• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
شائع May 2, 2016 اپ ڈیٹ May 3, 2016

صوفی شاہ عنایت: سندھ کے پہلے سوشلسٹ

ابوبکر شیخ

جاڑوں کے موسم کی ابھی ابتدا نہیں ہوئی تھی، مگر دن چھوٹے اور راتوں کے پہر پہلے سے کچھ بڑے اور ٹھنڈے ہونے لگے تھے۔ ٹھٹھہ سے مشرق جنوب کی طرف تیس کوس دور جھوک میں ماحول پُرسکون نہیں تھا، بلکہ ٹھٹھہ کی گلیوں میں سے امن اور شانتی کی فاختائیں بھی کب کی اُڑ چکی تھیں۔ گیارہ برس میں آٹھ گورنر مقرر کیے جا چکے تھے۔ زوال، ذلتوں، بے بسی، بیکسی اور بدبختی دبے پاؤں جنوبی سندھ کے شہروں، گاؤں اور بستیوں میں داخل ہوتی جاتی تھی۔

جب زوال کی آندھی چلتی ہے تو پھر چیزوں کو سمیٹنے کا وقت نہیں رہتا، کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب سب کچھ ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ 1707 میں شہنشاہ اورنگزیب نے یہ دنیا چھوڑی۔ بربادی کو سمیٹا نہیں جا سکتا مگر فرخ سیر اسی کوشش میں سرگرداں تھا۔

جب کوئی سلطنت زوال کی کیفیت میں ہوتی ہے تو مزاحمتوں اور بغاوتوں سے خوف زدہ ہو جاتی ہے۔ فرخ سیر کے آتے آتے مغل سلطنت میں جگہ جگہ بغاوتیں ہو رہی تھیں اور سلطنت کے پاس اتنے ذرائع نہیں تھے کہ ان بغاوتوں کا مقابلہ کرسکے۔ چنانچہ دربارِ دہلی مفاد پرستوں کی جانب سے بغاوت کی ہر جھوٹی سچی اطلاع پر یقین کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

ڈاکٹر مُبارک علی لکھتے ہیں: "عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے اقتدار پر بیٹھے ہوئے حکمرانوں کی طرف دیکھتی ہے، کیونکہ یہاں دولت و طاقت اور سیاسی اختیارات جمع ہو جاتے ہیں۔ عام لوگوں کے لیے یہاں تک پہنچنا اور اپنے مطالبات کی بات کرنا مشکل تھا، کیونکہ یہ اہلِ ثروت اور مراعات یافتہ طبقے کی آماجگاہ ہوا کرتا تھا۔

"دوسری جانب صوفیا کی خانقاہ ہوتی تھی۔ یہاں غریب و مفلس اور ستائے ہوئے لوگ روحانی سکون کی تلاش میں آتے تھے۔ یہاں کے شیخ تک رسائی آسان تھی۔ سماج میں عام آدمی کو جس قدر مسائل ہوتے تھے، جب ان کا حل نہیں ملتا تھا، تو وہ خانقاہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ محل، قلعہ یا خانقاہ کے درمیان بہت ہی کم تصادم ہوا۔ یہ ضرور ہوا کہ کبھی خانقاہ کے شیخ نے ناراضگی ظاہر کر دی، لیکن فوجی تصادم کی نوبت کبھی نہیں آئی، دونوں اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کو چیلنج نہیں کرتے تھے۔"

ٹھٹھہ کے قریب جھوک شریف میں شاہ عنایت شہید کی درگاہ۔— فوٹو ابوبکر شیخ
ٹھٹھہ کے قریب جھوک شریف میں شاہ عنایت شہید کی درگاہ۔— فوٹو ابوبکر شیخ

درگاہ کا داخلی دروازہ۔— فوٹو ابوبکر شیخ
درگاہ کا داخلی دروازہ۔— فوٹو ابوبکر شیخ

بیرونی منظر۔— فوٹو ابوبکر شیخ
بیرونی منظر۔— فوٹو ابوبکر شیخ

مگر تاریخ کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ جھوک میں ان دونوں کے درمیان تصادم ہوا، اور ایسا ہوا کہ جس نے وقت اور تاریخ کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیا۔ یہ دو 'طبقوں' کی آپس میں جنگ تھی۔ ایک وہ طبقہ تھا جو مسند پر بیٹھا تھا، جس میں مغل سرکار کا گورنر، مذہبی طبقہ اور مقامی جاگیردار شامل تھے۔ دوسرا طبقہ وہ تھا جسے آپ 'اللہ لوک' کہہ سکتے ہیں۔

