میری منزل پرتگال کا دارالحکومت لزبن تھا۔ سمندر کے کنارے واقع اس ساحلی شہر میں ایک سیاح کے لیے وہ سب کچھ ہے جس کی امید کی جا سکتی ہے: غیر ملکیوں کو راستہ سمجھانے والے مہربان لوگ، بڑے بڑے شاپنگ مالز، سیاحت کو فروغ دینے والے ادارے اور سیاحت سے متعلق ڈھیروں سروسز جس میں کھلی چھتوں والی سیاحتی بسیں، ایک کنارے سے دوسرے کنارے جاتے ہوئے بحری جہاز، اور لزبن میں تو پانی پر چلنے والی بسیں، اور سڑکوں پر بجلی سے چلنے والے رکشے بھی گاہے بگاہے دکھائی دیتے ہیں۔




لزبن میں پہلا دن
دن کے کچھ گیارہ بجے کے قریب لزبن کے ائیرپورٹ پر پہنچا جہاں میرے مہربان دوست اسلم صاحب ایئرپورٹ پر میرے استقبال کے لیے موجود تھے۔ انہوں نے ایک دن پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ جہاز میں ناشتہ نہ کیجیے گا، میں پائے بنا کر رکھوں گا۔ لہٰذا ہم سیدھا ان کے دولت کدے پر ناشتے کی میز پر جا پہنچے، جہاں ورلڈ کلاس قسم کے پائے منتظر تھے۔ پردیس میں پائے جیسی سوغات کے ملنے کی خوشی کوئی پردیسیوں کے دل سے ہی پوچھے۔
ڈٹ کر ناشتہ کھایا اور شہر کی سیر کو نکل پڑے۔ ابھی پہلی گلی کے پہلے چوک تک ہی پہنچے تھے کہ کچھ آشناؤں کے چہرے دکھائی دینے لگے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ میری پھولوں اور پودوں سے آشنائی بہت پرانی ہے۔ سٹرکولیا کا ایک خوبصورت درخت مجھے دیکھ کر ہاتھ ہلا رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ تم یہاں بھی ہو؟ اس نے کہا حضور میں تو ادھر ہی ہوتا ہوں۔ میں نے اسے بتایا کہ اس کے بھائی بہنوں سے باغ جناح لاہور میں طویل ملاقاتیں رہی ہیں۔ بس پھر کیا تھا، آشناؤں کی لائن لگ گئی۔



لزبن کے پودوں نے مجھے مسحور کردیا تھا، ہر گلی محلے میں کوئی نہ کوئی جاننے والا ضرور نکل آیا، اگر میں آپ کو بتاؤں کہ کن کن سے ملاقات ہوئی تو آپ بھی حیران رہ جائیں گے۔
وہاں لوکاٹ کے پھل سے لدے ہوئے درختوں کے علاوہ کچھ سنگترے بھی تھے۔ میں نے سنا ہے کہ کچھ سنگترے لزبن کے نواحی قصبے سنترہ سے ہی دنیا بھر کو پھلدار بنانے نکلے تھے۔
انار پر پھول کھلے تھے، پائن، کیکر کی کچھ اقسام، گل مہر اور نیلم، کچنار، گل نشتر، اور تو اور ایک پارک میں لگے ہوئے آم کے تین پودے بھی ملے تو گھروں کے دروازوں کو سجاتی ہوئی بوگن ویلیا بھی دکھائی دی۔ غرض یہ کہ پودوں اور پھولوں کے حوالے سے لزبن بہت اپنا سا لگا۔ مجھے یہ شہر سیکنڈے نیویا، امریکا کی چند ریاستوں، چائنہ کے چند شہروں، اور یورپ کے کچھ ملکوں سے کافی مختلف لگا۔
سفیدے کے جنگلات تو پائن کے جنگلات کو مات دیے ہوئے تھے، اور زیتون اور انگور کے باغات نے سڑکوں کے کناروں کو ترتیب دے رکھی تھی۔


