کردار کی 'مشکل تبدیلی' کون لائے گا؟
اتوار کے دن پہلی بار مجھے کسی سیاسی جماعت کے جلسے میں جانے کا اتّفاق ہوا۔ اس میں یقیناً میرے شوق سے زیادہ کچھ دوستوں کی کرم فرمائی تھی۔ میں ذاتی طور پر ایسے جلسوں کا حصّہ بننا پسند نہیں کرتی، گو کہ سیاسی جماعتوں اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد ہر الیکشن میں اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال ضرور کرتی ہوں۔
یہ پاکستان تحریکِ انصاف کا یومِ تاسیس تھا جو اسلام آباد کے ایک مقامی پارک میں منعقد کیا گیا تھا۔ ہر چند کہ بڑی حد تک میرے سیاسی خیالات اسی جماعت کے ساتھ ہیں، تاہم میری امیدوں کے برعکس سیاسی جلسے میں شرکت کا یہ پہلا تجربہ ہی کچھ اتنا ناخوشگوار ثابت ہوا ہے کہ شاید اب اس ضمن میں یہ آخری تجربہ بھی ہوگا۔
مذکورہ جماعت تعلیم یافتہ اور باشعور نوجوانوں کی جماعت کہلاتی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سیاسی بیانات میں موجود یہ شعور، آگہی، اور تہذیب ابھی تک نچلے کارکنوں میں منتقل نہیں ہو پائی۔ اس جلسے میں خواتین کے لیے علیحدہ انکلوژر بنایا گیا تھا، لیکن اس انکلوژر تک پہنچنے کے لیے جس ہمت، بے جگری اور جدوجہد کی ضرورت تھی، 'بدقسمتی' سے وہاں اکثر خواتین میں مفقود تھی۔
انکلوژر کے چہار اطراف بد نظر، بد نیتّ اور بے ہودہ افراد کا ایک ہجوم تھا جن کے درمیان سے بخیر و عافیت نکلنا ناممکن تھا۔ چند رضاکاروں نے (جو نہ جانے رضاکار تھے یا نہیں کیونکہ ان کے پاس کسی قسم کا کوئی شناختی بیج نہیں تھا) خواتین کو انکلوژر تک 'باحفاظت' پہنچانے کے لیے گھیرا بنایا، تاہم اس میں بھی 'بدقسمتی' سے ایسے افراد شامل ہوگئے، جن کا مقصد محض نظریں اور ہاتھ سینکنا تھا۔
پڑھیے: مارچ، دھرنے، اور خواتین
کچھ راستہ بڑی ہمت سے طے کرنے کے بعد مجھ سمیت اکثر خواتین کی ہمت جواب دے گئی اور ہم نے اپنے ہاتھ میں پکڑی سوکھی ٹہنیوں (جو راستہ بنانے کی غرض سے پارک سے اٹھائی گئی تھیں) سے اپنا راستہ صاف کرتے ہوئے واپسی کی راہ لی۔
بعد ازاں جب ایک خاصی کھلی جگہ رک کر ہم نے تقریر سننے کی کوشش کی تو چند منٹوں بعد ہی ہمارے ارد گرد دوبارہ ایسے لوگوں کا ٹولہ اکٹھا ہونے لگا جن کا مقصد محض بار بار ٹکرا کر گزرنا تھا۔ دوبارہ کسی بدمزگی سے بچنے کے لیے ہم نے عافیت اسی میں جانی کہ گھر کی راہ لی جائے۔ اکثر مقامات پر چرسیوں کے غول ناچنے گانے میں مشغول تھے اور چہار اطراف میڈیا کے نمائندے "سب اچھا ہے اور لوگ پرجوش ہیں" کی رپورٹ دے رہے تھے۔
ہو سکتا ہے کہ اب تک کی سطور پڑھ کر اکثر قارئین یہ محسوس کریں کہ یہ محض جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کی ایک کوشش ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس واقعے نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جن مسائل پر ہم دن رات بات کرتے ہیں، جو سیاسی فہم و تبدیلی لانے کا راگ الاپتے ہیں، کیا بحیثیتِ قوم ہم اس کے لیے تیار بھی ہیں؟
بظاہر یہ دو الگ الگ باتیں لگتی ہوں، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ جو سیاسی بیداری اور شعور پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اس کے لیے معاشرے کا مہذب ہونا بھی اتنا ہی اہم ہے۔
