دیوسائی میں 'دیو' کی تلاش
ایک بلاگ میں مجھے ''لینڈ آف جائنٹ'' یا 'دیوسائی کی زمین' کا نام پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ مجھے اس سے پہلے کبھی معلوم ہی نہیں تھا کہ دیوسائی کا کسی دیو سے بھی کوئی تعلق ہوسکتا ہے، لہٰذا میں نے 4 ہزار میٹرز کی بلندی پر واقع اس خوبصورت میدان میں رہنے والے دیو کو دیکھنے کی امید پر وہاں جانے کا فیصلہ کرلیا۔
میں نے اس امید سے اپنے ساتھ 6 انڈے پراٹھے اٹھائے کہ دیوسائی میں دو دن کی کیمپنگ اور سفر کے دوران اتنا کھانا کافی ہو گا۔
میں خوش تھا کہ مجھے دیوسائی میں پانی لے جانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی کیونکہ دیوسائی میں کثیر تعداد میں تازہ پانی کے چشمے موجود ہیں۔ (تاہم میں نے کبھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ ان میں سے ایک چشمے میں ڈائیپرز بھی میرا استقبال کریں گے)۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس پورے خوبصورت میدان میں پلاسٹک کی بوتلیں اور ریپرز جابجا بکھرے پڑے تھے۔
ٹینٹ، سلیپنگ بیگ، تھوڑے کھانے اور کچھ ضروری سامان سے بھرے ہوئے بیک پیک کا وزن کمرتوڑ 20 کلو تھا۔ چونکہ میرا دیوسائی سے چِلم کی طرف ٹریک کرنے کا ارادہ تھا، اس لیے وزن کم سے کم رکھنا لازمی تھا۔
خدا کی رحمت کی صورت میں اسکردو کے رہائشی ایک کالج دوست نے دیوسائی لے جانے کے لیے جیپ کا انتظام کیا۔ اسکردو سے دیوسائی نیشنل پارک کے داخلی راستے تک پہنچنے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا وقت لگا۔
محکمہء جنگلی حیات کا بیزار دکھ رہا افسر ہم سے گیٹ پر ملا۔ 40 روپے کی داخلہ فیس لینے کے بعد اس نے میرے ہاتھوں میں پمفلٹ تھما دیا، جس میں نیشنل پارک کے بارے میں ضروری معلومات موجود تھیں، اس کے بعد ہمیں اندر جانے دیا گیا۔
دیو کی زمین کا داخلی راستہ اس خوبصورتی کی نفی کر رہا تھا، جو اوپر ہماری منتظر تھی، ان چڑھائیوں سے بھی اوپر جو ہم ابھی چڑھنے والے تھے۔ پہاڑوں کے درمیان اور نیچے کی طرف تیز رفتار بہتی ہوئی ندی کے ساتھ ساتھ چلتے تنگ اور بل کھاتے راستے پر جیپ جیسے چڑھنے کی کوشش کرتی تو اس کا انجن گویا غصے سے غرانا شروع کردیتا۔
ایک بار اوپر پہنچنے پر آپ دیکھیں گے کہ وہ تنگ راستہ ایسے میدانوں میں آکر ختم ہوتا ہے جہاں بے پناہ خوبصورتی بکھری ہوتی ہے۔ ہر سو سبزہ اور اس میں کہیں کہیں بینگنی، پیلے، نیلے اور سفید پھول لہراتے نظر آتے ہیں۔
اس حسین منظر کے بالکل بیچ میں تیزی سے بہتے ہوئے چشمے نظر آتے ہیں — اس تمام کھلے پس منظر میں موجود صرف برف پوش خوبصورت پہاڑ آب تاب سے کھڑے تھے۔
دیوسائی ٹاپ کے قریب علی مالک مار نامی جگہ پر چھپر یا ''کھوکہ'' وہ پہلی چیز تھی جو ہمیں انسانی وجود کی علامت کے طور پر دیکھنے کو ملی، جس کے قریب ہی گجروں کا پڑاؤ بھی تھا۔
ہم وہاں دودھ پتی پینے بیٹھ گئے اور گجروں کو بکری کی کھال کے استعمال سے مکھن بناتے دیکھنے لگے۔
