• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

بل سب کا نہیں، اپنا اپنا

شائع May 23, 2016 اپ ڈیٹ May 24, 2016
ہمارے معاشرے میں کسی ایک شخص کی جانب سے پورا بل ادا کرنے کی ضد بہت عام نظر آتی ہے، جو ایک غلط روایت ہے۔ — کری ایٹو کامنز
ہمارے معاشرے میں کسی ایک شخص کی جانب سے پورا بل ادا کرنے کی ضد بہت عام نظر آتی ہے، جو ایک غلط روایت ہے۔ — کری ایٹو کامنز

اب جبکہ استنبول کے ایک ریسٹورنٹ میں بل ادا کرنے پر بحث نے ایک شخص کی جان لے لی ہے، تو یہ وقت ہے کہ اب ہم مہمان نوازی سے جڑی اپنی محترم مشرقی روایات کو کچھ عملی چیزوں سے بدل دیں۔

ہم سب نے ہی ایسی صورتحال کا سامنا کیا ہے جب ویٹر بل تھامے ٹیبل پر پہنچتا ہے اور پھر کھانا کھا کر بیٹھے گاہکوں کے درمیان ایک شدید بحث چھڑ جاتی ہے اور ہر کوئی پورا بل ادا کرنے کی ضد پکڑ لیتا ہے۔

ویٹر بے چارہ عجیب حالت میں شرمسار مسکراہٹ کے ساتھ کھڑا رہتا ہے، اس کی آنکھیں ایک سے دوسرے گاہک کی جانب دیکھتی رہتی ہیں، اور وہ اسی شش و پنج میں ہوتا ہے کہ آخر ان میں غالب بندہ کون سا ہے۔

'غالب' وہ بندہ ہوتا ہے جس میں ایک میزبان کی واضح خصوصیات ظاہر ہو رہی ہوں۔ عموماً وہ گروپ میں سب سے بڑی عمر کا ہوتا ہے، مگر ضروری نہیں کہ بزرگ ہی ہو۔ وہ ایک مستقل گاہک ہوسکتا ہے، جو کسی نئے گروپ کو کسی دوسری جگہ کے بجائے اس ریسٹورنٹ لے کر آیا ہو۔

یا وہ ایک مستقل گاہک ہوسکتا ہے جو ویٹر کو بل اسے دینے کا اشارہ کردیتا ہے اور اشاروں میں ہی بتا دیتا ہے کہ یہ اس کی دی گئی دعوت ہے۔

اگر گاہکوں میں بیک وقت ایک مرد و عورت ہیں اور دونوں ہی بل کی ادائیگی پر بضد ہوں تو ویٹر اکثر بل مرد کے حوالے کر دیتا ہے۔

یہاں پر صنفی برتری کا شفیق انداز میں اظہار واضح طور پر موجود ہوتا ہے، مگر شاید ہی اس پر کوئی غور کرتا ہو، خاص طور پر ایک ایسے معاشرے میں جہاں مردوں کی موجودگی میں ایک خاتون کے بل ادا کرنے سے 'مردانہ شان میں گستاخی' کے احساس کا خطرہ رہتا ہے — ہاں اس صورت میں نہیں جب خاتون کی جانب سے گروپ کو ٹریٹ دی جا رہی ہو۔

زیادہ تر معاملات میں جیت اس شخص کی ہوتی ہے جو سب سے زیادہ بلند آواز ہو۔

بالآخر ان میں سے کوئی ایک آگے بڑھ کر ویٹر کے ہاتھوں سے بل چھین لیتا ہے اور بے چارے ویٹر کو اس غیر ضروری پریشانی سے آزاد کروا دیتا ہے۔

بصورت دیگر ویٹر اس ٹکراؤ کے درمیان پھنسنے کے بجائے بل کو ٹیبل کے بیچ میں رکھ کر ''بل مجھے بھرنے دو!، نہیں مجھے بھرنے دو!'' کی آوازیں سنتے ہوئے اپنی مقررہ جگہ پر لوٹ جاتا ہے۔


آپ مجھے نکتہ چیں کہہ سکتے ہیں مگر کھانے کے آخر میں یہ دوستانہ جھگڑا اکثر بے غرض خاطر تواضع کے مظاہرے سے زیادہ سماجی طاقت کے دکھاوے کا مقصد چھپا ہوتا ہے۔

آپ ان منظر ناموں کی ایک ترتیب پر غور کریں جہاں ایک بندہ پورے ٹیبل کا بل ادا کرنے کی سخت ضد کرتا ہے۔ ان میں ڈیٹس، مہربان واقف کاروں سے عام میل جول، اور ممکنہ یا موجودہ بزنس پارٹنرز شامل ہوتے ہیں۔