مشہور سندھی دانشور ابراہیم جویو کے مطابق "مغل تسلط سے نجات کے لیے زیریں سندھ میں جھوک (میراں پور) میں جو تحریک چلی، وہ لانگاہ قبیلے سے چلی۔ اس درویش خاندان کے پہلے بزرگ مخدوم صدو لانگاہ کے نام سے ملتے ہیں، جو میاں آدم شاہ کلہوڑو کے ہمعصر تھے۔ ان کے لیے کہا جاتا ہے کہ انہیں دنیاوی چیزوں سے رغبت نہیں تھی۔"

صوفی شاہ عنایت نے مخدوم صدو لانگاہ کے گھر میں 1653 میں جنم لیا۔ حیدرآباد دکن (بیجاپور) کے مشہور عالم و بزرگ عبدالمالک کے پاس علم حاصل کیا اور تصوف کا طریقہ اختیار کیا۔

جب وہ سندھ واپس لوٹے تو طبقاتی لوٹ مار، جاگیرداروں، پیروں اور میروں کی ناانصافیاں دیکھ کر، اپنے آبائی شہر میں ایک ایسے سماج کی داغ بیل ڈالی جس میں انسانیت کے حقوق کو تحفظ تھا، جہاں محنت سے بہائے گئے پسینے کی قدر تھی، جہاں انسان کی عزت نفس کو غرور کے پاؤں تلے روندا نہیں جاتا تھا۔ یہاں ذات پات و مذہب کی کوئی لکیر نہیں تھی۔

یہاں کے لوگ چاہے مرشد ہوں یا مرید، مالک ہوں یا ہاری، سب مل کر زمین میں ہل چلاتے تھے۔ آمدنی و پیداوار میں سب کا برابر کا حق تھا۔ صوفی شاہ عنایت اس اجتماعی اقتصادی نظام کے رہبر تھے۔ زمین یہ نہیں دیکھتی کہ ہل چلانے والا کون ہے، وہ نہ رنگ دیکھتی ہے اور نہ ذات پوچھتی ہے۔ جس طرح ماں کے لیے سارے بچے ایک جیسے ہیں، اسی طرح زمین کے لیے بھی سارے انسان ایک جیسے ہیں، اور زمین پر سب انسانوں کا مشترکہ حق ہے۔ یہ تھے صوفی شاہ عنایت کے خیالات۔ ان کی اس فکر کو دیکھ کر لوگ ان سے متاثر ہوئے اور اس نظام میں شرکت کے لیے آتے گئے، اور یوں جھوک کو جنوبی سندھ میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہونے لگی۔

درگاہ سے متصل مسجد۔— فوٹو ابوبکر شیخ
درگاہ سے متصل مسجد۔— فوٹو ابوبکر شیخ

درگاہ کا اندرونی منظر۔ — فوٹو ابوبکر شیخ
درگاہ کا اندرونی منظر۔ — فوٹو ابوبکر شیخ

درگاہ کے اندر سندھ کا مخصوص نقاشی کا کام کیا گیا ہے۔— فوٹو ابوبکر شیخ
درگاہ کے اندر سندھ کا مخصوص نقاشی کا کام کیا گیا ہے۔— فوٹو ابوبکر شیخ

اگر آپ سندھ کا موجودہ دیہی نظام دیکھیں، تو آج اکیسویں صدی میں بھی اتنے بے باکانہ انداز میں جاگیرداروں کو چیلنج کرنا سوائے موت کو دعوت دینے کے اور کچھ نہیں۔ ایک معمولی معاوضے کے علاوہ ہاری کا زمین اور پیداوار پر کوئی حق نہیں۔ وہ صرف جاگیردار کی زمینیں سنبھالنے کا پابند ہے اور بس۔ فصل پر ساری محنت ہاری کرتا ہے، اپنے پسینے سے زمینیں آباد وہ کرتا ہے، کڑی دھوپ میں اور ہڈیاں جما دینے والی سردی میں ہل وہ چلاتا ہے، مگر اس فصل پر اس زمین پر اس کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ اس کی حیثیت صرف ایک نوکر کی سی ہوتی ہے۔

