دیوتا کے مسکن میں بھوت
وہ دو بھائیوں، ایورسٹ اور کے ٹو سے کچھ چھوٹا ہے مگر تیور بڑوں سے بھی دو چار ہاتھ آگے ہیں۔ اسے کچھ پکارتے ہیں نانگا پربت اور بعض کے لیے قاتل پہاڑ۔۔۔ مقامی زبان میں ننگا پربت کو 'دیامَر' کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کے معنیٰ ہیں 'دیوتاؤں کا مسکن'۔
یوں تو پوراگلگت ۔ بلتستان ہی دیومالائی سرزمین ہے اور نانگا پربت کو بھی اس سے مُفر نہیں۔ لوک گلگتی قصے کہانیوں کے مطابق اس پہاڑ کی چوٹی پر ایک قلعہ ہے، جس میں دیوی، دیوتا، اُن کی آل اولاد اور پریاں رہتی ہیں، اس لیے انسان وہاں تک نہیں پہنچ پاتا مگر جرمن کوہ پیما ہرمن بھل وہاں تک پہنچ گیا لیکن شاید کسی پری یا جن کی ہمراہی میں۔
کہتے ہیں کہ جب نانگا پربت کی چوٹی سر ہوئی تو اس کے بعد مقامی فصلوں پر ٹڈی دل حملہ ہوا، کچھ وبائی بیماریاں بھی پھیلیں۔ تب، مارورائیت پرعقیدے کی حد تک یقین کرنے والوں نے قدرتی آفات و امراض کو دیوتاؤں کے مسکن کی پامالی کا نتیجہ قرار دیا تھا۔
خیر، ہرمن بھل بھلے دور میں یہ کارنامہ کر بیٹھے اب تو نانگا پربت کے قدموں تلے برف زار پر دہشت گردی کے طالبانی بھوت پہنچ چکے جوچھاتی ٹھونک کر کہہ گئے: اب کسی غیر ملکی میں ہمت ہے تو آگے بڑھ کر دکھائے۔
ہاں تو ذکر تھا جرمنی کے ہرمن بھل کا، تو پھران کے بعد دنیا بھر کے کوہ پیما چل پڑے قاتل پہاڑ کو قدموں تلے رکھنے کے لیے۔ پہلےدنیا بھر کے بعض سر پھرے دیوتاؤں کو سر کرنے اور پریوں جیسے نظّارے لوٹنے یہاں آتے اور خوشی خوشی لوٹ جاتے تھے، اب ان سر پھروں کے سر لینے والے پہنچ چکے۔ قاتل پہاڑ تلے قاتل کہیں کے۔
دیو مالائی سرزمین گلگت ۔ بلتستان والوں نےاس پربت کو محبت اور عقیدت سے 'دیوتاؤں کا مسکن' کہا لیکن خود ساختہ شریعت کے عقیدت مند دیوتا تک پہنچنے کی کوشش کرنے والوں کوسبق سکھانے پہنچ چکے ہیں۔
جون کے آخری ایام میں، سنیچر اتوار کی درمیانی شب نانگا پربت کے برف زار پر، دیوتا کے قدموں تلے بچھی سفید چادر پر ہمسائے چین، نیپال، روس، یوکرائن اور اپنے گلگتی بھائی بند کے جسموں سے بہایا گیا لہو درحقیقت پاکستانی کی سیاحتی معیشت کا تھا، جس سے طالبانی لکیر کھینچی گئی اورپیغام دیا: خبردار کسی نے دیوتا تک پہنچنے کی جستجو کی۔ جہاں ہمارا بھوت وہاں مہذب انسانوں کا کیاکام۔
دیوتاؤں اور پریوں کا تو کچھ پتا نہیں مگر لگتا یہی ہے کہ وہ بھی رخصت ہوچکے۔ رہا پہاڑ اور اس کے برف زار تو جہاں بھوتوں کی موجودگی یقینی ہے، وہاں دیوتاؤں، دیویوں اور پریوں کا کیا کام۔ ویسے بھی طالبانی بھوت سیاحت کا لہو تو چوس ہی چکا۔ اُس رات کوہ پیماؤں کی آنکھیں ہی بے نور نہیں ہوئی تھیں، کئی گھروں کے چولہوں کی لو بھی بجھی ہے۔
دنیا کے مشہور ترین پہاڑوں کی بُلند ترین چوٹیوں میں نیپال کی ایورسٹ سَر بُلند ہے۔ اس کے بعد اونچائی میں معمولی سے فرق کے بعد پاکستان کا کے ٹو ہے۔
جو بُلندیوں کو قدموں تَلے لاچکے وہ کوہ نورد کہتے ہیں کہ یہ چوٹیاں سر کرناآسان نہیں لیکن پھر بھی جو قاتل پہاڑ نہ چڑھ سکا وہ کوہ پیما کیا، بھلے ہی چاہے ایورسٹ چڑھے یا کے ٹو چھولے۔ یہاں جانباز کوہ پیماؤں کی مردانگی کا معیار اونچائی چھولینے میں نہیں، قاتل پہاڑ کی ہولناک چڑھائی چڑھ لینے میں پوشیدہ ہے۔