دوسری جانب اگر کوئی شخص کسی کیفے میں اپنے قریبی دوست کے ساتھ وقت گذارنے بیٹھا ہو، یا کسی مہنگے ریسٹورنٹ میں بڑے گروپ کے درمیان بیٹھا ہو، تو وہ شاید اتنی شدت سے بل ادا کرنا نہیں چاہے گا۔

جو چیز ان دونوں صورتحال کو الگ کرتی ہے، وہ بل ادا کرنے کے سماجی فوائد اور کسی اور کو بل ادا کرنے دینے سے ہونے والے معاشی فوائد کا تناسب ہے۔


جو بھی بل ادا کرتا ہے، وہ وہاں سے اس طاقت کے احساس کے ساتھ جاتا ہے جو وہاں داخل ہوتے وقت اس کے پاس نہیں تھی۔ عام طور پر انہیں اس طاقت کا احساس اضافی پسندیدگی کی صورت میں ہوتا ہے۔ بل نہ ادا کرنے والا قرض کے احساس اور کسی دن اس احسان کو چکانے کے پختہ ارادے کے ساتھ ٹیبل چھوڑتا ہے۔


یہ خاموش قرضہ بے ضرر انداز میں کسی شخص سے دوستی جوڑنے کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔

قریبی دوستوں کو ایک دوسرے کے معمولی اخراجات ادا کرنے سے زیادہ مالی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر آپ کا سب سے بہترین دوست پہلے ہی آپ کے لیے تیز رفتار بس کے آگے چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہو، تو اس کی زیادہ پسندیدگی حاصل کرنے کی کوشش کرنا فضول ہے؛ اور ڈنر ٹیبل کی سیاست تو قطعی طور پر غیر ضروری۔

مگر کسی بڑے گروپ جیسے پرانے دوستوں کی ری یونین میں سب کا بل ادا کرنے سے اتنا مالی نقصان نہیں ہوتا جتنا کہ اس سے حاصل ہونے والی عزت و اہمیت۔

اب سوچیے، اگر ہم بل آپس میں بانٹ لیں تو کیا ہوگا: ہم معاشرتی طور پر مساوی ہونے کے احساس کے ساتھ ٹیبل سے اٹھ کر باہر چلے جائیں گے۔

ہم ساتھ گزارے گئے اچھے وقت کے علاوہ اور کسی چیز کے بارے میں ایک دوسرے کے احسان مند نہیں ہوتے۔ کوئی بھی دوست کھانے کی جگہ سے کسی ایک دوست پر بل کی کثیر رقم کا بوجھ ڈالنے کی شرمندگی محسوس کرتے ہوئے نہیں اٹھتا۔

کوئی بھی فراخ دلی کے جھوٹے احساس کے ساتھ نہیں اٹھتا؛ 'جھوٹا' اس لیے، کیونکہ دوسروں نے نہ صرف یہ کہ اس سے اس فراخ دلی کا تقاضہ نہیں کیا تھا، بلکہ اس کی مزاحمت بھی کی تھی۔

یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اگر ایک بندہ مہنگی اسٹیک آرڈر کرتا ہے اور دوسرا اسٹیک سے کتراتے ہوئے سبز سلاد آرڈر کرتا ہے، تو کیا تب بھی بل سب میں مساوی طور پر تقسیم ہوگا؟ مگر پھر بھی، کوئی بھی حصہ داری کسی ایک کو تمام بل ادا کرنے دینے سے بہتر ہے۔

اگلی بار جب ویٹر چمڑے میں لپٹا بل ٹیبل پر لے کر حاضر ہو، تو یہ جان لیں کہ سماجی طور پر تعلقات مضبوط کرنے کے لیے سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ بوجھ سب مل جل کر اٹھائیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

فراز طلعت

فراز طلعت پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ وہ سائنس اور مختلف سماجی مسائل پر لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ FarazTalat@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

Ahmed May 23, 2016 11:08am
mehman nawazi islam main bohat bara muqam rakhti hai lakin rooz mara kee zindgi main app kay ilam main ho gaa yea jis ko American System kehtay hain apna apna bill yea American nahi Islamic tareqa hai
Hanif May 23, 2016 11:20am
Good and understandable.
waheed saddal May 23, 2016 12:40pm
اور اس طرح کی صورت حال ہم سفر کے دوران بھی دیکھے سکتے ہیں جب اگلی سیٹ پر بیٹھا پچھلی سیٹوں پر بیٹھے تمام لوگوں کا کریہ دے دیتاہے
Mansoor Mohammad May 23, 2016 05:38pm
بِل ادا کرنے والے / والی کی نیت کے بارے میں یکدم کوئی حتمی رائے قائم کرلینامناسب نہیں- ممکنہ طور پر اسکے پیچھے کچھ لوگوں کی نیت، سماجی یا معاشی فوائد کے حصول کی بھی ہوسکتی ہے لیکن کچھ دوسرے لوگوں کے اخلاص یا پھر اُنکی خرچ کرنے کی عادت کو یکسر کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024