صوفی شاہ عنایت اس استحصالی نظام کے خلاف تھے۔ چنانچہ انہوں نے استحصال پر صرف جلنے کڑھنے اور اس سے زیادہ کچھ نہ کرنے کے بجائے 'جو کيڙي سو کائي' (جو اگائے، وہی کھائے) کا نعرہ بلند کیا، مارکس سے بھی تقریباً 150 سال قبل، اور یوں وہ سندھ کی پہلی شخصیت تھے جنہیں آپ جدید الفاظ میں 'سوشلسٹ' کہہ سکتے ہیں۔

یہ بات مقامی جاگیرداروں کو بری لگنی ہی تھی۔ صوفی کی اس خانقاہ پر پہلا حملہ تب ہوا جب ٹھٹھہ کا ناظم 'لطف علی' تھا۔ اس حملے میں خانقاہ کے بہت سارے درویش ہلاک ہوئے۔ ان بے گناہوں کے ورثاء نے جب استغاثہ کیا تو حکومت کی جانب سے قاتلوں کی زمینیں مقتولوں کے ورثا کو دلا دی گئیں۔

1716ء میں لطف علی خان کی جگہ نواب اعظم خان ٹھٹھہ کا ناظم ہو کر آیا، جس کو تاریخ نے کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا۔ وہ شاہ عنایت کے دشمنوں کی باتوں سے متاثر ہو کر ان سے مل گیا، اور اس نے صوفی شاہ عنایت کی مخالفت میں خانقاہ سے متصل زمینوں، جن کے محصول معاف ہو چکے تھے، پر دوبارہ محصول لگا دیا۔

درگاہ کے احاطے میں ان مریدوں کی قبریں ہیں جو حملے میں جاں بحق ہوئے۔— فوٹو ابوبکر شیخ
درگاہ کے احاطے میں ان مریدوں کی قبریں ہیں جو حملے میں جاں بحق ہوئے۔— فوٹو ابوبکر شیخ

درگاہ کے احاطے میں ان مریدوں کی قبریں ہیں جو حملے میں جاں بحق ہوئے۔— فوٹو ابوبکر شیخ
درگاہ کے احاطے میں ان مریدوں کی قبریں ہیں جو حملے میں جاں بحق ہوئے۔— فوٹو ابوبکر شیخ

گنجِ شہیداں۔ — فوٹو ابوبکر شیخ
گنجِ شہیداں۔ — فوٹو ابوبکر شیخ

جب اس نے محصول کا مطالبہ کیا تو شاہ عنایت نے جواب میں کہا کہ محصول تو بادشاہ کی جانب سے معاف ہو چکے ہیں، اب ہم سے کیسے مطالبہ کیا جاتا ہے؟ اعظم خان کو اس جواب نے ایک بہانہ مہیا کیا اور اس نے مرکز میں لکھ کر بھیجا کہ صوفی شاہ عنایت اور ان کے مریدوں سے بغاوت کی بو آرہی ہے، جس خانقاہ پر مہربانی کرتے ہوئے محصول معاف کر دیے گئے ہیں، وہاں تصوف کی آڑ میں فوج اکٹھی کی جا رہی ہے۔ دربار سے حکم ملا کہ اس فتنے کو روکا جائے۔ حکم ملتے ہی اعظم خان نے اپنی فوج کے علاوہ یار محمد خان کلہوڑو اور دوسرے رئیسوں کے نام احکام جاری کیے کہ وہ بھی مدد کے طور پر اس فوج میں شامل ہوں۔

یہ 12 اکتوبر 1717ء، منگل کا دن تھا جب جھوک کا گھیراؤ شروع ہوا۔ مقامی جاگیرداروں اور حکومت کی ساری طاقتیں ایک طرف یکجا تھیں، اور سامنے جھوک شریف کے صوفی فقیر تھے جن کے پاس کلہاڑیاں، بھالے اور خنجر تھے۔ وہ رات کو دشمنوں کی فوج پر شب خون مارتے تھے اور کامیاب بھی ہوتے تھے۔ تین ماہ گذر گئے پر جھوک کے فقیروں کو اتنی بڑی فوج شکست نہ دے سکی۔

