شائع May 6, 2016

ہیرآباد - دو بار اجڑنے والا تاریخی محلہ

اختر حفیظ

شاندار طرزِ تعمیر سے آراستہ شہر نہ تو خود بخود تعمیر ہوتے ہیں اور نہ ہی خود بخود تباہ ہوتے ہیں، انہیں تعمیر کرتے ہیں لوگوں کے خواب اور مزدوروں کے محنت کش ہاتھ، جبکہ انہیں تباہ کرتی ہے ہماری عدم دلچسپی، عدم توجہی اور بے حسی۔ کسی بھی انسان کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ اس کے شہر کا نقشہ اس کی آنکھوں کے آگے بگاڑ کا شکار ہوتا رہے۔

ہمارے ملک میں جن شہروں نے اپنا سنہری ماضی دیکھا ہے، آج وہ اپنے زوال کے دور سے گزر رہے ہیں۔ کراچی، حیدرآباد اور لاہور سمیت ایسے کئی شہر ہیں جنہوں نے برطانوی راج کے دوران اپنا عروج دیکھا، مگر اس کے بعد انہیں پسماندگی کی آکاس بیل نے ایسا گھیرا، کہ ان کی شان و شوکت اب صرف معدودے چند لوگوں کے ذہنوں کے دریچوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

شاندار ماضی کی وجہ سے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے والے ہمارے شہر آج کے دور میں کھنڈر بنتے جا رہے ہیں۔ خوبصورت تعمیرات آج آسمان سے باتیں کرتی ہوئی عمارتوں سے گھری ہوئی ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ شاید بلند قامت عمارتوں کے درمیان سہمی سہمی کھڑی ہوں۔

حیدرآباد میں ایک ایسا ہی محلہ ہے جو اپنی بہترین طرز تعمیر، کشادہ گلیوں اور صفائی ستھرائی کی وجہ سے مشہور رہا ہے۔ وہ محلہ ہیرآباد ہے اور اسے 1914 میں ہیرانند کھیم چند کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ جب اس کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا تو اس وقت وہ میونسپل کمیٹی کے صدر تھے۔

— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ

— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ

— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ

— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ

اس محلے کی منصوبہ بندی دنیا کے سات بڑے ممالک کے مشہور علاقوں کو ذہن میں رکھ کر کی گئی تھی۔ یہ علاقہ جیل روڈ پر ٹاور مارکیٹ سے تھوڑے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ جگہ شہر حیدرآباد کے ابتدائی علاقوں میں سے ہے۔ کسی بھی شہر کی طرح حیدرآباد میں بھی سب سے پہلے صدر آباد ہوا، اور اس کے بعد جو بھی ترقی ہوئی وہ ہیرآباد میں ہوئی۔ سندھ کے میر تالپور حکمرانوں کے مقبرے بھی اسی محلے میں واقع ہیں۔

اس زمانے میں یہاں دو طبقات رہا کرتے تھے، جن میں ایک عامل اور دوسرے بھائی بند تھے۔

عامل وہ طبقہ تھا جو کلہوڑا اور تالپور دور میں ملازمت سے وابستہ تھا۔ یہ برطانوی راج کے دوران بھی افسرشاہی طبقہ کہلاتا تھا۔ ہیرآباد میں ان کی ایک عامل کالونی آج بھی قائم ہے، جنہیں حیدرآبادی عامل کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹرز، انجینیئرز اور وکلا یہ سب عامل تھے۔ یہ صرف حیدرآباد تک محدود نہیں تھے بلکہ خیرپور، لاڑکانہ اور سیہون میں بھی رہائش پذیر تھے۔

ہندوؤں میں عامل اعلیٰ درجے کی ذات مانی جاتی تھی۔ کیونکہ یہ سب سے زیادہ پڑھا لکھا طبقہ تھا۔ یہ لوگ اعلیٰ عہدوں پہ بھی فائز تھے۔ حیدرآبادی عامل خود کو خدا آبادی عامل بھی کہلواتے تھے۔

