زندگی کی ٹرین اور لاہور کا قرض
لاہور تیزی سے بدل رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب میٹرو کے لیے کھدائی ہوئی تھی تو فیروز پور روڈ، مزنگ اور کچہری کے علاقے مٹی اور پتھروں کا ایک کھنڈر بن کر رہ گیے تھے۔
اب وہاں کنکریٹ کا ایک جنگل ہے جس کے درمیان انسان سہمے ہوے گاڑیوں میں سکڑے پھرتے ہیں۔ اورنج لائن اور گرین لائن وہ نئے عفریت ہیں جو لاہور کے بچے کھچے حسن کو کھا جائیں گے۔
لوگ شور مچا رہے ہیں، کبھی کبھی کوئی حکومتی اہلکار تسلی بھی دے دیتا ہے مگر میاں صاحب اور ان کے ساتھی سیمنٹ کے بیوپاری ہیں، جذبوں اور یادوں کے موتی کے کیا دام دے پائیں گے؟
کہتے ہیں کہ ہر 60 سالوں میں کسی شہر کا پورا منظرنامہ بدل جاتا ہے۔ پرانے مکان گر جاتے ہیں یا گرا دیے جاتے ہیں، اور نئے مکان ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ ساٹھ سال کی عمر میں مکانوں کے مکین بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ایک نسل رخصت ہو جاتی ہے اور نئی نسل اس کی جگہ لے لیتی ہے۔
آپ میں سے بیشتر لوگ اپنے والدین کو جانتے ہیں۔ ان کی شکلیں، عادتیں، مزاج اور باتیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جنہیں اپنے دادا دادی یا نانا نانی سے ملنے کا موقع ملا ہوگا۔ اگر خود مل نہ بھی پائے تو کم از کم ان کا نام اور تذکرہ ضرور سنا ہوگا۔
اب ذرا اپنے ذہن پر زور دیں اور اپنے پر دادا پردادی کا نام یاد کریں۔ شاید ہی کوئی خوش قسمت ہوگا جس کی ملاقات ان سے ہوئی ہے اور بہت کم لوگ ان کے نام سے واقف ہوں گے۔
ان سے بھی پہلے کے کسی بزرگ کا سوچیں، آپ کو ایک خلا کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ یہ ہے انسان کی زندگی کی حقیقت۔ ساٹھ سال، سو سال اور شاید ڈیڑھ سو سال میں انسان کا تذکرہ اور اس کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے۔
خوش قسمت ہیں وہ جن کو ان کی کسی تصنیف، کسی شاہکار یا کسی خیال کی وجہ سے کچھ سو سالوں یا کچھ ہزار سال تک وقتی دوام مل جاتا ہے۔ اربوں انسانوں میں سے کچھ خوش نصیب لوگ، فنا ہی اس کائنات کی باقی رہ جانے والی حقیقت ہے۔
ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جن کو وی سی آر یاد ہوگا۔ کیسے ہم اس کے ہیڈ میں سو روپے کا نوٹ پھنسا دیتے تھے تاکہ فلم اچھی طرح چلے۔ کتنے لوگوں کو یاد ہوگا کہ کیسٹ کے تار اگر کھل جائیں تو پینسل انہیں واپس اپنے مستقر میں پہنچا سکتی ہے۔
کتنے لوگوں کو یاد ہے کہ ان کے گھروں میں حجام آیا کرتا تھا حجامت کے لیے۔ تار کا آنا کسی بھی گھر میں کسی بری خبر کا اعلان ہوتا تھا۔ کتنے بچوں نے پٹھو گول گرام کھیلا ہے، گو گو کتنے لوگوں کو یاد ہے اور برف پانی کے کھیل کی ہیجان خیزی سے کتنے لوگ واقف ہیں؟
کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں خط لکھنے، اسے پوسٹ کرنے، جواب کا انتظار کرنے، خط کا لفافہ کھولنے اور اسے پڑھنے کی لذت محسوس کی ہوگی؟
ایس ایم اس پڑھنے والے، سیکنڈوں میں جواب پانے والے کبھی انتظار، اضطراب، بے یقینی اور یقین کی ان کیفیتوں کو محسوس نہیں کر سکیں گے جو ایک خط کے جانے سے اس کے جواب کے واپس آنے تک گزرتی تھی۔
ٹیلیفون بھی اپنا ایک مزاج لے کر آیا تھا۔ پورے محلے میں ایک ہی فون ہوتا تھا اور پہلے سے ٹائم دے کر رشتہ داروں کو جمع کرنا پڑتا تھا تاکہ بات ہو سکے۔
سینے سے موبائل فون لگائے رکھنے والی نسل کو سوشل نیٹ ورکنگ کی وہ دنیا کہاں دیکھنے کو ملیں گے جب تیسرے محلے کے آٹھویں گھر میں کوئی پچیس ہمسائے جمع ہو کر اپنے مشترکہ بھتیجے، بھانجے یا پوتے سے با جماعت بات کیا کرتے تھے۔
