صوفی شاہ عنایت: سندھ کے پہلے سوشلسٹ
جاڑوں کے موسم کی ابھی ابتدا نہیں ہوئی تھی، مگر دن چھوٹے اور راتوں کے پہر پہلے سے کچھ بڑے اور ٹھنڈے ہونے لگے تھے۔ ٹھٹھہ سے مشرق جنوب کی طرف تیس کوس دور جھوک میں ماحول پُرسکون نہیں تھا، بلکہ ٹھٹھہ کی گلیوں میں سے امن اور شانتی کی فاختائیں بھی کب کی اُڑ چکی تھیں۔ گیارہ برس میں آٹھ گورنر مقرر کیے جا چکے تھے۔ زوال، ذلتوں، بے بسی، بیکسی اور بدبختی دبے پاؤں جنوبی سندھ کے شہروں، گاؤں اور بستیوں میں داخل ہوتی جاتی تھی۔
جب زوال کی آندھی چلتی ہے تو پھر چیزوں کو سمیٹنے کا وقت نہیں رہتا، کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب سب کچھ ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ 1707 میں شہنشاہ اورنگزیب نے یہ دنیا چھوڑی۔ بربادی کو سمیٹا نہیں جا سکتا مگر فرخ سیر اسی کوشش میں سرگرداں تھا۔
جب کوئی سلطنت زوال کی کیفیت میں ہوتی ہے تو مزاحمتوں اور بغاوتوں سے خوف زدہ ہو جاتی ہے۔ فرخ سیر کے آتے آتے مغل سلطنت میں جگہ جگہ بغاوتیں ہو رہی تھیں اور سلطنت کے پاس اتنے ذرائع نہیں تھے کہ ان بغاوتوں کا مقابلہ کرسکے۔ چنانچہ دربارِ دہلی مفاد پرستوں کی جانب سے بغاوت کی ہر جھوٹی سچی اطلاع پر یقین کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
ڈاکٹر مُبارک علی لکھتے ہیں: "عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے اقتدار پر بیٹھے ہوئے حکمرانوں کی طرف دیکھتی ہے، کیونکہ یہاں دولت و طاقت اور سیاسی اختیارات جمع ہو جاتے ہیں۔ عام لوگوں کے لیے یہاں تک پہنچنا اور اپنے مطالبات کی بات کرنا مشکل تھا، کیونکہ یہ اہلِ ثروت اور مراعات یافتہ طبقے کی آماجگاہ ہوا کرتا تھا۔
"دوسری جانب صوفیا کی خانقاہ ہوتی تھی۔ یہاں غریب و مفلس اور ستائے ہوئے لوگ روحانی سکون کی تلاش میں آتے تھے۔ یہاں کے شیخ تک رسائی آسان تھی۔ سماج میں عام آدمی کو جس قدر مسائل ہوتے تھے، جب ان کا حل نہیں ملتا تھا، تو وہ خانقاہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ محل، قلعہ یا خانقاہ کے درمیان بہت ہی کم تصادم ہوا۔ یہ ضرور ہوا کہ کبھی خانقاہ کے شیخ نے ناراضگی ظاہر کر دی، لیکن فوجی تصادم کی نوبت کبھی نہیں آئی، دونوں اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کو چیلنج نہیں کرتے تھے۔"
مگر تاریخ کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ جھوک میں ان دونوں کے درمیان تصادم ہوا، اور ایسا ہوا کہ جس نے وقت اور تاریخ کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیا۔ یہ دو 'طبقوں' کی آپس میں جنگ تھی۔ ایک وہ طبقہ تھا جو مسند پر بیٹھا تھا، جس میں مغل سرکار کا گورنر، مذہبی طبقہ اور مقامی جاگیردار شامل تھے۔ دوسرا طبقہ وہ تھا جسے آپ 'اللہ لوک' کہہ سکتے ہیں۔
