نوشکی ڈرون حملے کا مقدمہ امریکا کے خلاف درج
کوئٹہ: بلوچستان کے علاقے نوشکی میں ہونے والے ڈرون حملے کا مقدمہ امریکا کے خلاف درج کر لیا گیا۔
یاد رہے کہ 21 مئی کو نوشکی کے علاقے مِل میں امریکا نے ڈرون حملہ کیا تھا، اس حملے میں ایک ٹیکسی کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس سے ڈرائیور محمد اعظم اور مسافر ولی محمد ہلاک ہوئے تھے، بعد ازاں یہ تصدیق ہوئی کہ ولی محمد افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور تھے۔
یہ بھی پڑھیں : پاک افغان سرحد سے 2 جلی ہوئی لاشیں برآمد
ڈرون حملے میں مارے جانے والے ٹیکسی ڈرائیور محمد اعظم کے بھائی محمد قسم کی مدعیت میں امریکی حکام کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
نوشکی میں لیویز کے مال تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا، جس میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں۔
ان کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ محمد اعظم کے 4 بچے تھے، جبکہ وہ گھر کا واحد کفیل تھا، انہوں نے حملے میں ملوث حکام کےخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے ڈرائیور محمد اعظم کے چچا حاجی خدائے نذر نے ڈان کو بتایا کہ ہمیں انصاف چاہیے۔
خدائے نذر کا مزید کہنا تھا کہ ہم ڈرون حملہ کرنے والوں کو انصاف کے کٹھرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا بھتیجا محمد اعظم مکمل طور پر بے قصور تھا۔
مزید پڑھیں : ’افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ہلاک‘
انہوں نے کہا کہ اس کے کسی بھی دہشت گرد گروہ سے کوئی تعلقات نہیں تھے۔
واضح رہے کہ 21 مئی کو بلوچستان میں پاک افغان سرحد کے قریب 2 افراد کی جلی ہوئی لاشیں برآمد ہوئی تھیں، جن کی فوری طور پر شناخت نہ ہو سکی تھی تاہم ان کی لاشیں کوئٹہ کے سول ہسپتال منتقل کی گئیں، جہاں ان کی شناخت ولی محمد اور محمد اعظم کے نام سے ہوئی تھی، ٹیکسی ڈرائیور محمد اعظم بلوچستان کے علاقے تفتان کا رہائشی تھا شناخت کے بعد اس کی لاش اہل خانہ کے حوالے کر دی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں : 'ڈرون حملہ پاکستانی خودمختاری کی خلاف ورزی'
محمد اعظم کے اہل خانہ نے بتایا تھا وہ اپنی ٹیکسی میں ایک ہی سواری کو تفتان سے لے کر روانہ ہوا تھا۔
خیال رہے کہ امریکا نے کے صدر براک اوباما، سیکریٹری خارجہ جان کیری اور دیگر حکام نے ملا اختر منصور کی ہلاکت کی خبروں کے تو اعلانات کیے تاہم ایک ٹیکسی ڈرائیور کی موت پر کسی بھی قسم کا بیان سامنے نہیں آیا.
پاکستان کی حکومت نے بھی امریکا سے ڈرون حملے پر تو احتجاج کیا تھا تاہم ایک عام شہری کے نشانہ بننے پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا.
یاد رہے کہ امریکا نے پاکستان میں 2004 میں جنرل پرویز مشرف کے دور صدارت میں ڈرون حملے شروع کیے تھے، امریکا پاکستان میں اب تک 424 ڈروں حملے کر چکا ہے جس میں زیادہ تر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں کیے گئے ہیں، تاہم بلوچستان میں پہلی بار ڈرون حملہ کیا گیا.
یہ بھی پڑھیں : 15 سال میں 900امریکی ڈرون حملے
دی بیورو آف انویسٹی گیٹیو جرنلزم کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں 2004 سے 21 مئی 2016 تک 424 حملے کیے جا چکے ہیں، جن میں بنیادی طور پر القاعدہ اور طالبان رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا۔
ان ڈرون حملوں میں سے 5 کے علاوہ تمام حملے شورش زدہ قبائلی علاقوں میں کیے گئے، بندوبستی علاقوں میں کیے جانے والے 5 حملوں میں بلوچستان میں ہونے والے حملے کے علاوہ ضلع ہنگو میں 2013 میں ایک اور بنوں میں 2008 میں کیے جانے والے 3 ڈرون حملے شامل ہیں۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