گردوں میں پتھری سے کیسے بچا جائے؟
جو لوگ گردے کی پتھری کے شدید درد سے گزر چکے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس سے ہونے والا جسمانی و ذہنی کرب اتنا بدترین ہوتا ہے کہ جسے بیان بھی نہیں کیا جاسکتا۔
کوئی بھی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اسے پتھری ہوگی، مگر عمومی طور پر تمام وجوہات بچاؤ کے قابل ہیں، جیسے غذا میں تبدیلی، وافر مقدار میں پانی کا استعمال، اور میٹھے سوڈا سے پرہیز۔
مندرجہ ذیل وہ عناصر جو آپ کے لیے گردوں کی پتھری کا باعث بن سکتے ہیں۔
جینیات
اگر آپ کے خاندان میں کسی کے گردوں میں پتھریاں ہیں تو ممکن ہے کہ آپ کے گردوں میں بھی پتھریاں بن سکتی ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہ اگر آپ کے گردے میں پتھری ہے تو ایک اور بننے کے بھی خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
پانی کی کمی
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگ گرمیوں میں گردے میں پتھریوں کا شکار بنتے ہیں، خاص طور پر جو گرم آب و ہوا میں رہتے ہیں اور جنہیں پسینہ زیادہ آتا ہے۔ آپ کو جتنا پسینہ آئے گا آپ اتنا ہی کم پیشاب کریں گے، خاص طور پر جب آپ ناکافی پانی پی رہے ہوں۔
پانی کی کمی کی وجہ سے پیشاب میں موجود یورک ایسڈ حل نہیں ہو پاتا اور گردے کا پی ایچ نیچے گر جاتا ہے، جو اس میں تیزابیت کی زیادتی کا باعث بنتا ہے اور اس طرح گردوں میں پتھریاں بننا شروع ہوجاتی ہیں۔
دیگر دلچسپ مضامین
- گردوں کی پتھری اور اس کی علامات
- چکوترے کے 5 حیرت انگیز طبی فوائد
- انسانی گردے تیار کرنے والی پرنٹنگ مشین
پتھروں کو بننے سے روکنے لیے نمکیات کا زیادہ استعمال بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹرز ایک دن میں 8 سے 12 گلاس پانی پینے کا مشورہ دیتے ہیں؛ خاص طور پر گرمیوں کے دنوں میں؛ سکنجبین اور دوسرے اقسام کے وٹامن سی سے بھرپور جوسز پتھر بننے کے عمل کو روکنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
ایسا کہا جاتا ہے کہ پیشاب میں موجود سٹریٹ کیلشم کو دوسرے مادوں سے جڑنے سے روکتا ہے جو پتھری بننے کے عمل کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز شکر سے بھرپور سوڈے کا استعمال کے خلاف خبردار کرتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں پتھر بننے کے عمل میں مدد کر سکتے ہیں اور زیادہ شکر والے کھانے سے پرہیز کرنے جا مشورہ دیتے ہیں۔
غذا
اگر آپ کی غذا میں بڑی مقدار میں پروٹین، سوڈیم اور شکر شامل ہے مگر کیلشیم کی کمی ہے، تو ہوسکتا ہے کہ آپ کے گردے میں کچھ اقسام کی پتھریوں کا خطرہ زیادہ ہو۔
ہوتا یوں ہے کہ آپ کی غذا میں سوڈیم کی بہتات کیلشیم کی مقدار کو بڑھا دیتی ہے جسے آپ کے گردوں کو فلٹر کرنا ضروری ہوتا ہے اور اس طرح واضح طور پر آپ کے گردوں میں پتھری ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
ڈاکٹرز زیادہ پھل اور سبزیاں کھانے کی تجاویز دیتے ہیں اور ایک معتدل مقدار میں غذائی کیلشیم کا استعمال (بہت زیادہ یا بہت کم مقدار پتھریوں کے بننے کے عمل میں مدد کرسکتی ہے)۔