مشہور سندھی دانشور ابراہیم جویو کے مطابق "مغل تسلط سے نجات کے لیے زیریں سندھ میں جھوک (میراں پور) میں جو تحریک چلی، وہ لانگاہ قبیلے سے چلی۔ اس درویش خاندان کے پہلے بزرگ مخدوم صدو لانگاہ کے نام سے ملتے ہیں، جو میاں آدم شاہ کلہوڑو کے ہمعصر تھے۔ ان کے لیے کہا جاتا ہے کہ انہیں دنیاوی چیزوں سے رغبت نہیں تھی۔"
صوفی شاہ عنایت نے مخدوم صدو لانگاہ کے گھر میں 1653 میں جنم لیا۔ حیدرآباد دکن (بیجاپور) کے مشہور عالم و بزرگ عبدالمالک کے پاس علم حاصل کیا اور تصوف کا طریقہ اختیار کیا۔
جب وہ سندھ واپس لوٹے تو طبقاتی لوٹ مار، جاگیرداروں، پیروں اور میروں کی ناانصافیاں دیکھ کر، اپنے آبائی شہر میں ایک ایسے سماج کی داغ بیل ڈالی جس میں انسانیت کے حقوق کو تحفظ تھا، جہاں محنت سے بہائے گئے پسینے کی قدر تھی، جہاں انسان کی عزت نفس کو غرور کے پاؤں تلے روندا نہیں جاتا تھا۔ یہاں ذات پات و مذہب کی کوئی لکیر نہیں تھی۔
یہاں کے لوگ چاہے مرشد ہوں یا مرید، مالک ہوں یا ہاری، سب مل کر زمین میں ہل چلاتے تھے۔ آمدنی و پیداوار میں سب کا برابر کا حق تھا۔ صوفی شاہ عنایت اس اجتماعی اقتصادی نظام کے رہبر تھے۔ زمین یہ نہیں دیکھتی کہ ہل چلانے والا کون ہے، وہ نہ رنگ دیکھتی ہے اور نہ ذات پوچھتی ہے۔ جس طرح ماں کے لیے سارے بچے ایک جیسے ہیں، اسی طرح زمین کے لیے بھی سارے انسان ایک جیسے ہیں، اور زمین پر سب انسانوں کا مشترکہ حق ہے۔ یہ تھے صوفی شاہ عنایت کے خیالات۔ ان کی اس فکر کو دیکھ کر لوگ ان سے متاثر ہوئے اور اس نظام میں شرکت کے لیے آتے گئے، اور یوں جھوک کو جنوبی سندھ میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہونے لگی۔
اگر آپ سندھ کا موجودہ دیہی نظام دیکھیں، تو آج اکیسویں صدی میں بھی اتنے بے باکانہ انداز میں جاگیرداروں کو چیلنج کرنا سوائے موت کو دعوت دینے کے اور کچھ نہیں۔ ایک معمولی معاوضے کے علاوہ ہاری کا زمین اور پیداوار پر کوئی حق نہیں۔ وہ صرف جاگیردار کی زمینیں سنبھالنے کا پابند ہے اور بس۔ فصل پر ساری محنت ہاری کرتا ہے، اپنے پسینے سے زمینیں آباد وہ کرتا ہے، کڑی دھوپ میں اور ہڈیاں جما دینے والی سردی میں ہل وہ چلاتا ہے، مگر اس فصل پر اس زمین پر اس کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ اس کی حیثیت صرف ایک نوکر کی سی ہوتی ہے۔
صوفی شاہ عنایت اس استحصالی نظام کے خلاف تھے۔ چنانچہ انہوں نے استحصال پر صرف جلنے کڑھنے اور اس سے زیادہ کچھ نہ کرنے کے بجائے 'جو کيڙي سو کائي' (جو اگائے، وہی کھائے) کا نعرہ بلند کیا، مارکس سے بھی تقریباً 150 سال قبل، اور یوں وہ سندھ کی پہلی شخصیت تھے جنہیں آپ جدید الفاظ میں 'سوشلسٹ' کہہ سکتے ہیں۔