مرکز مسلسل پوچھ رہا تھا کہ جنگ تین ماہ تک طویل کیوں ہوگئی؟ اور اتنی بڑی جنگ میں ہونے والے نقصان کا ازالہ کیسے ہوگا؟ مرکز کے ان سوالوں کا جواب اعظم خان کے پاس نہیں تھا اور زمینی حقائق یہ تھے کہ جنگ کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔

تاریخ کے اوراق پر تحریر ہے کہ جنگ کے خاتمے کی کوئی صورت نہ دیکھ کر ایک سازشی حربہ استعمال کیا گیا، جس کا مرکزی کردار 'میر شہداد خان تالپور' تھا جو میاں یار محمد کلہوڑو کا انتہائی وفادار تھا۔ وہ اپنے ساتھ قرآن شریف اور امن کے سفید جھںڈے لے کر شاہ عنایت سے ملا اور کہا کہ "میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ناظمِ ٹھٹھہ، شمالی سندھ کے حکمران اور مغل حکومت یہ جنگ نہیں چاہتی۔ کچھ لوگوں نے حکومت کو غلط رپورٹیں بھیجی تھیں جن کی وجہ سے غلط فہمیوں نے جنم لیا، مگر اب یہ غلط فہمیاں دور ہو گئی ہیں۔ اب آپ چل کر آمنے سامنے مذاکرات کریں تاکہ یہ جنگ ختم ہو سکے اور مزید انسانی خون بہنے سے روکا جا سکے۔"

یہ ایک ایسی سازش تھی جس کو میٹھی زبان میں چھپا دیا گیا تھا۔ صلح کی باتوں میں یہ تھا کہ درویشوں کے جان و مال کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ یہ سرد جنوری کی پہلی تاریخ تھی اور ہفتے کا دن تھا۔

درگاہ کے اندر صوفی شاہ عنایت کے لیے شاہ عبداللطیف کے لکھے گئے اشعار کندہ کیے گئے ہیں۔— فوٹو ابوبکر شیخ
درگاہ کے اندر صوفی شاہ عنایت کے لیے شاہ عبداللطیف کے لکھے گئے اشعار کندہ کیے گئے ہیں۔— فوٹو ابوبکر شیخ

درگاہ کے عین سامنے وہ جگہ ہے جہاں شاہ عنایت کا سر کاٹ کر رکھا گیا تھا۔— فوٹو ابوبکر شیخ
درگاہ کے عین سامنے وہ جگہ ہے جہاں شاہ عنایت کا سر کاٹ کر رکھا گیا تھا۔— فوٹو ابوبکر شیخ

صوفی شاہ عنایت، اعظم خان کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ صلح نامہ ایک دھوکہ تھا۔ شاہ عنایت کو گرفتار کرلیا گیا۔ جس طرح سرمد کاشانی کو راستے سے تو ہر حال میں ہٹانا تھا، مگر جھوٹے الزامات کا سہارا لے کر، اسی طرح یہاں بھی الزامات لگائے گئے۔ وہاں بھی مغل دربار تھا اور یہاں بھی مغل دربار ہی تھا، فرق فقط وقت کا ہوا کہ جب سرمد کا 1661 میں سر قلم کیا گیا، تب صوفی شاہ عنایت 8 برس کے تھے۔

8 جنوری 1718 بھی ہفتے دن تھا جب جاڑے ایک کی سرد شام کے وقت شاہ عنایت کو قتل کردیا گیا۔ جھوک کی خانقاہ پر حملہ ہوا جہاں ایک اندازے کے مطابق 24 ہزار صوفیوں کو قتل کیا گیا۔

جابر حکمرانوں کے ہاتھوں شاہ عنایت قتل ہوئے، ان کی خانقاہ اجاڑی گئی، ان کے پیغام کو دبانے کی کوشش کی گئی تاکہ جاگیرداری خطرے میں نہ پڑے، مگر تاریخ ایسی چیز ہے جو خود ہی انصاف کر ڈالتی ہے۔ شاہ عنایت آج بھی سندھ کے پسے ہوئے طبقوں کے لیے رول ماڈل ہیں، مگر شہداد خان تالپور، اعظم خان اور سازش میں شامل دیگر لوگوں کا کوئی نام و نشان نہیں۔