ایک دن میں گوشت کا استعمال 10 سے 12 اونس تک محدود کرتے ہوئے اور کچھ معاملات میں اوکسیلیٹ کی زیادہ سطح رکھنے والے کھانوں، جیسے پالک، سے پرہیز کرنے کا بھی مشورہ دیتے ہیں۔
موٹاپا
سارا دن بیٹھ کر گزارنے کی طرز زندگی، موٹاپا، زیادہ قد کے اعتبار سے زیادہ وزن، کمر کا بڑا سائز اور وزن میں اضافہ آپ کے لیے گردوں میں پتھریاں ہونے کا خدشہ بڑھا دیتے ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر اور ایسے حالات جو جسم میں کیلشیم کے جذب ہونے کا عمل متاثر کریں ان سے بھی یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
طبی حالات
اگر آپ کے معدے کی بائی پاس سرجری ہوچکی ہے یا پاخانے کی ورمی بیماری، یا کرونک ڈائریا کا شکار ہیں تو آپ کے گردوں میں پتھریاں ہونے کا زیادہ خطرہ ہے کیونکہ ایسے حالات آپ ہاضمے میں تبدیلیوں کا باعث بن سکتے ہیں.
اس سے آپ کے جسم میں کیلشیم اور پانی کے جذب ہونے کا عمل متاثر ہوتا ہے، لہٰذا پیشاب میں ان مادوں کی سطح بڑھ جاتی ہے جو پتھری بننے کے عمل کا باعث بنتے ہیں۔
گردوں کی پتھری کا تعلق قلبی بیماری، ذیابیطس ٹائپ ٹو اور ہائی بلڈ پریشر سے بھی ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ چند ادویات اور پیشاب کی نالی کے انفیکشنز سے بھی تعلق ہوسکتا ہے۔
ادویات
کچھ ادویات کے استعمال سے گردوں میں پتھری بننے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ سائنسدان مانتے ہیں کہ دوروں اور آدھے سر کے درد کے علاج کے لیے عام طور پر تجویز کردہ کچھ ادویات سے کیلشیم فوسفیٹ (کے قسم کی) پتھری کا رجحان بڑھ سکتا ہے۔
چند تحقیقوں کے مطابق فلورائڈ والا پانی بھی گردے میں پتھریوں کے کچھ اقسام کے کیسز کی ذمہ دار ہے۔
سائنسدانوں نے کیلشیم اور وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس اور گردوں میں پتھری بننے کے خدشات کے درمیان تعلق کو دریافت کر لیا ہے کیونکہ ان سے خون اور پیشاب میں کیلشیم کی سطح بڑھ جاتی ہے۔
ڈاکٹرز 800 انٹرنیشنل یونٹس آف وٹامن ڈی اور فی دن 800 سے 1200 ملی گرام کیلشیم سپلیمنٹس کے لیے ہدایات سے زیادہ استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ ان میں سے کون سے دو سپلیمنٹس خراب ہیں، ممکن ہے کہ ان سپلیمنٹس کا دیرینہ استعمال پیشاب میں کیلشیم کا زیادہ اخراج اور خون میں کیلشیم کی زیادتی کا باعث بنتے ہیں جو گردے میں پتھری بننے کے عمل کے لیے راہموار کرتے ہیں۔
وہ لوگ جو ان سپلیمنٹسس کا دیرینہ استعمال کر رہے ہیں انہیں ڈاکٹرز سے رجوع کرنا چاہیے اور اپنا خون اور پیشاب کا لیول چیک کروانا چاہیے۔
گردے کی پتھری لاعلاج مرض نہیں، لیکن علاج مکمل ہونے تک جس تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے، غذائی عادات میں تبدیلی لا کر اور اپنی صحت کی جانب متوجہ رہ کر اس سے باآسانی بچا جا سکتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔
تبصرے (1) بند ہیں