آفتاب احمد پر دورانٍ حراست تشدد کی تصدیق
کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی فاروق ستار کے کوآرڈینیٹر آفتاب احمد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان کے جسم کے 35 سے 40 فیصد حصے پر زخموں کے نشانات موجود تھے۔
ڈان ڈاٹ کام کے پاس موجود پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا کہ آفتاب کے جسم کے مختلف حصوں پر سیاہ اور سرخی مائل زخم پائے گئے۔
مجسٹریٹ کلیم اللہ کلہوڑ کی نگرانی میں پوسٹ مارٹم جناح ہسپتال میں کیا گیا جبکہ موت کی وجہ کو کیمیکل رپورٹ مکمل ہونے تک محفوظ کرلیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ڈی جی رینجرز کا متحدہ کارکن پر دوران حراست تشدد کا اعتراف
آفتاب احمد کے الٹے پاؤں کا ناخن آدھا اکھڑا ہوا تھا، ان کے جسم کے مختلف حصوں پر خراشیں اور نیل کے نشانات پائے گئے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف
ڈان نیوز کے مطابق آفتاب کے سر سمیت جسم کے سات حصوں پر تشدد کے نشانات موجود ہیں۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ آفتاب احمد کے الٹے پاؤں کا ناخن بھی آدھا اکھڑا ہوا تھاجبکہ جسم کے مختلف حصوں پر خراشیں اور نیل کے نشانات پائے گئے.
ڈاکٹر فاروق ستار کے کوآرڈینیٹر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق انہیں تشویشناک حالت میں جناح اسپتال لایا گیا تھا اور ان کی موت منگل کی صبح آٹھ بجکر 20 منٹ پر ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: متحدہ کارکن کی ہلاکت،آرمی چیف کاتحقیقات کا حکم
آفتاب احمد کا انتقال اور اسکے بعد کی صورتحال
آفتاب احمد کو چار روز قبل اتوار کو رینجرز نے کراچی سے حراست میں لیا تھا اور پیر کے روز انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے دہشت گردی کے الزامات کے تحت 90 روز کا ریمانڈ حاصل کیا تھا۔
منگل کو صبح سویرے آفتاب احمد کو کراچی کے جناح ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دوران علاج انتقال کر گئے تھے۔
بعدازاں ایم کیو ایم نے دعویٰ کیا تھا کہ آفتاب احمد رینجرز کی حراست میں ہلاک ہوئے جبکہ رینجرز کا موقف تھا کہ انہیں سینے میں تکلیف کے بعد ہسپتال منتقل کیا گیا اور وہ دوران علاج چل بسے۔
سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بلال اکبر نے ایم کیو ایم کارکن پر دوران حراست تشدد کا اعتراف کرتے ہوئے موت کے محرکات کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کی تھی۔
رینجرز کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی رینجرز کے سیکٹر کمانڈر ہوں گے۔
تحقیقاتی کمیٹی کے سیکٹر کمانڈر کو جلد از جلد تحقیقات مکمل کرکے حقائق سامنے لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
رینجرز کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ واقعہ میں ممکنہ طور پر ملوث اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔
تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کتنے اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے جبکہ یہ بھی سامنے نہ آسکا کہ معطل ہونے والے اہلکاروں میں صرف سپاہی شامل ہیں یا کسی اعلیٰ افسر کو بھی معطل کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایم کیو ایم کارکن آفتاب احمد کی زیر گردش مبینہ تصاویر اور ویڈیو سامنے آئی تھیں، جس میں ان کے جسم پر تشدد کے نشانات موجود تھے۔
آفتاب احمد کی ہلاکت کے خلاف ایم کیو ایم کی جانب سے گزشتہ روز یوم سوگ بھی منایا گیا۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