کچھ دن پہلے میں اور میری بیوی نے اچانک ہی اچانک ترکی جانے کا منصوبہ بنا لیا۔ ہم نے اپنے ٹکٹ بُک کروائے، بیگ پیک کیے اور ترکی کی جانب نکل پڑے۔
ترکی قدیم یونانی اور رومن تہذیبوں کا گھر تھا جو بعد میں سلطنت عثمانیہ کا مرکز بھی رہا۔ ترکی میں ان مختلف تہذیبوں کے امتزاج نے مجھے ہمیشہ سے ہی مسحور کیا ہے۔ یہ ملک 3 لاکھ مربع میل تک پھیلا ہوا ہے اور اپنے اندر غیرمعمولی تاریخ اور ثقافت سموئے ہوئے ہے۔
شام میں جاری جنگ سے ترکی کے مشرقی علاقے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ہم نے ان سے دور رہتے ہوئے اپنے دورے کا منصوبہ ایسا بنایا جس میں ہم اہم تاریخی مقامات بھی دیکھ سکیں۔
ترکی آنے والے تقریباً ہر سیاح کی طرح ہم نے بھی اپنی سیاحت کی شروعات استنبول سے کی، جہاں دو براعظموں، یورپ اور ایشیاء کا میلاپ ہوتا ہے۔
استنبول قدیم اور جدید ادوار کا ایک طلسماتی امتزاج ہے۔ ہمارا جہاز اتاترک انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ ہوا جہاں ہم نے اس شہر کی ایک جھلک بھر دیکھی۔
کئی سارے ٹریول بلاگس میں دیے گئے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے ہم نے قیام کے لیے تاریخی ضلع سلطان احمد کا انتخاب کیا جہاں سے پورا شہر آسانی سے گھوما جا سکتا ہے۔
استنبول کو صرف چار دنوں میں دیکھنا جیسے ایک میراتھن میں دوڑ لگانے کے مترادف ہے۔ سفر کی ذہنی اور جسمانی تھکن کے باوجود بھی ہم نے جلد ہی اپنی پیٹھ پر بیگ لادے اور شاندار نیلی مسجد (جو مقامی طور پر سلطان احمد کے نام سے مشہور ہے) دیکھنے کے لیے سلطان احمد اسکوائر کی طرف روانہ ہو گئے۔
یہ مسجد 1616 میں عثمان سلطان احمد اول نے قسطنطنیہ کے محل کی بنیادوں پر تعمیر کروائی تھی۔ پرانے شہر کے قلب میں واقع مسجد کے بلند و بالا مینار استنبول کے عالیشان آسمانی پس منظر کے سامنے بہت دیدہ زیب محسوس ہوتے ہیں۔
نیلی مسجد کے ساتھ مسجد جیسا ہی شاندار حاجیہ صوفیہ (مقامی لوگوں میں آیا صوفیہ کے نام سے مشہور) نامی ایک بہت بڑا گرجا گھر واقع ہے جسے 537 عیسوی میں مشرقی سلطنت روم نے تعمیر کروایا تھا۔ 1453 میں قسطنطنیہ سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں فتح ہونے کے بعد گرجا گھر کو مسجد میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ جبکہ 1934 میں اسے ایک میوزیم کی حیثیت دے دی گئی تھی۔
گنبد کے اندرونی حصے میں موجود مسیح کی تمثیلی پینٹنگز سے لے کر اسلامی طرز کی سجاوٹ تک یوں لگا کہ آیا صوفیہ کا مرکزی ہال، ہمیں دنیا کی دو بڑی تہذیبوں کے عروج و زوال کی داستانیں سناتے ہوئے صدیوں پیچھے لے گیا ہو۔ میوزیم کا اندرونی حصہ سنہری روشنی کی طرح چمک رہا ہوتا ہے۔
اس کے بالکل برابر میں ہی بسیلیکا سیسترن (حوض) ہے جو شہنشاہ جسٹینیان اول نے 6 صدی میں تعمیر کروایا تھا، یہ استنبول کا سب سے بڑا حوض ہے؛ جسے شاہی محل کو پانی کی فراہمی کے لیے بنوایا گیا تھا۔ حالانکہ داخلی حصہ اتنا خاص تو نہیں تھا مگر جب زیر زمین پہنچے تب ہم نے حیرت انگیز بازنطینی تعمیری فن کو دیکھا۔
ایسا کہا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر کے لیے 7 ہزار غلاموں کو منتخب کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک ستون پر قدیم تحریر کے ساتھ آنسؤں کے خاکے بنے ہوئے ہیں جو ان سینکڑوں غلاموں کو خراج پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے اس کی تعمیر کے دوران اپنی جان گنوائی تھی۔