شاہ عنایت اور ان کے قریبی ساتھیوں کی قبریں۔— فوٹو ابوبکر شیخ
شاہ عنایت اور ان کے قریبی ساتھیوں کی قبریں۔— فوٹو ابوبکر شیخ

شاہ عنایت کی قبر۔— فوٹو ابوبکر شیخ
شاہ عنایت کی قبر۔— فوٹو ابوبکر شیخ

آج بھی ان صوفیوں کی اجتماعی قبریں، جن کو 'گنجِ شہیدان' کے نام سے پکارا جاتا ہے، یہاں موجود ہیں۔ وہاں اب بھی لوگ آتے ہیں اور احترام و دکھ کے پھول ان اجتماعی قبروں پر رکھتے ہیں۔ آج بھی صوفی شاہ عنایت کا پیغام جاگیرداروں کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے، اور استحصالی نظام میں حق کا نعرہءِ مستانہ ہے۔

سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنے رسالے میں صوفی شاہ عنایت کے نام ایک بے نام مرثیہ لکھ کر خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ شاہ صاحب نے شاہ عنایت شہید کے لیے جوگی کا استعارہ استعمال کیا ہے، جس سے وہ ان کی نہ جھکنے والی آزاد طبعیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

اب نہ وہ بیٹھکیں نہ وہ باتیں، سونی سونی فضائے قرب و جوار،

کتنی ویران ہے رہ پر پیچ، کتنے سنسان ہیں در و دیوار،

یہ چپ و راست ڈھیر یادوں کے، یہ بھٹکتا سا دیدہ خوں بار،

یہ خموشی یہ رات کے سائے، کون جانے وہ کہاں گئے یار۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

سامنے میرے آگئے جوگی، اپنا جلوہ دکھا گئے جوگی،

اس طرح مسکرا گئے جوگی، مست و بے خود بنا گئے جوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے اپنا بنا گئے جوگی، دیدہ و دل پہ چھا گئے جوگی،

جا کے پھر یاد آگئے جوگی، کچھ نئے گل کھلا گئے جوگی۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (19) بند ہیں