عمارات اور رہائشیوں کے حوالے سے لزبن میں بہت تنوع پایا جاتا ہے۔ جھونپڑیوں سے لے کر عالیشان گھروں تک، ہر قبیل کے مکان نظر آئے۔
یہاں جھونپڑی محاورے کے طور پر استعمال نہیں کی ہے، بلکہ کامراتے کی نواح میں جھونپڑیوں پر مشتمل ایک محلہ آباد ہے جو سڑک کنارے ایئرپورٹ کے پیچھے اپنی دنیا بسائے بیٹھے ہیں۔
پرانے محلوں کی گلیاں کافی تنگ ہیں جن میں سے بمشکل ایک گاڑی کے گزرنے کا بھی راستہ ہو، لیکن جدید تعمیر نے پرانی گلیوں کی تمام کسر نکال دی ہے۔ جدید تعمیر اور نظاروں میں کھلے میدانوں کا تصور ظاہر و ظہور ملتا ہے۔



سڑکوں کے کنارے پودوں کی دو رویہ قطاریں، سروس روڈز، بلڈنگز کے ساتھ گرین بیلٹ اور کچھ نخلستان جیسے علاقے لزبن کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے ہیں۔ ایک دو شاہراہوں پر تو کسی جنگل سے گذرنے کا گماں ہوتا ہے۔
گھروں کا طرز تعمیر باقی یورپ سے ملتا جلتا ہے مگر پہاڑیوں پر آباد ہونے کی وجہ سے لزبن کو تہہ در تہہ دریافت کیا جا سکتا ہے۔ اور وہ جو دیسی زبان میں کہتے ہیں کہ 'لیول ہے یار'، بس ایسے ہی انہوں نے بھی پہاڑیوں کے نشیب و فراز کو ایک لیول دے رکھا تھا، یعنی آپ ایک گراؤنڈ لیول سے سیڑھیاں چڑھیں تو پھر ایک گراؤنڈ لیول آپ کا منتظر ہوتا ہے۔


لزبن کی خوبصورتی میں وہاں کے معتدل موسم کا بڑا حصہ ہے، جہاں سیکنڈے نیویا میں درجہ حرارت 10 کے قریب تھا لیکن یہاں لزبن میں پہلے دن کا درجہ حرارت 25 سینٹی گریڈ تھا، جس کی وجہ سے یورپی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد لزبن کا موسم انجوائے کرنے آئی ہوئی تھی۔
شہر لزبن سیاحوں کی توجہ کا مرکز بننے کی وجہ اس شہر کا قدرے سستا ہونا بھی ہے۔ آپ کے بیگ میں جگہ بالکل نہ ہو، تب بھی کچھ نہ کچھ خریدنے کو دل کرتا ہے۔ ہاں البتہ الیکٹرونکس اشیاء کے ریٹ باقی یورپ کے برابر ہی ہیں۔
لزبن میں دیسی
دنیا کے باقی ممالک کی طرح یہاں بھی خود سے ملتے جلتے چہرے نظر آتے ہیں، لیکن لزبن کے کچھ علاقوں میں بنگلہ دیشی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ایک گلی دیکھنے کا اتفاق ہوا جسے ہمارے دوست بنگلہ اسٹریٹ کہہ رہے تھے۔ یہاں بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی خوش گپیوں میں مصروف تھے، چھوٹے چھوٹے ڈھابے، حلال گوشت اور کھانوں کی دکانیں، دیسی سودے سلف کے اسٹورز، اور کئی دوسری چیزوں کی دکانیں موجود تھیں۔ ایک بنگلہ دیشی ہوٹل سے ہم نے دودھ پتی چائے بھی پی، جس کا ذائقہ بالکل ہماری مکس چائے جیسا ہی تھا۔
حلال کھانے کے حوالے سے ترکی اور عربی شوارمے کی دکانیں بھی مناسب تعداد میں موجود تھیں، جہاں ایک یورو میں ایک چھوٹا شوارمہ خریدا جاسکتا تھا۔ ہم نے ایک ترک ریسٹورنٹ سے کوئلے پر بھنا ہوا مرغ کھایا، جس کا ذائقہ ہمارے دیسی ذائقے سے ملتا جلتا تھا۔ اس ہوٹل پر کچھ پاکستانی بھی کام کر رہے تھے۔
سیاحتی مقامات
اگر آپ کبھی لزبن کی سیر کو نکلیں تو لزبن کی واکنگ اسٹریٹس، بیلم ٹاور، واسکو ڈا گاما کا پل، اوریئنٹ ریلوے اسٹیشن، کولمبو شاپنگ مال، لزبن کے پرانے محلے الفاما اور سیڑھیاں نما گلیاں دیکھنا نہ بھولیے گا۔