یہ بات مقامی جاگیرداروں کو بری لگنی ہی تھی۔ صوفی کی اس خانقاہ پر پہلا حملہ تب ہوا جب ٹھٹھہ کا ناظم 'لطف علی' تھا۔ اس حملے میں خانقاہ کے بہت سارے درویش ہلاک ہوئے۔ ان بے گناہوں کے ورثاء نے جب استغاثہ کیا تو حکومت کی جانب سے قاتلوں کی زمینیں مقتولوں کے ورثا کو دلا دی گئیں۔
1716ء میں لطف علی خان کی جگہ نواب اعظم خان ٹھٹھہ کا ناظم ہو کر آیا، جس کو تاریخ نے کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا۔ وہ شاہ عنایت کے دشمنوں کی باتوں سے متاثر ہو کر ان سے مل گیا، اور اس نے صوفی شاہ عنایت کی مخالفت میں خانقاہ سے متصل زمینوں، جن کے محصول معاف ہو چکے تھے، پر دوبارہ محصول لگا دیا۔
جب اس نے محصول کا مطالبہ کیا تو شاہ عنایت نے جواب میں کہا کہ محصول تو بادشاہ کی جانب سے معاف ہو چکے ہیں، اب ہم سے کیسے مطالبہ کیا جاتا ہے؟ اعظم خان کو اس جواب نے ایک بہانہ مہیا کیا اور اس نے مرکز میں لکھ کر بھیجا کہ صوفی شاہ عنایت اور ان کے مریدوں سے بغاوت کی بو آرہی ہے، جس خانقاہ پر مہربانی کرتے ہوئے محصول معاف کر دیے گئے ہیں، وہاں تصوف کی آڑ میں فوج اکٹھی کی جا رہی ہے۔ دربار سے حکم ملا کہ اس فتنے کو روکا جائے۔ حکم ملتے ہی اعظم خان نے اپنی فوج کے علاوہ یار محمد خان کلہوڑو اور دوسرے رئیسوں کے نام احکام جاری کیے کہ وہ بھی مدد کے طور پر اس فوج میں شامل ہوں۔
یہ 12 اکتوبر 1717ء، منگل کا دن تھا جب جھوک کا گھیراؤ شروع ہوا۔ مقامی جاگیرداروں اور حکومت کی ساری طاقتیں ایک طرف یکجا تھیں، اور سامنے جھوک شریف کے صوفی فقیر تھے جن کے پاس کلہاڑیاں، بھالے اور خنجر تھے۔ وہ رات کو دشمنوں کی فوج پر شب خون مارتے تھے اور کامیاب بھی ہوتے تھے۔ تین ماہ گذر گئے پر جھوک کے فقیروں کو اتنی بڑی فوج شکست نہ دے سکی۔
مرکز مسلسل پوچھ رہا تھا کہ جنگ تین ماہ تک طویل کیوں ہوگئی؟ اور اتنی بڑی جنگ میں ہونے والے نقصان کا ازالہ کیسے ہوگا؟ مرکز کے ان سوالوں کا جواب اعظم خان کے پاس نہیں تھا اور زمینی حقائق یہ تھے کہ جنگ کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔
تاریخ کے اوراق پر تحریر ہے کہ جنگ کے خاتمے کی کوئی صورت نہ دیکھ کر ایک سازشی حربہ استعمال کیا گیا، جس کا مرکزی کردار 'میر شہداد خان تالپور' تھا جو میاں یار محمد کلہوڑو کا انتہائی وفادار تھا۔ وہ اپنے ساتھ قرآن شریف اور امن کے سفید جھںڈے لے کر شاہ عنایت سے ملا اور کہا کہ "میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ناظمِ ٹھٹھہ، شمالی سندھ کے حکمران اور مغل حکومت یہ جنگ نہیں چاہتی۔ کچھ لوگوں نے حکومت کو غلط رپورٹیں بھیجی تھیں جن کی وجہ سے غلط فہمیوں نے جنم لیا، مگر اب یہ غلط فہمیاں دور ہو گئی ہیں۔ اب آپ چل کر آمنے سامنے مذاکرات کریں تاکہ یہ جنگ ختم ہو سکے اور مزید انسانی خون بہنے سے روکا جا سکے۔"