سورج غروب ہونے کے بعد ہم کچھ مستند ترک کباب کی تلاش میں نیلی مسجد کے برابر میں واقع ایک ریسٹورنٹ میں گئے۔ گرم گرم کبابوں اور حقوں کے دھوئیں کے درمیان ہم نے صوفی موسیقی پر گھومتے ہوئے ایک درویش کو بھی دیکھا۔ کہتے ہیں کہ گھومنے سے درویش کو روحانی دنیا سے تعلق جوڑنے میں مدد ملتی ہے۔
اگلی صبح، ہم کیفر آغا مدریسیسی گئے جو حاجیہ صوفیہ کے باہر فن کاروں کا ایک شاندار مرکز ہے۔ اس کے پیچھلے حصے میں موجود ایک تنگ راستہ ہمیں توپکاپی محل کے دروازوں تک لے گیا۔
فتح قسطنطنیہ کے بعد 1478 میں سلطان محمد نے اس محل کو تعمیر کروایا۔ محل کے اوپر سے دیکھنے پر اس کے شمال میں گولڈن ہارن ہے، مشرق کی جانب باسفرس دریا ہے اور جنوب میں بحرہ مرمرہ ہے، یہ محل 4 صدیوں تک سلطنت عثمانیہ کا مرکز بھی رہا۔
محل کے حرم کے قریب صحن سے باسفورس کے دلفریب نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اس محل کو 1924 میں میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ نمائشی ہالز میں سلطنت عثمانیہ کے دور کی شاہی مصنوعات، شاہی ملبوسات اور اسلام کے مقدس نوادرات کی کلیکشنز موجود ہیں۔ نمائشی ہالز میں تصویر کھینچنا منع ہے۔
توپکاپی محل میں اپنا آدھا دن گذارنے کے بعد ہم گلاتا ٹاور کے لیے نکل پڑے۔ 14ویں صدی کا یہ گلاتا ٹاور محل سے 4 کلومیٹر دور گولڈن ہارن کے قریب واقع ہے، جو پتھروں سے بنی ایک 63 میٹر بلند عمارت ہے۔
استنبول میں ٹرام کا مؤثر نظام ٹاور تک پہنچنے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ مگر ہم نے دماغ کے بجائے اپنے دل کی سنتے ہوئے پیدل جانے کا فیصلہ کیا۔
پرانے شہر کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں سے ڈھلوانوں پر چڑھتے ہوئے ہم گلاتا ٹاور پہنچے جو یورپی طرف کے شمالی حصوں کو جنوبی حصوں سے ملاتا ہے۔ فیروزی باسفورس کے پار جدید شہر کی طرف گھورتی ہوئی یہ قدیم طرز تعمیر آپ کو اس ہل چل سے بھرے شہر کی لا زماں موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔
گلاتا برج پر ایک ہی سلسلہ جاری رہتا ہے، جہاں مچھلی پکڑنے والے اپنی راڈز کے ساتھ نظر آتے ہیں، لوگ اپنے اپنے کاروبار پر جاتے دکھائی دیتے ہیں، ایشیا اور یورپ کے ساحلوں کے درمیان سفر کرتے بحری جہاز اور اطراف میں موجود عثمانیہ اور رومن دور کے فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج بھی نظر آتا ہے۔
برج سے گلاتا ٹاور تک لے جانے والی سیڑھیوں نے ہمارے پیروں کا خوب امتحان لیا۔ جدید گلاتا شہر میں آپ کو کہیں کہیں ترک حمام اور کیفے نظر آئیں گے۔
محلوں کی گلیوں سے گذرتے ہوئے ہم ٹاور کے داخلی حصے تک آ پہنچے جہاں پہلے سے درجنوں سیاح قطار لگائے، انتظار میں کھڑے تھے۔
اوپر موجود تنگ بالکونی کمزور دل والوں کے لیے تو بالکل نہیں ہے مگر یہاں سے شہر کے دلفریب نظارے دیکھنے کا موقع ضرور مل جاتا ہے۔ 63 میٹر کی بلندی سے استنبول کے ماورائی آسمانی منظر میں غروب آفتاب کا نظارہ بلاشبہ دیدنی تھا۔
ٹاور کے ٹاپ کیفے میں لذیذ بیف برگرز ہڑپ کرنے کے بعد ہم نے اپنے دن کا اختتام سلطان احمد جانے کے لیے ٹرام پر سوار ہو کر کیا۔
تیسرے دن ہم گرینڈ بازار گئے (جس کا مقامی نام کاپلی کارسی ہے)، جو سووینیئرز اور تحائف پر تھوڑے بہت پیسے خرچ کرنے کی ایک بہترین جگہ ہے۔
ہم اس بازار کی 3000 دکانوں اور 61 سے بھی زائد گلیوں میں پورا دن گھومتے پھرتے رہے۔ بازار میں دیگر اشیاء کے ساتھ مختلف اقسام کے مصالحہ جات، ترک تیل (پرفیوم)، روایتی کپڑے اور سووینئرز بھی دستیاب ہوتی ہیں۔
