• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

افغان حکومت، حزب اسلامی امن معاہدے کے قریب

شائع May 14, 2016

کابل: افغانستان کی حکومت کا آئندہ چند دنوں میں عسکری تنظیم ’حزب اسلامی‘ سے امن معاہدہ ہونے کا امکان ہے، جس کے بعد افغانستان میں 15 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کی کوششوں میں اہم پیشرفت کی امید ہے۔

امریکی خبر رساں ایجنسی ’اے پی‘ نے افغانستان کے اعلیٰ امن کونسل کے نائب سربراہ عطا الرحمٰن سلیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دو سال سے جاری مذاکرات کے بعد، حزب اسلامی سے امن معاہدہ جلد ہوجائے گا۔

حزب اسلامی کے سینئر نمائندے امین کریم کا بھی کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ افغان صدر اشرف غنی، جلد حتمی معاہدے کی منظوری دے دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں : حکمت یار کی پاکستانی طالبان سے تعلقات کی تردید

اگر افغان حکومت اور عسکریت پسند گروپ کے درمیان یہ معاہدہ ہوجاتا ہے تو یہ، غنی حکومت کی امن کی طرف بڑی کامیابی ہوگی۔

افغانستان کے سابق وزیر اعظم انجینئر گلبدین حکمت یار کی زیرقیادت تنظیم حزب اسلامی نے 1977 سے 1992 تک روس کے خلاف جنگ میں متحرک ترین کردار ادا کیا تھا جبکہ حزب اسلامی پر 1992 سے 1996 کی افغان خانہ جنگی کے دوران کابل میں بڑے پیمانے پر مخالفین کو ہلاک کرنے کا بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے، 2001 میں افغانستان میں امریکا کی فوجی دخل اندازی کے بعد گلبدین حکمت یار اور ان کی جماعت کو حکومت میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے افغانستان میں امریکا کے خلاف جنگ لڑنے کا اعلان کیا۔

امین کریم نے مزید کہا کہ وہ اس وقت ایک غیر معین جگہ پر مقیم ہیں، اور 25 نکاتی معاہدے پر دستخط کے لیے جلد کابل آئیں گے۔

مزید پڑھیں : افغان صدارتی انتخابات:حزبِ اسلامی کو امیدوار نامزد کرنے کی اجازت

ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کے ساتھ جولائی 2014 میں اس وقت مذاکرات شروع ہوئے، جب گلبدین حکمت یار کو اشرف غنی کا خط موصول ہوا، جبکہ امن معاہدے کے لیے اہم شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کا انخلا کیا جائے۔

70 سالہ گلبدین حکمت یار کو امریکا عالمی دہشت گرد قرار جبکہ اقوام متحدہ نے اسامہ بن لادن کے ساتھ بلیک لسٹ قرار دے چکا ہے۔

حزب اسلامی کے ساتھ معاہدے کے بعد افغان حکومت کو یہ موقع ہاتھ آجائے گا کہ وہ عسکریت پسند گروپ سے پابندیاں ختم کرنے کے لیے جو چاہے کرسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : کابل میں حزب اسلامی کی خاتون کا خودکش حملہ

حزب اسلامی گزشتہ چند سالوں سے وقفے وقفے سے متحرک ہوتی رہی ہے اور اس کی جانب سے آخری بڑا حملہ کابل میں 2013 میں کیا گیا تھا، جس میں 6 امریکی فوجیوں سمیت 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024