نانگا پربت کے برف والے ہولناک بیابانوں میں پہلے موت کا بہانہ بندے کی اپنی غلطی ہوتی تھی مگر اب تو دیوتاؤں کے مسکن میں طالبانی بھوت گھس چکے، جن کی بندوقیں ایک لمحے میں اس سے کہیں زیادہ کوہ پیماؤں کی زندگیاں چاٹ گئیں جتنی کہ قاتل پہاڑ کی بھینٹ چڑھنے میں کئی دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔ طالبانی بندوق بردار تو دیوتا پر بھی بازی لے گئے۔
بیسویں صدی میں جہاں بہت سے اسرار کھلے وہیں ایورسٹ، کے ٹو اور ننگا پربت کو بھی سر کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ کوہ پیماؤں کے لیے یہ پہاڑ سب سے زیادہ جاں لیوا ثابت ہوا۔
سن اُنیّس سو تیس کی دہائی میں جرمن کوہ پیماؤں پر مشتمل ایک گروپ دیوتا کو زیر کرنے پہنچا مگر گروپ کے سترہ کے سترہ کوہ پیما اس کے برف زار میں دفن ہوئے۔ یہیں سے نام ملا قاتل پہاڑ۔ یہ ایک واقعہ نہیں، یہاں برف کی قدرتی ساختہ گہری کھائیوں والی قبروں میں مدفون شہدائے کوہ نوردی کی گنتی جلدی نہیں گنی جاسکتی۔
اُنیّس سوباون تک نانگا پربت سر کرنے کی ہر کوشش تباہی اور موت پر ختم ہوئی مگر یہ سال آخری سال تھا۔ سن اُنیّس سو تریپن میں جرمن کوہ پیما ہرمن بھل آخر تنِ تنہا اسے سر کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
گلگت ۔ بلتستان دیو مالائی سرزمین ہے اور اس پربت سے بھی بہت ساری دیومالائی اور مافوق الفطرت کہانیاں جُڑی ہیں لیکن دیوتاؤں کے مسکن پر تنِ تنہا پہنچنے والے ہرمن بھل کا قصہ بھی عجیب اور ماورائے عقل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا سامنا ایک ایسی ماورائی مخلوق سے ہوا جس نے مجھے پکارا اور بتایا کہ میرے دستانے کہاں رکھے ہیں۔
ہرمن نے چوٹی سر کرنے کی مہم کے آخری دن سترہ سومیٹر کی چڑھائی چڑھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے احساس تھا کہ پوری چڑھائی میں کوئی غیر مرئی مخلوق میرے ساتھ ساتھ اوپر بڑھ رہی ہے۔
ہم کہیں تو شاید کوئی پری ہوگی مگر یہ تب کی بات ہے اب تو شاید وہاں بھوت ہی بھوت رہیں گے۔۔۔ طالبانی بھوت!
ابھی چند برس پہلے تک، کے ٹو سے لے کر دنیا کی چھ آٹھ بُلند ترین پہاڑی چوٹیوں کی سرزمین کہلاتی تھی شمالی علاقہ جات لیکن جب سوات اور اس کے اَریب قریب علاقوں میں طالبان گردی کی خبریں بیرونِ ملک پہنچیں تو شمالی پاکستان سے غیر ملکیوں نے مُراد لی گلگت اور بلتستان۔
جان کسے پیاری نہیں، سیاحوں اور کوہ پیماؤں نے آنا چھوڑا تو کافی تگ و دو کے بعد طے ہوا بس اب نام بدلتے ہیں، سو نیا نام ملا: گلگت ۔ بلتستان۔
ترکیب کسی حد تک کارگر رہی۔ تھوڑے حالات بہتر ہوئے۔ سیاح اور کوہ پیما دوبارہ آنے لگے مگر اب بیرونی دنیا کو نیا پیغام دیا گیا ہے کہ دیوتاؤں کے ٹھکانوں کو دہشت گردی کے بھوت نے سر کرلیا۔ اب تم ہی کہو جان کسے پیاری نہیں۔
گلگت ۔ بلتستان کی معیشت کا بڑا دارومدار موسمِ گرما کی سیاحت بالخصوص غیر ملکی سیاحوں اور کوہ پیماؤں پر ہے۔ پہلے تو علاقے کا نام بدل کر کام چلا لیا لیکن کوہ پیماؤں کے تابوت لوٹانے کے بعد، پہاڑوں کی چوٹیوں سے پیار کرنے والوں کو واپس بلانے کے لیے اب کیا کریں؟
روزگار، ایمان کی پختگی کا ایک اہم جزو ہے اگر یقین ہو کہ منہ سے نوالہ بھائی کے باعث چھن رہا ہے تو پھر سگے بھائی بھی ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ ڈالتے ہیں۔
مختار آزاد کہانی کار، کالم نگار، دستاویزی فلم ساز اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