بھائی بند وہ سندھی طبقہ تھا جو کاروبار سے وابستہ تھا۔ یہ لوگ تالپور حکمرانوں کے دور سے ہی کاروباری سرگرمیوں میں مصروف عمل تھے۔ یہ سلسلہ برطانوی راج تک بھی جاری رہا۔ وہ چھوٹے کارخانے دار تھے اور کسی نہ کسی صنعت سے بھی وابستہ تھے۔

1843 میں سندھ کی فتح کے بعد انگریزوں کو جب بھی سندھ کی بنائی ہوئی اشیاء کی ضرورت پڑتی تھی تب وہ اشیاء بھائی بند ہی فراہم کیا کرتے تھے۔ سندھ ورکی ان بھائی بند کو کہا جاتا تھا جن کی تجارت دور دراز ملکوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ خام مال سے لے کر ضروریات زندگی کی دیگر اشیاء وہ بیرون ملک لے جایا کرتے تھے۔ جیسا کہ یہ تمام اشیاء سندھ میں بنی ہوئی ہوتی تھیں اس لیے اسے سندھ ورک کہا جاتا تھا، جو بعد میں سندھ ورکی ہوگیا، پھر یہ نام ایک مخصوص کاروباری طبقے سے منسوب ہو گیا۔

— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ

— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ

— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ

— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ

1914 میں جب حیدرآباد کی مرکزی مارکیٹ میں ٹاور بنا کر اس میں گھنٹا گھر نصب کیا گیا، تو اس وقت تک یہ تمام لوگ مارکیٹ کے علاقے میں رہائش پذیر تھے مگر جیسے ہی ٹاور مارکیٹ سے تھوڑے فاصلے پر ہیر آباد کا قیام عمل میں آیا تو یہ لوگ اسی علاقے میں آباد ہو گئے۔

آج بھی مارکیٹ میں وہ تمام عمارات دیکھی جاسکتی ہیں جن میں وہ رہائش پذیر تھے۔ ہیرآباد کے آباد ہونے سے مارکیٹ کا علاقہ مکمل طور پر ایک کاروباری حب بن چکا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک حیدرآباد کی ٹاور مارکیٹ ایک کاروباری علاقہ ہی بنا ہوا ہے۔

1900 کی دہائی میں جو فن تعمیر رائج تھا، ہیرآباد میں تمام گھر اس حساب سے ہی تعمیر کیے گئے ہیں۔ گھروں میں زیادہ سے زیادہ کھڑکیاں اور دروازے بنائے گئے ہیں، گھروں میں گیلریاں بھی ہیں۔ ہر گھر کے دروازے کو گلی یا سڑک سے اوپر رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہر گھر کی گیلری لکڑی سے بنائی گئی ہے۔ گھروں میں تہہ خانے بھی بنائے گئے ہیں۔

گلیوں کو اس لیے کشادہ بنایا گیا تاکہ ہوا کا گزر آرام سے ہو اور آمد و رفت میں بھی لوگوں کو تکلیف نہ پہنچے۔ کسی زمانے میں حیدرآباد کے ہر گھر کی چھت پر ہوا دان ہوا کرتے تھے۔ جن میں سے ہوا ٹھنڈی ہو کر کمروں تک پہنچتی تھی۔

— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ

مگر اب ہیرآباد کی گلیاں لوگوں کے دلوں کی طرح تنگ ہوتی جا رہی ہیں۔ وہ گھر جو کسی زمانے میں اس محلے کی پہچان تھے، اب انہیں مسمار کر کے نئے پلازہ تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ کئی گھر ایسے بھی ہیں جن پر لگے تالے اب زنگ آلود ہو چکے ہیں۔ جن کے نصیب میں اب کوئی مکین نہیں۔

