'ہمارا' محمد علی آخر اپنا کیوں ہے؟
تحریر: حسن زیدی
1970 کی دہائی میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہوگا جو کہ محمد علی کا سحر میں مبتلا نہ ہوا ہو۔ یہاں تک کہ میری طرح کے ایسے لوگ بھی اس سحر میں مبتلا رہے جنہوں نے محمد علی کے اس کے عروج کے وقت نہیں دیکھا۔
ویتنام کے خلاف امریکہ کی جنگ میں حصہ لینے سے انکار کرنے پر 1967 میں امریکی باکسنگ حکام کی جانب سے باکسنگ لائسنس منسوخ اور ورلڈ ہیوی ویٹ کے خطاب سے محروم کیے جانے کے ساڑھے تین سال بعد محمد علی باکسنگ کی دنیا میں پہلے سے بھی زیادہ اور غیر معمولی اہمیت کی حامل شخصیت بن کر لوٹے۔
وہ نہ صرف جبری وطن بدری کے سیاہ اندھیروں میں سے ابھرتے ایک سورج کی مانند ایتھلیٹ تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک پیکر اخلاق مجسم بھی تھے جو مال و شہرت کے آگے اپنے اصولوں کو بالائے طاق رکھنے سے کبھی بھی خائف نہیں ہوئے۔ مگر میں یہ سب باتیں بچپن میں نہیں جانتا تھا۔
محمد علی کے ساتھ میری صبحیں
محمد علی نے مجھے، میرے اردگرد تمام لوگوں اور خاص طور میرے والد کو خالص جوش و ولولے کے ساتھ مسحور کر رکھا تھا۔
مجھے آج بھی محمد علی کی وجہ سے صبح سویرے اٹھنا یاد ہے تاکہ میں اور میرا بھائی پی ٹی وی پر کنساشا، زئیر سے براہ راست محمد علی کے جورج فارمین کے خلاف معروف مقابلے 'رمبل ان جنگل' کو دیکھ سکیں۔ محمد علی نے اس مشہور مقابلے کے بعد اپنا ہیوی ویٹ کا خطاب دوبارہ حاصل کیا تھا۔
جب کبھی بھی پاکستان میں محمد علی کے باکسنگ مقابلے ٹی وی پر دکھائے جاتے تھے، جو غالباً ہمیشہ ہی دکھائے جاتے تھے، تو ان مقابلوں کو دیکھنے کی غرض سے ہم نے بھی صبح سویر اٹھنے کی اپنی روایت کو متعدد بار دہرایا تھا۔
اس دور میں کھیلوں کے مقابلوں کی براہ راست کوریج بہت ہی کم ہوا کرتی تھی اور آدھی رات کو اٹھ کر ان مقابلوں کو دیکھنے کی اجازت تو حاصل تھی البتہ اس چیز کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی تھی، مگر بطور ایک بچہ، اس طرح ان مقابلوں کو دیکھنا میرے لیے ایک انتہائی ولولہ خیز بات تھی۔
ایک دن مجھے محمد علی سے منسوب مقبول و معروف گانے 'فلوٹ لائک اے بٹر فلائے، اسٹنگ لائک اے بی' کا 45 آر پی ایم رکارڈ تحفے میں دیا گیا تھا اور یہ میری زندگی کے بہت ہی خاص تحفوں میں شمار ہوتاہے۔ میں اس رکارڈ بار بار سنا کرتا تھا۔
بعد میں جیسے جیسے میں بڑا ہوا تو میں باکسنگ کو ناپسند کرنے لگا، کیونکہ یہ کھیل مجھے رومن گلے ڈی ایٹرز کے مقابلوں کی یاد دلاتے تھے جہاں غریب لوگ دوسروں کے کھیل اور امیر پروموٹرز کے مالی منافعوں کی خاطر ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے تھے، حتیٰ کہ کبھی کبھی مار بھی دیا کرتے تھے۔