یہ ایک ایسی سازش تھی جس کو میٹھی زبان میں چھپا دیا گیا تھا۔ صلح کی باتوں میں یہ تھا کہ درویشوں کے جان و مال کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ یہ سرد جنوری کی پہلی تاریخ تھی اور ہفتے کا دن تھا۔
صوفی شاہ عنایت، اعظم خان کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ صلح نامہ ایک دھوکہ تھا۔ شاہ عنایت کو گرفتار کرلیا گیا۔ جس طرح سرمد کاشانی کو راستے سے تو ہر حال میں ہٹانا تھا، مگر جھوٹے الزامات کا سہارا لے کر، اسی طرح یہاں بھی الزامات لگائے گئے۔ وہاں بھی مغل دربار تھا اور یہاں بھی مغل دربار ہی تھا، فرق فقط وقت کا ہوا کہ جب سرمد کا 1661 میں سر قلم کیا گیا، تب صوفی شاہ عنایت 8 برس کے تھے۔
8 جنوری 1718 بھی ہفتے دن تھا جب جاڑے ایک کی سرد شام کے وقت شاہ عنایت کو قتل کردیا گیا۔ جھوک کی خانقاہ پر حملہ ہوا جہاں ایک اندازے کے مطابق 24 ہزار صوفیوں کو قتل کیا گیا۔
جابر حکمرانوں کے ہاتھوں شاہ عنایت قتل ہوئے، ان کی خانقاہ اجاڑی گئی، ان کے پیغام کو دبانے کی کوشش کی گئی تاکہ جاگیرداری خطرے میں نہ پڑے، مگر تاریخ ایسی چیز ہے جو خود ہی انصاف کر ڈالتی ہے۔ شاہ عنایت آج بھی سندھ کے پسے ہوئے طبقوں کے لیے رول ماڈل ہیں، مگر شہداد خان تالپور، اعظم خان اور سازش میں شامل دیگر لوگوں کا کوئی نام و نشان نہیں۔
آج بھی ان صوفیوں کی اجتماعی قبریں، جن کو 'گنجِ شہیدان' کے نام سے پکارا جاتا ہے، یہاں موجود ہیں۔ وہاں اب بھی لوگ آتے ہیں اور احترام و دکھ کے پھول ان اجتماعی قبروں پر رکھتے ہیں۔ آج بھی صوفی شاہ عنایت کا پیغام جاگیرداروں کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے، اور استحصالی نظام میں حق کا نعرہءِ مستانہ ہے۔
سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنے رسالے میں صوفی شاہ عنایت کے نام ایک بے نام مرثیہ لکھ کر خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ شاہ صاحب نے شاہ عنایت شہید کے لیے جوگی کا استعارہ استعمال کیا ہے، جس سے وہ ان کی نہ جھکنے والی آزاد طبعیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اب نہ وہ بیٹھکیں نہ وہ باتیں، سونی سونی فضائے قرب و جوار،
کتنی ویران ہے رہ پر پیچ، کتنے سنسان ہیں در و دیوار،
یہ چپ و راست ڈھیر یادوں کے، یہ بھٹکتا سا دیدہ خوں بار،
یہ خموشی یہ رات کے سائے، کون جانے وہ کہاں گئے یار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سامنے میرے آگئے جوگی، اپنا جلوہ دکھا گئے جوگی،
اس طرح مسکرا گئے جوگی، مست و بے خود بنا گئے جوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اپنا بنا گئے جوگی، دیدہ و دل پہ چھا گئے جوگی،
جا کے پھر یاد آگئے جوگی، کچھ نئے گل کھلا گئے جوگی۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (19) بند ہیں