میں نے جب ایک بند گھر کے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ گھر آسیب زدہ ہونے کی وجہ سے برسوں سے بند تھا لہٰذا وہاں نہ تو کوئی رہنے کو تیار ہے، اور نہ ہی مالک مکان کسی کو کرائے پر دے رہے ہیں۔ ایسے کئی گھر ہیں جو آج بھی خالی پڑے ہیں اور ان کی دیواریں زبوں حالی کا شکار ہو رہی ہیں۔ ایک دن یہ خالی پڑے ہوئے گھر اپنے ہی ملبے میں دب کر مٹ جائیں گے۔

ہیرآباد کی بدقسمتی ہے کہ یہاں کے گھر اپنے مکینوں سے دو دفعہ محروم ہوئے۔ ایک تو 1947 میں تقسیمِ ہندوستان کے وقت، جب یہاں سے بڑی تعداد میں ہندو مکین اپنے گھروں کو الوداع کہہ کر ہندوستان منتقل ہوگئے۔ دوسری بار 1988 کے لسانی فسادات کے دوران، جب یہاں سے کئی لوگ اپنے گھر چھوڑ کر حیدرآباد کے دوسرے نسبتاً پرامن علاقوں میں منتقل ہوگئے۔

محسن جویو ہیر آباد کے پرانے مکین ہیں۔ ان کا پورا بچپن اور جوانی کا خاصا حصہ انہی گلیوں میں گزرا ہے۔ مگر 1988 میں لسانی فسادات کے دوران انہیں بھی اپنا ہیر آباد والا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔

— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ

انہوں نے بتایا کہ ''میں جب بھی ہیر آباد آتا ہوں تو ان گلیوں میں اپنے بچپن کو ڈھونڈنے لگتا ہوں۔ میرا ناسٹلجیا مجھے روز یہاں کھینچ لاتا ہے۔ آپ جہاں اپنے بچپن اور جوانی کا ایک طویل عرصہ گزارتے ہیں، وہاں کا ماحول آپ کے اندر میں رچ بس سا جاتا ہے۔ میں نے تو ہیرا آباد کا وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب لوگ اسے دیکھنے کے لیے پتہ نہیں کہاں کہاں سے آتے تھے۔ خاص طور پر حیدرآباد کی ٹھنڈی ہواؤں کا مزہ لینے کے لیے۔'' گفتگو کے دوران مجھے وہ مختلف گھروں کے بارے میں بھی بتاتے رہے۔

''اب بس دیکھ لیں کہ یہ کس قدر اجڑ چکا ہے۔ پہلے کسی گلی میں اس طرح کوڑے کے ڈھیر نہیں تھے اور نہ ہی کوئی کسی گھر کو توڑ کر اس جگہ پر پلازہ تعمیر کرتا تھا، مگر یہ صرف میرے بچپن کی ہی کہانی نہیں ہے، بلکہ میرے جیسے کئی لوگ ہوں گے جو آج بھی ہیرآباد کو یاد کرتے ہوں گے جو اپنی مثال آپ تھا۔''

— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ

وہاں موجود لوگوں سے ان عمارتوں کے بارے میں جب بھی سوال کرتا تو جواب دیتے کہ یہ علاقہ تباہ ہو رہا ہے۔ وہ اس علاقے کی رونقیں ختم ہونے پر ماتم تو کرتے ہیں مگر کوئی بھی ان رونقوں کی بحالی کے لیے آواز اٹھانے تک کو تیار نہیں ہے۔

مجھے سب یہ بتاتے رہے کہ اور کون سی کون سی قدیم عمارات یہاں موجود ہیں، جنہیں میں تصاویر میں محفوظ کر لوں، مگر جب ان سے کہا جاتا کہ وہ ہیرآباد کی خوبصورتی اور قدامت برقرار رکھنے کے لیے کوئی تحرک کیوں نہیں کرتے، تو سب بے بس دکھائی دیتے۔ اب لوگوں نے گلیوں میں تجاوزات کرنی شروع کر دی ہیں، جن کی وجہ سے کشادہ گلیاں تنگ ہوتی جا رہی ہیں۔

— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ

ہر گلی میں آپ کو کئی ایسے گھر ملیں گے جنہیں ایک بار دیکھنے کے بعد بار بار دیکھنے کو دل کرتا ہے، اور وہ تمام ان دیکھے لوگ بھی یاد آنے لگتے ہیں، جنہیں یہ گمان بھی نہیں تھا کہ انہیں اپنے ہنستے بستے گھر چھوڑنے پڑیں گے۔

بلڈر مافیا ہیرآباد کا نقشہ بدل کر سمجھتی ہے کہ وہ اس علاقے کو جدید بنا رہی ہے، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ جس علاقے کی تعمیرات کو عالمی معیار کو ذہن میں رکھ کر کی گئی ہو اسے بھلا اور کسی جدت کی کیا ضرورت؟

— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ

آج بھی ان تمام افراد کے لیے ہیرآباد میں وقت ٹھہرا ہوا لگتا ہے، جنہوں نے اس کا جوبن دیکھا۔ اس سے وابستہ وہ تمام خوشیاں جو آج بھی ان کے لیے کل ہی کی بات ہیں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ اب ہیرآباد بہت بدل چکا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ محمکہء آثار قدیمہ ہیرآباد کے ان تمام مکانوں کی حفاظت اپنے ذمے اٹھا لے تا کہ اس قدیم ورثے کو محفوظ کیا جا سکے۔

یہ صرف ایک علاقہ نہیں ہے بلکہ ایک سلسلہ ہے، ایک نسل کے آباد ہونے کا اور دوسری نسل کے دربدر ہونے کا۔ یہ ایک قصہ ہے ان گرتے اور بکھرتے مکانوں کا جن میں کبھی لوگ آباد تھے اور آج ان پر قبضہ مافیا اور بلڈر مافیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ افسوس، کہ اس کو بچانے میں کسی کی دلچسپی نہیں ہے۔ کسی نے درست ہی کہا ہے کہ شہر ہماری عدم توجہی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے ہی برباد ہوتے ہیں۔


اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے.

