir laghari Jun 17, 2016 06:45pm
akhtar hafeez ka likha khobsorat artical parha, akhtar hafeez buht achha likhty hain, dawn par ye artical buhat pasand aya. akhtar ke histoycal aur umdah bilog ka antzar rehta hai...
saud Jun 17, 2016 07:04pm
nice article
راشداحمد Jun 17, 2016 07:11pm
زبردست
Nasrullah Jarwar Jun 17, 2016 08:43pm
The columns/ views of Mr. Akhatar hafeez is voice of historical sindh, which awakens of today's sindhi's. This article is suffice to awaken to sindhi's. Excellent article and excellent pictures
GHAZANFAR ULLAH KHAN Jun 17, 2016 11:58pm
AKHTAR SN SAB SE PEHLY TAO ME AP KA MASHKOOR.O.MAMNOON HOON K APNY HAMY HAMARY SHHER HYDERABAD KI TAREEKH SE AGAHEE FARMAYEE.KHAKSAR KO BHI KUCH SHAOQ HY TAREEKH K MUTALLY KA AUR KHAS KER HOSH MOHAMMAD SHEDI JESE BAHADUR GENERAL JINN KI BAHADURI KI DASTANEN HAMNY APNI KITABON ME PARHE HEN.AAJ KAL K ISS AFRA TAFRI K ALAM ME BHT KAM LOG APNI TAREEKH K INN SHERON KO JANTY HEN JINHO NY APNI JAN KI PARWAH KEYE BAGHER APNI AUR PANY GHARWALO KI JANO KA NAZRAN PESH KYA. MERI NOKRI KI WAJA SE ME BHT SE INTERIOR SINDH K RASTON AUR SHEHRON SE WAQIF HOON MAGAR MIANI KA NAM ZARUR SUNA HY YAHA TAK KESE JAYA JAI,YE NHI MALOOM HOSAKA AP KI ZARRA NAWAZI HOGI AGAR AP KHAKSAR KO MIANI K RASTY KI AGAHE DEN.BHT NAWAZISH HOGI.SHUKRYA.
Daudpota Jun 18, 2016 12:41am
as usual it is an awesome work from you. hats off to you sir...
کلیم راجڑ Jun 18, 2016 02:09am
زبردست
شیدی یعقوب قمبرانی Jun 18, 2016 03:31am
جناب حفیظ صاحب ، شہید ھوش محمد شیدی سندھ میں پیدا ہوا ہے اور یہ بات غلط ہے کہ وہ فرانسسی فوج میں تھا ۔ دوسری بات ہے کہ تالپروں سے پہلے بھی حبشی قوم اس خطہ میں موجود ہے ، جس کا بڑا ثبوط شالمین شیدی ہے جو حیدرآباد کے قلعے کا محافظ اعلیٰ تھا جبکہ کلہوڑا اور تالپروں کی جنگ میں اس کے ہاتھ قلعے کی کمان تھی ،دو سال تک تالپروں کو قلعے کے نذدیک بھی نہیں آنے دیا ۔ دبہ کی جنگ ہارنے کی وجوہات بھی اگر آپ تحریر کرتے تو اچھا تھا ، اور یہ نعراہ مرویسوں مرویسوں سندھ نہ دیسو ، کیوں لگا اس کا بھی پس منظر بتا دیتے تو کیا خوب ہوتا ۔ باقی رہا توپیں اُلٹی ہونے کا سوال تو صرف یہی نہیں بلکہ ان شہدا کی قبریں بھی گم ہوگیئں ہیں جو اس جنگ میں شہید ہوئے ہیں ۔ اور اب تو اس کے اعتراف میں قبضہ بھی ہوگیا ہے وہ آپ کو نظر نہیں آیا ۔ یہ اچھی بات ہے کہ اب اس مزار کی تعمیر ہورہی ہے ،اور ھوشو کا دن سرکاری سطح پر منانا چاہئے دیکھیں ایسا کب ہوتا ہے ۔
Muhammad Qayyum Hanjra Jun 18, 2016 08:26am
آپ کی کاوش کو سلام... مزید ایسے لوگ سامنے لائیں جو درحقئقت هیرو تہے لیکن انکا ذکر مٹا دیا گیا
Dr Abdul Hafeez Laghari Jun 18, 2016 12:22pm
Your pen is running nice on bloggers and each new topic is more interesting and worth to read. The last but not least paragraph is a wish which is acceptable. However, do you think, considering current scenario, we would see the infrastructure which was given by british rulers? We even could not protect it. Of those, irrigation and railway system are biggest examples.