بہار کے ان دنوں میں یونانی جزیرہ لیسبوس بھی پوری طرح کھل اٹھا ہے۔ سورج نے بحرہ ایجیئن کو گرم کر کے تیراکی کے قابل کر دیا ہے۔
مائٹیلینی پورٹ کے قریب میں نے دو نوجوان پاکستانیوں کو دیکھا جو بستی کیمپ کی طرف لوٹنے سے پہلے سمندر کے نمکین پانی سے خود کو صاف کر رہے تھے۔ وہ اُس بستی کیمپ میں پچھلے کچھ ہفتوں سے قیام پذیر ہیں۔
میں پانچ سال سے زائد عرصے سے یورپ کی طرف ہجرت کرنے والوں کی کہانیاں کور کر رہی ہوں، مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ یونان میں موجود پاکستانی تارکینِ وطن ورکرز اس کہانی کا آخری باب ثابت ہوں گے۔
لوگوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہونا شروع ہو گیا ہے اور یہ معاشی تارکینِ وطن پورے یونان اور سابق یوگوسلاویا میں پھنسے ہوئے ہیں. جیسے جیسے انہیں اپنی قسمت کا حال معلوم ہوتا جا رہا ہے، ان کی مایوسی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
وہ مستقبل قریب میں جرمنی یا برطانیہ نہیں پہنچ سکتے کیونکہ یورپی یونین کے ایک ماہ قبل طے پانے والے معاہدے کے تحت مہاجرین کو یونان سے ترکی بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
کچھ کلومیٹر دور حراستی مرکز میں موجود لوگوں کے برعکس یہ نوجوان، جن میں کثیر تعداد پاکستانیوں کی ہے، اپنے دن ٹیلے کے دامن پر بیٹھے سمندر کا نظارہ کرتے ہوئے والی بال یا تاش کھیلنے میں گزار رہے ہیں۔
ٹھنڈی راتوں کے دوران وہ آگ کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھار پاکستانی گانے گاتے ہیں۔
کھانے کے اوقات میں انہیں چاول یا سبزیوں کے ساتھ آلو اور لوبیا جیسا سادہ کھانا ملتا ہے جو یورپین رضاکاروں کی جانب سے جمع کی گئی امداد سے فراہم کیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار ہسپانوی لائف گارڈز یہاں خشک میوہ جات کے تھیلے اپنے ساتھ لاتے ہیں۔
وہ جب وہاں آتے ہیں تو سینکڑوں نوجوان مہاجرین دوڑتے ہوئے ان چیزوں کو لینے کی لائن میں لگ جاتے ہیں۔ میڈرڈ سے تعلق رکھنے والے لولو اپنے پاکستانی دوستوں سے گلے لگ کر ملتے ہیں۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ، ''ان میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جنہیں میں نے سمندر میں بچایا تھا۔''
کیمپ میں رہنے والے لوگ نہ خوش ہیں اور نہ ہی پرسکون، غالباً یہ وہی دو چیزیں جس کی تلاش میں انہوں نے اپنا گھر چھوڑا تھا۔
انہیں یہاں مسلسل خدشہ لگا رہتا ہے کہ پولیس کسی بھی وقت کیمپ پر چھاپہ مارے گی اور مہاجرین کو حراستی مرکز میں ڈال دے گی۔
میئر کے ترجمان نے مجھے بتایا کہ اگر یہ لوگ پرامن طور پر واپس نہیں گئے تو پولیس کی مدد لی جائے گی، جو انہیں حراستی مرکز لے جائے گی۔
اس سے بھی زیادہ انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ ممکنہ طور پر انہیں ترکی ملک بدر کر دیا جائے گا، اور جو مہاجرین پناہ لینے کے معیار پر نہیں اترتے انہیں ری ایڈمیشن (دوبارہ داخلے کے) معاہدوں کے تحت اپنے اصل ممالک بھیج دیا جائے گا۔ پچھلے ہفتے 326 مہاجرین کو ملک بدر کیا گیا تھا جن میں سے 200 پاکستانی تھے۔
اسی اثنا میں ترکی پاکستان کے ساتھ ری ایڈمیشن معاہدے کی تفصیلات پر بھی کام کر رہا ہے تاکہ ترکی سے پاکستان ڈی پورٹیشن کی دوسری قسط پر عمل در آمد کیا جا سکے۔
گجرات سے تعلق رکھنے والے دو بچوں کے باپ 38 سالہ اعجاز کہتے ہیں کہ ''ذہنی دباؤ کی وجہ سے میرے بال سفید ہو گئے ہیں۔'' وہ اپنے گھرانے (جن میں دو چھوٹے بیٹے، بیوی اور بوڑھے والدین شامل ہیں) کے واحد کفیل ہیں۔ انہوں نے پاکستان سے ایران، ترکی اور پھر ربر کی کشتیوں کی مدد سے یونانی جزائر جیسے لیسبوس تک پہنچنے کے پرخطر سفر کے اخراجات کے لیے اپنا خاندانی گھر بیچ دیا ہے۔
انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپا اور پھر میری طرف ناامیدی سے دیکھنے لگے۔ دیگر کی طرح وہ بھی امید کھو بیٹھے ہیں۔ انہیں ترکی ملک بدر ہو جانے کا ڈر ہے جو نہ صرف ایک غیر محفوظ ملک ہے بلکہ وہاں بہتر ملازمت کی جگہ تلاش کرنا بھی مشکل ہوگا۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے حسن نے حراستی مرکز کے اندر سے ٹیلیفون کے ذریعے بات چیت کرتے ہوئے اپنی کہانی سنائی کہ کس طرح انہیں استنبول میں اغوا کر لیا گیا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک افغان آدمی نے رہائشی جگہ کی تلاش میں مدد کی پیش کش کی۔ رہائش کے لیے انہیں اپارٹمنٹ کے تہہ خانے میں ٹھہرایا گیا جہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور رہائی کے لیے تاوان طلب کیا گیا، جس کے ایک ماہ سے زائد عرصے کے بعد ان کے گھر والوں کو 3 ہزار یوروز کا تاوان بھرنا پڑا۔
دیگر پاکستانیوں نے بھی مجھے اسی طرح کی داستانیں سنائیں۔
یونان میں موجود ان مہاجرین کے ساتھ انسانی اقدار کے منافی برتاؤ کیا جاتا ہے، جہاں وہ چھپروں کے نیچے قیام پذیر ہیں اور ایسا کھانا کھاتے ہیں جسے شاید اس ملک میں بسنے والے لوگ ہاتھ لگانا بھی پسند نہیں کریں گے، مگر پھر بھی یہ صورتحال دو دیگر ہولناک انتخاب سے کم بدتر ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ، ''ہم شاید مر بھی جائیں مگر ترکی واپس نہیں جائیں گے۔ وہ ایک محفوظ ملک نہیں ہے۔''