مثبت تبدیلیاں انہی معاشروں میں جنم لیتی ہیں جو اخلاقی، سماجی اور تہذیبی طور پر مضبوط ہوں، جہاں عوام کی اکثریت ایک دوسرے کا احترام کرتی ہو، جہاں ہر ایک کو برابری کے حقوق حاصل ہوں۔ ہم بڑے بڑے فورمز پر خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں، اسکولوں، کھیلوں اور معاشرے میں انہیں برابری دلانے پر آواز اٹھاتے ہیں، اور تو اور ہر سال خواتین کے عالمی دن پر لمبے چوڑے ٹی وی پروگرامز بھی کرتے ہیں، جن میں ہر کوئی خواتین کے حقوق پر زور دیتا نظر آتا ہے۔ لیکن جب روز مرہ کے کاموں کے لیے باہر نکلیں تو ہر جگہ ہمیں گدھوں کے ایسے غول نظر آتے ہیں جو اپنی نگاہوں، آوازوں اور لفظوں سے خواتین کو چیرنے پھاڑنے پر آمادہ رہتے ہیں۔
مزید پڑھیے: لڑکیاں سائیکل کیوں نہیں چلا سکتیں؟
سیاسی جلسوں کی بات تو بعد میں آتی ہے، سڑکوں، پارکوں، بسوں، بازاروں اور دیگر پبلک مقامات پر اکیلی خواتین کی بات تو چھوڑیے، فیملی کے ہمراہ چلنے والی خواتین پر بھی عموماً جس انداز میں جملے کسے جاتے ہیں وہ بنیادی طور پر ہمارے لوگوں کا مزاج ظاہر کرتے ہیں۔
کالجوں کے باہر، بازاروں میں بلا مقصد پھرتے، پبلک ٹرانسپورٹ میں جان بوجھ کر خواتین سے ٹکراتے اور بے ہودہ الفاظ کا استعمال کرتے، سڑکوں، چوراہوں پر خواتین کو بھوکی نظروں سے گھورتے یہ لوگ علامت ہیں کہ خواتین کو اپنی غیرت قرار دینے والے ہمارے معاشرے میں خواتین کی عزّت کیا حیثیت رکھتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس بارے میں کون بات کرے گا؟ ملک کی 51 فیصد اس آبادی کو جو مسائل ہر سطح پر لاحق ہیں، ان کا سدِباب کیسے ہوگا؟
دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے یہ قائدین بشمول حکمران جو اسٹیج پر کھڑے ہو کر ملک سدھارنے کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں، ملک کی تقدیر بدل دینے کے عزائم کا اظہار کرتے ہیں، خود اپنے جلسوں میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی پر نہ تو ان کی کوئی ٹویٹ سامنے آتی ہے، نہ ہی کسی مذمت کا اظہار کیا جاتا ہے۔
ایک جلسے میں بد سلوکی یا بد انتظامی ہو، تو اگلے جلسوں میں وہی غلطیاں نہ دہرانے کے لیے مزید احتیاط و انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے، مگر یہاں ایسا کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ ایسے واقعات اس سے قبل بھی ہو چکے ہیں، اور اس دفعہ یہ دوبارہ رونما ہوا ہے۔ کیا پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ اپنے کارکنوں کی سیاسی، نظریاتی اور اخلاقی تربیت کریں؟
لوگوں میں تبدیلی لائے بغیر ملک میں تبدیلی لانا کیسے ممکن ہے؟ مجھے عمران خان کے بارے میں حسنِ ظن ہے کہ وہ ملک میں مثبت تبدیلی کے لیے مخلص ہیں، لیکن اگر وہ اس طرح کے اوباش کارکنوں کو اگر اپنی صفوں سے بے دخل نہیں کریں گے، تو اول تو کوئی تبدیلی آنے کی نہیں، اور اگر آ بھی گئی، تو وہ دیرپا نہیں ہوگی۔
جانیے: عورت، ناانصافی اور قوانین
نہ جانے ہمارے سیاسی رہنماؤں نے تبدیلی کا مطلب صرف الیکشن میں کامیابی ہی سمجھ لیا ہے، حالانکہ تبدیلی تو اس سے وسیع تر معانی رکھتا ہے۔ تبدیلی رویوں کی تبدیلی ہوتی ہے، تبدیلی سوچ کی تبدیلی ہوتی ہے، تبدیلی ہمارے طرزِ عمل کی تبدیلی ہوتی ہے، جب یہ سب چیزیں تبدیل ہوجائیں تو آپ کو گھر گھر جا کر ووٹ مانگنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی، لوگ خود ہی اچھے لوگوں کو اسمبلیوں میں لانے لگیں گے۔ لیکن ہم نے تو آخری کامیابی (الیکشن) کو ہی اپنا پہلا قدم قرار دے لیا ہے۔
اسمبلیوں میں گھریلو زیادتیوں کے خلاف قانون سازی بلاشبہ ایک اچھا اقدام سہی، لیکن اگر ہم سب مل کر قوم کی کردار سازی پر کچھ توجہ دے لیں تو شاید یہ ہی تبدیلی کا آغاز ہو۔
تبصرے (8) بند ہیں