imdad khattak May 02, 2016 03:33pm
a wonderful article with excellent photography .....splendid job done by abu bakr shiekh sahib
Yasir Mehmood May 02, 2016 04:26pm
Very informative article to know about a Sufi and his struggle for the common men rights. Such vision and selflessness is lacking in today's religious leaders. Toady most of so called religious leaders have their own stakes and an agenda to promote. No one thinks for the betterment of the common people and neither it is taught in religious institutes. Thanks for sharing :)
عثمان راھوکڑو May 02, 2016 05:19pm
سندھ کے پہلے سوشلسٹ صوفی شاہ عنایت کی تحریک اور نعرے پر ابوبکر شیخ نے کمال کی تحریر لکھی ھئے۔ صوفی شاہ عنایت عالمی لیول کے سماج وادی تھے۔ اس نے رنگ نسل کے بغیر اپنی خانقاہ میں آنے والوں کو یہ سکھایا کہ دھرتی کے مالک چند پیر، میر اور وڈیرے نہیں جو کیڑے سو کاۓ کے نعرے میں اس نے عظیم فلسفہ دیا، سندہ کو اپنے صوفی شاہ عنایت اور اس کی تحریک پے فخر ھئے۔
غلام شبیر لغاری May 02, 2016 05:21pm
بھتریں آرٹیکل اور اچھی تصاویر، صوفی شاہ عنایت شھید پر اچھی تحریر
انوارالحق May 02, 2016 06:50pm
میرے پاس ابوبکر شیخ صٓاحب کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ بس اسی پر اکتفا کرتا ہوں کہ جزاک اللہُ خیراً واَحْسَنَ اْلجزا۔
گلشن لُغارئ May 02, 2016 09:28pm
بھت عمدہ تحریر ۔۔ سندھ کی شاندار تاریخ کےایک اھم ترین باب پر سے دھول کو ھٹاکر اسے ایک بار پھر اجاگر کیا گیا ھے، جو کہ قابل تعریف بات ھے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ھے کہ سندھ میں جاگیرداری نظام پہلے سے بھی بھیانک صورت اختیار کر چکا ھے اور شہداد خان اور اعظم خان اور ان کے حواری اب بھی روپ بدل بدل کر ھاریوں اور مزدوروں کا استحصال جاری رکھے ھوٰۓ ھیں۔ لیکن افسوس اب کوٰئ شاھ عنایت پیدا نہیں ھوتا۔
ahsan May 02, 2016 11:56pm
Allah o Akbar Nikal kr khankaahon say kr ada rasm e shabbiiri
Nasrullah Jarwar May 03, 2016 06:35am
سندھ کی تاریخ کا بلک دنیاں کی سوشلسٹ تاریخ کا انو کھا کردار صوفی شاہ عنایت پے جو شیخ صاحب نے اپنی قلم سے لکھا ہے بہت اچھا لکھا ہے خوبصورت تحریر اور خوبصورت تصاویر۔۔۔۔ ، very best articale and vert best photography
iftikhar lai mallah May 03, 2016 10:41am
shah inayat ...........this is rare oppertunity me to read lot but summer ally abt THE GREAT SUFI WE FOUGHT FOR down trodden and have nots.........having no ability to comment on sacrifices for the oppressed and raised the loud and high slogan against the tyrants of time.......................respect and tribute to our real hero of sindh and all lands of suppressed and chained humanity ................
مخزن علی May 03, 2016 11:53am
محترم ابوبکر شیخ صاحب! ماشاءاللہ، حسب روایت آپ کی جاندار تحریرپڑھ کر مزہ اآیا۔۔۔ شکریہ
Sumera May 03, 2016 12:00pm
very informative and inspiring article of Sindh's lion.
Bakhtiar Agha May 03, 2016 01:48pm
very thoughtful writing. Mr Sheikh keep it up. Regards
Saeeda May 03, 2016 02:59pm
ہمیشہ کی طرح ایک اور جاندار اور اچھی تحریر۔ یہ آرٹیکل کیونکہ ایک عام آرٹیکل نہیں ہے،،،،اس کی وسعت اور زمین بڑی ہے،،،اسلئے اگر ،،ڈان،،، والے اس کا انگلش میں ٹرانسلیٹ کریں تو بہت سارے لوگ اس کو پڑہ سکیں گے،،،،،
Muhammad Ali noonari May 03, 2016 03:24pm
بهت هي اچها اور لاجواب رائٽ اپ. تاريخي حواله جات پر مبني نهايت هي ڪارآمد اور مفيد معلومات. ويلڊن
Muhammad Ali noonari May 03, 2016 03:26pm
پر اس مين آپ ني نور محمد پليجو کا ذڪر نهين کيا جو کي صوفي شهيد کو دربار مغليه تک لاني اور سازش بناني مين ايک مقامي مهري کي طور پر استعمال هوا تها
Hubdar Ali May 03, 2016 05:17pm
Very informative article. Salute to Sufi Shah Inayat. Thanks Shah Shaikh Sb for writing a great article.
Akhtar Hafeez May 03, 2016 06:36pm
شاہ عنایت شہید مظلوم طبقات کی آواز تھے۔ انہوں نے جس طرح ہاریوں کے لیے آواز اٹھائی اور تحریک کا آغاز کیا وہ آج بھی تاریخ کے اوراق میں زندہ ہے۔ ابوبکر صاحب نے اپنی تحریر میں کافی تاریخی حوالات دے کر شاہ عنایت کے کردار کو اور بھی واضح انداز میں پیش کیا ہے۔ جسے پڑھ کر جھوک شریف کو ایک بار پھر دیکھنے کو من کرتا ہے۔
dilawer khan panhwar May 03, 2016 10:02pm
Zabardst artial hai abu bakar sahab aise hi soofi sisly ki dargah umerkot ke qareeb hai hazrat soofi sidique muhammad almaroof soofi sadiq shah hai jin ka mukmal raagnama likha hua hai jaisy shah jo risalo hai please in ka artical bh likhy maloomat k liye khadim ul fuqra qaim khan panhwar 03153589028
Mohsin raza May 04, 2016 10:24am
yar muhammad kalhoro ny sath diye ya nhi saheed sain inyat ko qatal karwany me