پہلے لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلیاں دیر سے آیا کرتی تھیں۔ کئی نسلوں کے بعد ہی کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نظر آتی تھی اور وہ بھی اتنی آہستہ اور سست۔ ایک نسل اپنی اقدار دوسری کے حوالے کر کے رخصت ہو جاتی تھی، ریلے ریس کے کسی اتھلیٹ کی طرح۔
مگر ہم لوگ مختلف ہیں۔
ٹیکنالوجی نے ہماری ایک ہی نسل کو مختلف منظر نامے دکھا دیے ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے سب کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔ ہم وہ نسل ہیں جو شاید ان سارے منظرناموں کی آخری وارث بھی ہے اور ان کی آخری چشم دید گواہ بھی۔ مٹھی سے پھسلتی ریت کی طرح یہ منظر بھی جلد ہی ہمارے ہاتھوں سے نکل کر ریت کے سمندر میں ڈوب جائیں گے۔
لاہور کا جغرافیہ تو ہم بدل ہی رہے ہیں مگر اس سے زیادہ تیزی سے ہم وہ عادتیں رسمیں اور رواج بدل رہے ہیں جو صدیوں سے ہمارا ورثہ تھیں۔
میں جب کبھی لاہور کے مال روڈ پر گاڑی چلاتا ہوں تو مجھے اس بابے کی بات یاد آتی ہے جس نے مجھے نواب شاہ کے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر چائے کی پرچ میں چائے انڈیلتے ہوئے بتایا تھا کہ جب نواب آف کالاباغ گورنر تھے اور لاہور گورنر ہاؤس سے نکلتے تھے، تو پورے مال روڈ پر گھاس پھوس بچھا دی جاتی تھی تاکہ تانگے کے کھروں پر بوجھ نا پڑے۔
اس بابے کے ہونٹوں پر چھلکتے انبساط میں مجھے ٹانگے کے قدموں کی دبی دبی دھک دھک اس وقت بھی سنائی دیتی تھی۔ وہ منظر ایک امانت تھی جو اس نے مجھے سونپی اور چلا گیا۔
گورنمنٹ کالج لاہور کے ادبی مجلے راوی میں ایک نظم تھی۔ الفاظ تو صحیح یاد نہیں مگر بیان کچھ اس طرح کا تھا کہ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر اس شہر میں پارک اور پھول اور تتلیاں نہ ہوں، اور صرف اونچی عمارتیں اور پتھر دل سڑکیں رہ جائیں، تو میں تو شاید مر جاؤں۔ پھر کون حساب کرتا پھرے گا کہ کتنے لوگوں نے بھوک سے خود کشی کر لی ہے، اور کس ٹہنی پر کس گھونسلے میں آج چڑیا خالی ہاتھ واپس آئی ہے؟
یہ جو حساس دل لوگ ہوتے ہیں، جیسے عبداللہ حسین تھے، جیسے احمد فراز تھے، جیسے فیض احمد فیض تھے، یہ بدلتی رتوں کا حساب رکھتے ہیں۔ درختوں پر لگے چڑیا کے گھونسلوں کی آبادی کا شمار کرتے ہیں اور ان عادتوں کو اوراق کے ایسے صندوقچوں میں محفوظ رکھتے ہیں، جن کا بچ رہنا قوموں کی زندگی میں بہت ضروری ہے۔
ہم میں سے کتنے ہیں جو ماضی کی ان امانتوں کا قرض اتار رہے ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں کہ میٹرو، اورنج لائن اور گرین لائن کی شکل میں ہم کنکریٹ کے پہاڑ چنتے جا رہے ہیں، اور وہ لوگ جو پھولوں اور موسموں کا حساب رکھتے تھے ایک ایک کر کے یہ بستی چھوڑتے چلے جارہے ہیں؟
خلا کی وسعتوں اور وقت کی لامتناہی پنہائیوں میں میرے ساتھ ایک مختصر لمحے کے شریکو، زندگی کی مصروفیات میں کھو جانا غلط نہیں مگر کبھی کبھی رک کر اس کی حقیقت پر بھی سوچنا چاہیے۔
ہم سب ایک چلتی ٹرین کے مسافر ہیں۔ منزل کی فکر بہت ضروری ہے مگر کبھی کبھی کسی اسٹیشن پر اتر کر اس بابے کی بات بھی سن لینی چاہیے جو شاید اسی انتظار میں ہو کہ کب ٹرین رکے اور وہ اپنے حصے کی امانت آپ کو سونپ کر چلا جائے۔
اگر ہو سکے تو اس منظر کو سنبھال لینا تاکہ تمہاری آنے والی نسلوں کے تخیل میں اس دنیا کا ایک گوشہ آباد ہو سکے، جس میں آج میں اور آپ رہتے ہیں۔
تبصرے (12) بند ہیں