گرمیوں کے ہر موسم میں گجر خانہ بدوش پنجاب سے ان سبزہ زاروں کا رخ کرتے ہیں تا کہ اپنے مویشیوں کو بہتر خوراک چروا کر موٹا تازہ بنا سکیں۔ ایسا سننے میں آیا ہے کہ چروانے کے لیے یہاں پر لائے گئے ہر ایک جانور کے بدلے میں انہیں چھوٹی سی رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔
میرا تعلق گجر خاندان سے ہونے کی وجہ سے یہ میرے لیے دور کے ان رشتہ داروں سے دلچسپ اتفاقی ملاقات تھی، جنہوں نے شہروں میں بسنے کے بجائے اپنے آبائی پیشے کو ہی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ان کے طرز زندگی کو دیکھ کر مجھے حسد ہو رہا تھا، اس قدر بے پناہ وسیع و عریض سبزے کو یہ لوگ اپنا گرمیوں کا گھر پکارتے ہیں۔
ایک گھنٹے بعد ہم بڑا پانی پہنچے جہاں وائلڈ لائف پراجیکٹ کا کیمپ ہے۔ یہ ان جگہوں میں سے ایک تھی جہاں میں رات کے لیے اپنا خیمہ نصب کرنے کا سوچ رہا تھا مگر ایسا کرنے پر مجھے اگلے دن چلم پہنچنے کے لیے ایک طویل اور دشوار ٹریک کرنا پڑتا۔
وہاں موجود ایک جنگلی حیات کے افسر نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اپنا سفر شیوسر جھیل تک جاری رکھوں جس کے قریب ریچھوں کی ایک پناہ گاہ تھی۔
میں حیران ہو کر سوچنے لگا کہ دیوسائی کا وہ دیو کہیں ہمالیہ کا بھورا ریچھ تو نہیں؟
جب میں شیوسر پہنچا تو اس وقت تک 4 بج چکے تھے۔ جب سورج غروب ہونا شروع ہوا تو تھوڑی دیر پہلے دکھائی دینے والے مقامی سیاح بھی آہستہ آہستہ نظر آنا بند ہوگئے۔
بھورے ریچھ کو میرا خیمہ چیرتے ہوئے تصور کرنے کے بعد میں اس قدر خوفزدہ ہو گیا کہ جھیل کے قریب خیمہ لگانے کا خیال ہی اپنے دماغ سے نکال پھینکا۔
جھیل سے کچھ میٹر کی دوری پر ایک کھوکھے کے مالک کا خیمہ دیکھ کر میں نے بھی وہیں اپنا خیمہ نصب کرنے کا فیصلہ کیا۔ کھوکے کے مالک اسلم نے مجھے ان کے بڑے خیمے کے پچھلے حصے میں موجود گرے آٹے کے نشان دکھائے جو پہاڑی کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔
انہوں نے یقینی انداز میں کہا کہ مجرم صرف بھورا ریچھ ہی ہوسکتا ہے جو خیمے کی بنیاد میں ترتیب سے رکھے پتھروں کو ہٹانے جتنی قوت رکھتا ہے۔
وہ آج اپنی اشیاء کے حوالے سے کوئی خطرہ نہیں اٹھانا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے اپنے بڑے خیمے میں ہی سونے کا فیصلہ کیا ہوا تھا — اس کے پیچھے یہ منطق تھی کہ اگر ریچھ کو اگر اندر سے کسی انسان کی بو آ جائے تو وہ وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔
میری عقل ان کی منطق ماننے کو تیار ہی نہیں تھی، کیونکہ دنیا کے دیگر حصوں میں ریچھ کئی لوگوں کی چیر پھاڑ کر چکے ہیں۔ میں نے حالیہ دنوں میں ''دی ریویننٹ'' فلم بھی دیکھی ہوئی تھی، مجھے اس بات پر پختہ یقین ہو گیا تھا کہ انہوں نے اس فلم کو بالکل ہی غلط طریقے سے سمجھا تھا۔