اختر حفیظ

اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (17) بند ہیں

Sajid May 06, 2016 07:25pm
Please read
Nasrullah Jarwar May 06, 2016 08:07pm
ہیر آباد ۔ دوبارہ اجڑنے والا تاریخی محلہ سندھ کے نامور لکہاری محترم اختر حفیظ یے آرٹیکل !!!! کیا میں راۓ دوں میرے پاس الفاظ نہیں ہے ک جناب اختر حفیظ کے اس آرٹیکل پر کوئی راے دوں یے آرٹیکل حیدرآباد کے اس محلہ کی شاندار تاریخ ہے جو محترم اختر حفیظ کے قلم سے ہم سے سیدھی بات کررہی ہے لاجواب آرٹیکل لاجواب تصویریں ََََََََََ
Inder Kishan Thadhani May 06, 2016 09:41pm
زبردست حفیظ۔ جن ہوا دانوں کی آپ نے بات کی ہے انہیں سندھی میں منگھ کہا جاتا ہے۔
Arshad Baloch May 06, 2016 09:43pm
Kya Bat ha janab...!!! Jab Makan Be Dhang ho jayen To Maken bhi wesy ho jaty han.... Bhot khushi hoti Ap Noor Muhammad High school ka ziker Dalty....!!!!!
Hansraj Raj May 06, 2016 10:59pm
Very nice article on the history of Hirabad, Hyderbabd. How we are loosing beautiful architecture and buildings in today world. Akhtar Hafeez has eloquently depicted the lost beauty of this city.
راشداحمد May 06, 2016 11:22pm
کمال لکھا ہے جناب من۔شاندار۔معلوماتی اور مسحورکن
Mohsin Joyo May 07, 2016 12:17am
I am really grateull mr akhter hafeez who shared my inner feelings for this special blog..thanks
ساحل سمیجو May 07, 2016 03:01am
اختر حفیظ کے افسانوں اور کالمز کے تو قائل تھے ہی٬ لیکن انہوں نے تاریخ کی دھول میں دھندلاگئے ورثے کو اپنے قلم کے ذریعے گویا دوبارہ زندہ و جاوداں کر دیا ہے۔ ان کے اس طرح کے فیچرز نہ صرف قابلِ تعریف ہیں بلکہ انہوں نے یہ عظیم کام کرکے اپنا نام تاریخ کے حروف میں محفوظ کر لیا ہے۔ میں اس طرح کا شاہکار فیچر لکھنے پر اختر حفیظ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ تاریخ کے ستم ظریفی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں اور سرکار کے ذہنوں سے اوجھل ہوئے ہیرآباد جیسے مقامات کو محفوظ بنانے میں عملی پیش رفت بھی سامنے آئے۔
arain May 07, 2016 06:47am
akther,today will be very emotionel day for me in your artical the 2nd picture is our family house,i lived out of pakistan last 35 year but remamber all about hirabad,
غلام شبیر لغاری May 07, 2016 07:05am
اختر حفیظ کا بلاگ پڑھا، ہیرآباد - دو بار اجڑنے والا تاریخی محلہ بہت اچھے الفاظوں میں ہیر آباد میں وہ گھر جو فن تعمیر نادر نمونہ ہیں، انکے نقوش کو مٹانے کی سازش کو عیاں کیا ھۓ، اور سرکار کی عدم دلچسپی ہیرآباد کی خستہ حالی کے مناظر دکھاۓ ہیں۔ لاجواب تصاویر کے ساتھ اختر حفیظ کا خوبصورت آرٹیکل۔
majid May 07, 2016 08:21am
مين بهي هير آباد مي رهتا هون، مجهي بهت سڪون ميسر هوتا تها، اب صورتحال يه هي ڪه اب يهان پر بهي کوئي کسي کا نهين رها،
MQ May 07, 2016 08:30am
My house was 177 A/113 in Hirabad. Can you get the picture of that house. I left in 1970. Sindh govt should try to save this old historical site of Hirabad and Amil colony. It should be counted as a kind of Pakistan historical architect. I like to see your research in finding out what type of Raj and mazdoors who built these houses and who make the floor plans. You can not find today those Kareegar to make such places.
Daudpota May 07, 2016 11:26am
An awesome effort by a well versed writer/columnist. Well done!
Sohail Ahmed Siddiqui May 07, 2016 11:43am
ماشاءاللہ۔۔۔۔سائیں نے بہت اہم روداد رقم کی ہے۔۔۔۔۔اس محلے میں میرے تایاسید مظفرحسن کاقدیم مکان تبدیل شدہ حالت میں موجودہے جہاں ان کی اولادمقیم ہے۔۔۔۔نیزمیرے دادامرحوم، دادی (ان کی ہمشیرہ)، پھوپھی اور میرے والدصاحب بھی مقیم رہے۔۔۔۔۔آپ کے اٹھائے ہوئے نکات بالکل بجاہیں۔۔۔بلڈرمافیاکونکیل ڈالنی بھی ضروری ہے
عدنان جداکر May 07, 2016 12:00pm
بہت اعلیٰ اختر صاحب ، کیا کراچی کی عامل کالونی ﴿جو مزار قاءید کے علاقے میں ہے﴾ اس کا تعلق بھی عامل برادری سے تھا
Sohail Ahmed Siddiqui May 07, 2016 12:36pm
@Sohail Ahmed Siddiqui سائیں اخترحفیظ کو یادنہیں رہا۔۔۔۔۔۔عامل کالونی کراچی میں بھی واقع ہے اور اس شہر کی قدیم بستیوں میں شامل ہے
shaa May 07, 2016 01:48pm
@Inder Kishan Thadhani sindh kay villages m ab bhi khe khe ya roshndan mujhod hain