شاید باکسنگ کی وجہ سے سر پر لگنے والی اندرونی چوٹیں ایسے طویل المدت طبی مسائل کا سبب بنیں جو افسوس کے ساتھ محمد علی میں پارکنسن عارضے کی تشخیص کی صورت میں واضح ہوئیں۔
اس عارضے کے بڑھنے کے ساتھ محمد علی بھی تنزلی کا شکار ہوگئے مگر اس بیماری کو کبھی خود پر سوار نہ کیا۔
ایک نوجوان اور ناپسندیدہ باکسر لیون اسپنکس کے ہاتھوں محمد علی کی شکست کے بعد باکسنگ دیکھنا کا شوق ختم سا ہو گیا۔
محمد علی نے ہمت نہ ہاری اور اپنا خطاب ایک بار پھر اسپنکس سے واپس لینے میں کامیاب رہے مگر پھر بھی وہ پہلے جیسے ایتھلیٹ نہیں رہے تھے۔
جب 1980 میں محمد علی، لیری ہومس کے ساتھ مقابلے میں اپنا آخری خطاب ہارے تھے، اس مقابلے کو دیکھنا واقعی بہت ہی دردناک تھا۔
لیکن محمد علی کے ساتھ میری محبت کبھی نہیں تھمی۔
(والد میرے لیے محمد علی کی آپ بیتی خرید کر لائے تھے) جب میں نے ان کی ابتدائی سالوں کی جدوجہد، ویتنام کے خلاف امریکا کی خونخوار جنگ میں اپنے ضمیر کی آواز پر مخالفت اور اپنے ملک میں نسل پرستی کے خلاف ان کی سرگرم عملی جدوجہد کے بارے میں پڑھا تو ان کے لیے میرے دل میں احترام مزید بڑھ گیا۔
یہ بات سب ہی لوگ جانتے ہیں کہ وہ کنٹکی سے تعلق رکھنے والا ایک سیاہ فام بچہ تھا جس نے خود کو مال و شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا اور پھر ان تمام چیزوں کو اپنے اصولوں کی خاطر ترک کردیا۔
نہ صرف وہ ضروت سے زیادہ حب الوطن ہم وطنوں کی جانب سے تضحیک کو بھی تسلیم کرنے پر راضی تھے بلکہ اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہ کرتے ہوئے حوالات جانے پر بھی تیار تھے۔
ہمیں انٹرٹینمنٹ یا کھیلوں کی دنیا میں ایسی اخلاقی جراتمندی کی مثال ملنا بہت ہی مشکل ہے، جہاں عمومی طور پر ایتھلیٹس اور فن کار محض ڈالروں کی اسپانسرشپ رقم واپس لیے جانے کے ڈر سے بہت ہی معمولی دباؤ کے آگے ہار مان بیٹھتے ہیں۔
پاکستان کا چیمپئن
میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ ایک امریکی باکسر میں ایسا کیا تھا جو پاکستان جیسے میلوں دور ملک میں مداحوں کی ایک بڑی تعداد ان سے اس قدر متاثر تھی۔ بلاشبہ محمد علی سے پہلے نہ کوئی ایسا باکسر تھا اور نہ کوئی دوسرا ہو گا جسے اس قسم کی ستائش ملے۔
اکثر پاکستانی زیادہ تر امریکی ایتھلیٹس کے نام بھی نہیں جانتے ہیں اور باکسنگ اب بھی پاکستان میں زیادہ مقبول کھیل نہیں ہے۔ تو کیا جب انہوں نے اسلام قبول کیا تھا اس کے بعد پاکستانی محمد علی کو اپنا سمجھنے لگے تھے؟
شاید یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانیوں کو ان کا 'اپنا' بنانے میں محمد علی کے مسلمان ہونے نے ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔
اگر یاد کریں تو 1974 میں ان دنوں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس بھی لاہور میں ہونے جا رہی تھی، جس میں مسلم امہ کے اتحاد پر بھرپور زور دیا گیا تھا۔