رات کے وقت آسمان کو تاروں نے مکمل طور پر روشن کر رکھا تھا۔ میں صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے جاگنے کی امید کرتے ہوئے سلیپنگ بیگ میں گھس گیا تاکہ صبح بھورے ریچھ کی تلاش کرنے نکل سکوں، بشرط یہ کہ وہ مجھے پہلے ہی تلاش نہ کرلیں۔
ایک گھنٹے کی نیند کے بعد میں سردی سے لرزتے ہوئے جاگا۔ درجہ حرارت صفر سے نیچے گر گیا تھا، اور منفی 7 تک جھیلنے کے لیے تیار کردہ میرا سلیپنگ بیگ ناکافی محسوس ہو رہا تھا۔
اونچائی کی وجہ سے عموماً سر میں ہلکا درد ہوتا ہے، جو عام طور پر رات کے وقت شدید ہوجاتا ہے، وہی مجھے بھی ہونے لگا تھا۔ میں فوراً اپنے پاس موجود جرسی پہن کر، اونی جرابیں چڑھا کر پھر سے سلیپنگ بیگ میں گھس گیا۔ کچھ منٹوں کے بعد ہی میرے خیمے کے باہر طبل بجنے جیسی آواز آئی اور میری آنکھ کھل گئی۔
جو پہلی سوچ میرے ذہن سے ٹکرائی، اس نے مجھے حواس باختہ کر دیا۔ کہیں یہ وہی ریچھ تو نہیں تھا جو اسلم کے خیمے سے چیزیں چُرا کر لے گیا تھا؟
میں کوئی بھی خطرہ نہیں لینا چاہتا تھا۔ ریچھ کو میرا خیمہ پھاڑتے، پراٹھا رولز کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے اور میرے ہاتھوں پیروں پر حملہ کرتے تصور کر کے میں نے یکایک جیکٹ پہنی، ٹارچ اٹھائی اور بوٹ پہن لیے۔
جس سمت سے آوازیں سننے میں آرہی تھیں میں نے اس کے مخالف سمت سے اپنے خیمے کی زپ کھولی، ٹارچ آن کی اور جلدی سے باہر نکل گیا۔
ٹارچ کی روشنی کی مدد سے ہر سمت کا جائزہ لیا، لیکن ایسی کوئی بھی چیز دکھائی نہیں دی۔ جیسے ہی میں اپنے خیمے کی طرف لوٹنے لگا تب کچھ میٹرز دور ایک گھوڑے کو چرتے ہوئے دیکھا۔
میں نے خود کو ایک ہی وقت میں پرسکون اور مایوس محسوس کیا، میں نے اس گھوڑے کو دور بھگایا اور آرام آرام سے اپنے خیمے کی طرف لوٹنے لگا۔
یہی قصہ میرے ساتھ دو بار رات کو قریب 2 بجے اور 4 بجے ہوا جس کے بعد میں نے سونے کا خیال ہی چھوڑ دیا۔
آسمان کا رنگ گہرا سرخ ہونا شروع ہو رہا تھا۔ سورج اپنی کرنوں سے صبح کے آسمان کو روشن کرنے کے لیے بے تاب تھا۔ میں نے نقشے کو دیکھا اور اس پر ریچھوں کی پناہ گاہ کو نظر انداز کرتے ہوئے چوٹی کو سر کرنے کے لیے ٹریک کا فیصلہ کیا۔
کچھ سو میٹرز دور سے کسی ریچھ کو دیکھنا ہی کافی تھا، کیونکہ اس طرح اپنی جان بچانے کی صورت میں دور سے ہی بھاگنے کا موقع مل جاتا۔
چوٹی پر پہنچنے میں میری توقعات سے زیادہ وقت لگا؛ اس وقت سورج پہلے ہی مکمل طور پر روشن ہو چکا تھا۔
درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ اس دیو کو دیکھنے کی میری ساری امیدیں، جو میرے خیال سے ایک بھورا ریچھ تھا، ختم ہوتی ہوگئیں۔
دوسری رات گذارنے کے لیے ناکافی سامان اور کم کھانے کے پیش نظر میں نے کیمپ کو ختم کرنے اور چلم کی طرف ٹریک کرنے کا فیصلہ اس عزم کے ساتھ کیا، کہ پھر کسی دن یہاں لوٹ کے ضرور آؤں گا۔
— تصاویر بشکریہ لکھاری
عثمان احتشام انور ابنِ بطوطہ کی طرح سفر و سیاحت کے دلدادہ ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: OEAnwar@
تبصرے (9) بند ہیں