لزبن میں دوسرا دن
کہنے والے کہتے ہیں کہ لزبن کے گردو نواح کے علاقے دیکھے بغیر لزبن کی سیر مکمل نہیں ہوتی اس لیے اگلے دن سنترا، کش کیش، بیلم گھومنے اور شام میں کچھ لزبن کے باقی ماندہ مقامات اور کچھ شاپنگ مالز دیکھنے کا پروگرام بنا۔
موسم کی پیشنگوئی کچھ اچھی نہ تھی، بارش کا امکان تھا، لیکن ہم اپنے ارادے کے پکے تھے اور ہمارے میزبان اسلم صاحب اور ذیشان قریشی صاحب کے اندر لزبن دکھانے کی خواہش میری آرزو سے کچھ زیادہ تھی، اس لیے انہوں نے مجھے شہر کا ہر وہ حصہ دکھایا جس سے وہ دونوں آشنا تھے۔
سنترہ کا قصبہ بہت ہی دلکش ہے۔ کش کیش کے ساحل کے ساتھ ساتھ دس بارہ کلومیٹر کی ساحلی پٹی یقیناً قابل دید ہے، کناروں سے سر پٹختی موجیں، پتھریلے اور ریتلے ساحل جن پر لہروں کے کھلاڑی اپنے اسکیٹ بورڈ سے سمندر کے سینے پر جھومتے نظر آتے ہیں۔





یہاں سمندر میں ایسی لہریں اٹھتی ہیں جن کی تلاش پرفیکٹ ویوز نامی فلم میں کی گئی ہے۔ ان قدرتی نظاروں سے دل بہلاتے ہم بیلم کے علاقے میں آ گئے تھے، یہاں بیلم ٹاور ہے جو کسی زمانے میں پہلی فوجی چوکی کا کام دیا کرتا تھا، اس کے پاس ہی واسکوڈے گاما اور دیگر جہاز رانوں کی یاد گاریں تعمیر کی گئی ہیں۔ وہاں سے تھوڑے فاصلے پر ایک قدیم گرجا گھر ہے جس کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔



لزبن میں تیسرا دن
لزبن سے کچھ ایک گھنٹے کی مسافت پر فاطمہ نامی شہر ہے، میں شہر کا نام سن کر حیران تھا میں نے سوچا کہ شاید عیسائیوں کے ہاں بھی فاطمہ نام تقدس کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ اس شہر کی اہمیت عیسائیوں کے لیے مذہبی تھی۔
تاریخی حوالوں کے مطابق اس شہر کا نام فاطمہ ایک افریقی شہزادی کے نام پر ہے جنہیں اغواء کر کے یہاں لایا گیا تھا. شہر فاطمہ سیاحوں اور مذہبی زائرین کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے، ایسا سنا گیا ہے کہ سو سال پہلے اس شہر میں لوئس نامی خاتون اور ان کے بھائی اور بہن نے مقدس مریم سے مکالمہ کیا تھا۔
اس کے بعد سے اس شہر اور اس خاندان کی تمام اشیاء کو مذہبی محبت حاصل ہو گئی، لوگ اب اس شہر کے گرجا گھر کے باہر منتیں مانتے ہیں، موم بتیاں جلاتے ہیں، اور تو اور کئی لوگ گٹھنوں کے بل چل کر عبادت گاہ میں داخل ہوتے ہیں۔


اس شہر سے واپسی کے دوران اورم کے مقام پر واقع ایک پرانا قلعہ دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا، جس کے کھنڈرات کسی کی عظمت کا دکھ بھرا با آواز بلند غمگین گیت گا رہے ہوں کہ،
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔
ان کا بلاگ یہاں وزٹ کریں: تحریر سے تقریر تک
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (8) بند ہیں