مگر محمد علی کے سحر کو صرف مذہب کی تبدیلی کی بنیادوں تک محدود کردینا درست نہیں ہوگا۔
کیونکہ، مثلاً، ایسی ہی اگر بات تھی تو انہیں پوری دنیا میں غیر مسلموں کے درمیان اتنی بڑی سطح پر محبت کس طرح حاصل ہوئی۔ دنیا بھر کے مشہور باکسر مائیک ٹائسن نے بھی کئی سالوں بعد اسلام قبول کیا تھا مگر انہیں اس حد تک پاکستانیوں کا پیار حاصل نہیں ہوا جس حد تک محمد علی نے پایا تھا۔
محمد علی محض مسلمان ہی نہیں تھے بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ تھے۔
محمد علی نے اپنی شخصیت کے ذریعے دنیا بھر میں موجود مداحوں پر مخلوط جذبات ظاہر کیے۔ جیسے مشکلات کو مات، اخلاقی قوت، دباؤ میں بھی تحمل، لائق ظرافت، کالونیل ازم کی مخالفت، استحصال کی مخالفت، اور جس چیز پر یقین پختہ ہو اس پر قربان ہو جانا اور ہاں بالخصوص ایک بہترین کھلاڑی کی خوبصورتی ان میں نظر آتی تھی۔
ترجمہ: مجھے وردی پہنا کر میرے گھر سے دس ہزار میل دور ویتنام میں گندمی رنگت کے لوگوں پر بم اور گولیاں برسانے کا کیوں کہا گیا ہے جبکہ لوئس ویل میں موجود سیاہ فام لوگوں کے ساتھ کتوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں انسانی حقوق فراہم نہیں کیے جاتے؟'' امریکی فوج میں شمولیت سے انکار پر محمد علی کے الفاظ
ان میں سے کچھ خصوصیات ان کی اسپورٹس مین شپ کی صفات کا نتیجہ تھیں۔ مجھے یاد ہے جب میں ایک چھوٹا لڑکا تھا تب ان کی باکسنگ کے بارے میں گفتگو کے دوران اس بات کا اظہار کرتا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی حریف باکسر کی گردن اور کمر پر مکے نہیں مارے تھے، وہ صرف سر پر ہی گھونسہ مارا کرتے تھے۔
نوجوان مداحوں نے اس بات کو محمد علی میں 'ایمانداری' کے ساتھ کھیلنے کی ایک اور علامت کے طور پر دیکھا۔ انہوں نے کبھی بھی انتڑییوں یا پیٹ پر مکا مارنے جیسی 'ناگوار' چیزوں کا دھبہ خود پر لگانے نہیں دیا۔
مگر محمد علی کی عظمت کی حقیقی وجہ صرف باکسنگ کبھی نہیں تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ محمد علی کھیل اور تماشوں سے سبقت حاصل کرچکے تھے۔
شاید اس لیے ہی وہ ریٹائرمنٹ کے 30 سالوں بعد بھی زبردست شخصیت کے حامل ہی رہے، حتیٰ کہ ان کے لیے بھی جن کا 1970 کی دہائی میں وجود بھی نہیں تھا اور باکسنگ رنگ میں ان کی آخری آمد کے کئی عرصہ بعد پیدا ہوئے تھے۔ محمد علی وہ سب کچھ تھے جو کہ بطور ایک انسان ہمیں ہونا چاہیے۔
محمد علی خدا تم پر رحم کرے۔ سچ مچ تم ایک عظیم ترین انسان تھے۔
''میں باکسنگ کو یاد نہیں کروں گا بلکہ باکسنگ مجھے یاد کرے گی'' — محمد علی
حسن زیدی ایک ایوارڈ یافتہ فلم ساز اور صحافی ہیں۔ وہ آزاد میڈیا کنسلٹنسی اور ٹیمرنڈ میڈیا نامی پراڈکشن ہاؤس چلاتے ہیں۔اس کے ساتھ کارا فلم فیسٹول کے ڈئریکٹر بھی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (6) بند ہیں