دوکانداروں کے دعووں کے باوجود یہاں ایک دام والا حساب نہیں ہوتا۔ آپ کو بہترین ڈیل حاصل کرنے کے لیے ایک اچھی گفت و شنید کی ضرورت پڑتی ہے۔
آخری دن ہم نے کروز پر باسفورس کی سیر کرنے کا فیصلہ کیا — جو دونوں براعظموں میں استنبول کے زیادہ تر تاریخی مقامات کو دیکھنے کا ایک آسان اور تیز طریقہ ہے۔
ہم توپکاپی محل کے پیچھے واقع ڈاک پر ایک ڈبل ڈیکر کروز شپ پر سوار ہونے کے لیے شیڈول کے مطابق وقت پر پہنچے، جو ہمیں بحر مرمرہ سے یورپی سائیڈ پر گولڈن ہارن کے ساحلی کناروں تک لے گیا؛ جس کے بعد شمالی یورپی کناروں سے ہوتے ہوئے ہمیں باسفورس کی جانب لے گیا۔ آخر میں یہ ایشائی کناروں سے مشرق کی جانب مڑا اور پھر سے ڈاک پر آ گیا۔
گولڈن ہارن کے داخلی حصے میں ایک شاندار سلیمانیہ مسجد آب و تاب سے کھڑی نظر آتی ہے۔ پورے شہر کی مسجدوں میں سب سے شاندار مسجد ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کا حکم سلطان سلیمان نے 1557 میں دیا تھا یہ وہ دور تھا جب سلطنت عثمانیہ اپنے عروج پر تھی۔ یہ مسجد آرٹ کا ایک نادر نمونہ ہے جسے فن تعمیر کے ماہر میمار نے ڈزائین کیا تھا۔
شمال کی جانب، استنبول کے یورپی حصے کے ساحلی کناروں پر ایک شاہانہ محل استنبول واقع ہے۔ اسے 1856 میں تعمیر کروایا گیا تھا اور 1922 میں سلطنت کے خاتمے تک عثمانی سلطانوں کا نیا گھر رہا۔
شمال کی جانب اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے ہم استنبول کے اندرونی حصے سے گذرے جسے عام طور پر استنبول ماڈرن کہا جاتا ہے۔ کروز نے اورتاکوی مسجد سے گذرتے ہوئے اپنا رخ ایشیائی حصے کی جانب موڑا — یہ مسجد 1856 میں عبدالمجید نے تعمیر کر وائی تھی۔
استنبول کا ایشیائی حصہ بھی اتنا ہی تاریخی اور فن تعمیر سے مالا مال ہے۔ ہم بیلربی محل سے گذرے جو کہ ایک دلکش شاہی رہائش گاہ ہے۔ یہ محل گرمیوں کے موسم میں دور عثمانی کے دوران بیرون ملک کے معزیزین کے لیے بطور گیسٹ ہاؤس استعمال ہوتا تھا۔
کروز پر موجود ہر شخص سب سے زیادہ میڈنز ٹاور دیکھنا چاہتے تھے — یہ باسفورس کے درمیان ایک جزیرے پر بنا ہوا ایک چھوٹا ٹاور ہے۔
ایسا کہا جاتا ہے کہ ایک شہنشاہ نے اپنی بیٹی کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ ٹاور تعمیر کروایا تھا۔ انہیں کہا گیا تھا کہ شہزادی اپنی 18 ویں سالگرہ پر ایک زہریلے سانپ کے کاٹنے سے مر جائے گی۔ ایسا سننے کے بعد انہوں نے سمندر کے بیچ میں ایک ٹاور تعمیر کروایا اور خشک زمین سے دور اپنی بیٹی کو پانی کے درمیان واقع اس ٹاور میں ٹھہرایا۔ شہزادی کی 18 ویں سالگرہ پر پیش گوئی کے باوجود محفوظ رہنے کی خوشی میں شہنشاہ نے اپنی بیٹی کو پھلوں کی ایک ٹوکری بطور تحفہ بھیجی۔ شہزادی کو اس ٹوکری میں چھپے سانپ نے ہی ڈنک مار دیا اور پیش گوئی کے مطابق ان کی موت 18 ویں سالگرہ پر ہی ہوئی۔
ہمارے سفر کا اختتام ایک گٹارسٹ کی کانوں میں رس گھولتی دھنوں کے ساتھ ہوا۔ ساحل پر اس کے ساتھ کھڑے ہو کر ہم رنگین غروب آفتاب کے سحر میں گرفتار سے ہو گئے تھے۔ اس کے بعد جا کر میں نے عظیم ترک مصنف اورہان پاموک کے ان لفظوں کو سمجھا:
''تمام زندگی اس قدر بدتر نہیں ہوسکتی، کیوں کہ جیسے بھی حالات ہوں میں باسفورس کے کنارے ایک لمبی واک پر ہمیشہ نکل سکتا ہوں۔''
اویس بن سعید پیشے کے اعتبار سے الیکٹریکل انجینئر ہیں۔ انہیں ہائیکنگ اور فوٹو گرافی کرنا بہت پسند ہے.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (10) بند ہیں