نمبروں کی بے مقصد دوڑ کا انجام؟
یہ امتحانوں کا موسم ہے، سو ہر سو سکوت طاری ہے. ہر نفس مشغول ہے، کوئی پڑھنے میں کوئی پڑھانے میں کوئی شارٹ کٹ کی تلاش میں۔ رہ رہ کر نوجوانوں میں یہ امنگ جاگتی ہے کہ آموں کی آمد کے ساتھ ساتھ امتحانوں کی تیاری سے بوجھل لمبی دوپہروں کی اور رت جگوں کی تھکان بھی ٹل ہی جائے گی، اور زندگی ایک بار پھر اپنی تمام تر رعنائیوں اور رنگا رنگی کے ساتھ فُرصت، مشاغل اور میلوں ٹھیلوں کا پیغام لے کر آئے گی۔
یونیورسٹی میں پڑھنے والے بیشتر طُلباء نمبروں کے مارے اور گریڈز کے ستائے ہوتے ہیں۔ انہیں لے دے کے اساتذہ سے بس ایک ہی شکوہ ہوتا ہے، ''مِس اچھے نمبر نہیں دیتیں'' یا ''سر مارکس دینے میں بڑی کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں!''
یعنی مارکس نہ ہوئے دولت ہو گئی جو اپنی جیب سے دیتے ہوں۔ بارہا طلباء کو سمجھایا کہ میرے پیارو، ہونہارو! نمبر دیے نہیں جاتے بلکہ حاصل کیے جاتے ہیں؛ اپنی محنت، ذکاوت اور عرق ریزی سے. پر مجال ہے جو کسی طالب علم کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔
عموماً ایسے اساتذہ بچوں (طلباء) کے منظورِ نظر ہوتے ہیں جو چاہے جیسا بھی پڑھائیں، مگر پرچوں کی جانچ کرتے وقت آنکھیں بند، ہاتھ کھلا یا یوں کہیں 'ہولا' رکھیں۔
اکثر طلباء کے لیے تو تعلیم کا مقصد محض امتحان پاس کرنا اور زیادہ سے زیادہ نمبروں کا حصول ہوتا ہے اور اس عمل میں علم کی پیاس کس قدر بجھی، کچھ سیکھا یا محض کورے رہے یہ تمام باتیں بیشتر طالب علموں کے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہیں مگر اس میں محض بچوں کا قصور نہیں۔ ذمے دار ہم اساتذہ اور والدین بھی ہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی ہیں۔
پڑھیے: ہر نوکری چھوڑ دینے والے شخص کی کہانی
اِس سے قطع نظر کہ بچے نے کیا پڑھا، کیا سیکھا، اس کی شخصیت و کردار میں کتنا نکھار آیا اور علم و زندگی کی چاہ اس کے اندر کس قدر بڑھی، بیشتر والدین کی فکر اور توجہ امتحانات کی تیاری اور مارکس شیٹ کے ہندسوں تک محدود ہوتی ہے، جبکہ کئی اساتذہ کا پیمانہ محبت اور شفقت بھی انہی عوامل کا محتاج ہوتا ہے۔
نتیجہ عیاں ہے
پچھلے چند مہینوں میں ملکی منظر نامے پر یکے بعد دیگرے ایسے کئی واقعات سامنے آئے جہاں امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہ دینے پر ایک طالبہ نے زہریلی دوا پی کر خودکشی کی تو دوسرے طالب علم نے کراچی میں خود پر پٹرول چھڑک کر اپنی جان لے لی۔ بظاہر ذہین و فطین اور نمایاں ایک اور طالبِ علم، جو اسکالرشپ پر آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے نرسنگ اسکول میں زیرِ تعلیم تھا، پھانسی پر لٹک گیا۔ خراب رزلٹ آنے اور والدین کی سرزنش اور سختی سے مایوس ہو کر کم عمر نوجوانوں نے موت کو زندگی پر ترجیح دی۔
مزید پڑھیے: دو بچوں کی 'خود کشی' کا ذمہ دار کون؟
گو اِن واقعات کی جزئیات مختلف ہیں، تاہم ان سب میں ایک بات نمایاں ہے — ہم اپنے بچوں، اپنے نوجوانوں کو ایسی تعلیم دے رہے ہیں جو محض ڈگری دیتی ہے، کامیابی کے جھنڈے گاڑنے اور فاتح ہونے کا سبق سکھاتی ہے، مسابقت کی بات کرتی ہے لیکن ناکامیوں کا مقابلہ کرنا، شکست کو گلے لگانا، نامساعد حالات میں امید کا دامن تھامے رہنا اور جینا نہیں سکھاتی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سال 2012 کی رپورٹ کے مطابق، ''غربت، مایوسی اور غیر یقینی مستقبل، نوجوانوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے چند اہم محرکات ہیں۔'' ایسے نوجوان جو اپنے نامساعد حالات، کشیدہ گھریلو ماحول اور تعلیمی مسابقت کے تناؤ کے زیرِ اثر ہوں، اکثر شدید محرومی اور ناامیدی (ڈپریشن) کا شکار پائے گئے ہیں، اور ایسے نوجوانوں میں خودکشی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔
مزید پڑھیے: خودکشی کا رجحان: علامات پہچانیے
دنیا بھر میں تعلیمی ادارے خصوصاً کالجز اور یونیورسٹیاں نہ صرف نوجوانوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر نالاں ہیں بلکہ اس کے تدارک کے لیے کوشاں بھی ہیں۔ اکیسویں صدی بے شک علم و آگاہی اور برق رفتار مواصلات کی صدی ہے، لیکن آج بھی ہمارے نوجوانوں کو گھر، محلّے، خاندان اور درسگاہوں میں شفقت و رہنمائی کی ضرورت ہے۔
عالمی ادارہءِ صحت کے مطابق
· دنیا بھر میں ہر سال 8 لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں.
· 15 سے 29 سال کے افراد کے درمیان خودکشی اموات کی دوسری بڑی وجہ ہے.
· تمام خودکشیوں کا 75 فیصد کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں ہوتا ہے.
سوشل میڈیا پر سینکڑوں، ہزاروں دوست رکھنے والے بیشتر طلباء تنہا اور زندگی سے مایوس نظر آتے ہیں۔ ہم جماعتوں اور ہم عمروں کی بظاہر چکا چوند اور مُتحرک پروفائلز اُن کا اپنی ذات پر اعتماد متزلزل کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے، یہ جانے بغیر کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔
عالمی ادارہء صحت کے مطابق دنیا میں ہر سال تقریباً 8 لاکھ افراد خودکشی کے مرتکب ہوتے ہیں. محض ہندوستان میں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ یومیہ 20 نوجوانوں کی خودکشی کی طرف اشارہ کرتی ہے جن میں سے اکثریت امتحانات کے دباؤ اور مطلوبہ درسگاہوں میں داخلہ نہ ملنے کے باعث مایوس ہو کر اپنی جان لے بیٹھتے ہیں۔
خودکشی مذہباً حرام اور اقدامِ خودکشی پاکستان میں قانوناً قابل تعزیر ہے، نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں اس حوالے سے کوئی مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں۔ گو ستمبر 2012 میں جاری عالمی ادارہء صحت کی رپورٹ کے مطابق سالانہ تقریباً 5 ہزار سے 7 ہزار پاکستانی خود کو موت کے گھاٹ اتار لیتے ہیں، جبکہ پچاس ہزار سے ڈیڑھ لاکھ افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔
مزید پڑھیے: خودکشی باعثِ بدنامی کیوں؟
اعداد و شمار بھلے ہی غیر مصدقہ ہوں، مگر یہ طے ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستانی نوجوانوں میں خودکشی کی شرح میں خطرناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس میں اکثریت 30 سال سے کم عمر افراد کی ہے اور ایک سروے کے مطابق رپورٹ کیے جانے والے کیسز میں مردوں میں خودکشی کا تناسب عورتوں کے مقابلے میں دو گنا ہے۔ یعنی ایک عورت کے مقابلے میں دو مرد زندگی کے مقابلے میں موت کا راستہ چنتے ہیں۔
ایسے میں سوچنا یہ ہے کہ آیا اساتذہ، والدین اور تعلیمی ادارے محض اپنا روایتی کردار ادا کرتے رہیں گے اور اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم، نمایاں نمبروں، غیر نصابی سرگرمیوں اور سُنہرے مستقبل کی بھٹی میں یکے بعد دیگر جھونکتے رہیں گے، یا انہیں ایک متوازن، پُر عزم اور فعال شخص بنانے کی سعی کریں گے۔
کیا مسابقت کی اس دوڑ میں بھاگتے ہوئے ہمارے پاس اتنی فرصت ہے کہ رک کر اپنا قبلہ درست کرسکیں، تاکہ ہمارے نوجوان اپنے اندر جینے کی اُمنگ اور مقصدِ حیات جان سکیں؟ جان سکیں کہ زندگی شطرنج کی بازی یا موت کا کنواں نہیں، انعام ہے، آزمائش ہے، جہد مسلسل ہے اور سب سے بڑھ کر جیے جینے کے قابل ہے۔
تبصرے (4) بند ہیں