• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

پھر ہمیں قتل ہو آئیں، یارو چلو

شائع April 25, 2016
پاکستان تحریکِ انصاف کے رکنِ صوبائی اسمبلی خیبر پختونخواہ، سردار سورن سنگھ۔ — ڈان نیوز اسکرین گریب
پاکستان تحریکِ انصاف کے رکنِ صوبائی اسمبلی خیبر پختونخواہ، سردار سورن سنگھ۔ — ڈان نیوز اسکرین گریب
سردار سورن سنگھ کی آخری رسومات ادا کی جا رہی ہیں۔ — اے پی۔
سردار سورن سنگھ کی آخری رسومات ادا کی جا رہی ہیں۔ — اے پی۔

سردار سورن سنگھ کو جب بھی دیکھا مجھے میرے دادا یاد آئے۔

دادا کہا کرتے تھے کہ سکھ بڑی جی دار قوم ہیں۔ دل سے دوستی کرتے ہیں اور دل سے ہی دشمنی۔ دادا دیوسائی کے آخری کونے میں واقع گاؤں چلم میں جوان ہوئے۔ شاہراہِ قراقرم تو بہت دیر بعد کہیں بنی ہے، ان دنوں استور کا دنیا سے رابطہ ڈوگرہ کشمیر کے ذریعے ہی تھا۔

گرمیوں میں گھوڑوں پر گھی اور اون سے بنی چیزیں لاد کر لے جاتے اور جس طرح آج کل امیر لوگ یورپ سے لیپ ٹاپس کا نیا ماڈل لاتے ہیں، اسی طرح واپسی پر چاول، نمک اور شکر لے آتے۔

بڑے ہوئے تو نصاب کی کتابوں میں جہاں تقسیم کے وقت سکھوں کے مظالم کا سنا، وہاں وہاں مجھے اپنے دادا کا وہ قصہ بھی یاد رہا جب اسکردو چھاؤنی کے سکوت کے بعد ڈوگرہ بچوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ چاہیں تو اپنی ماؤں کے ساتھ ہندوستان چلے جائیں، یا چاہیں تو اپنے شکست خوردہ باپوں کے ساتھ کھرپوچو کے نیچے دریائے سندھ میں چھلانگ لگا دیں۔

جب ہم لاہور آئے تو وہاں پر دور درشن چینل آیا کرتا تھا۔ غالباً ہفتے کی رات کو چتر ہار لگتا تھا اور اتوار کی شام ہندی فیچر فلم۔ چوری چوری دیکھتے ایک بات جان لی۔ سکھوں کا تلفظ میرے فیصل آباد اور ساہیوال کے دوستوں کے تلفظ جیسا ہی ہے۔ برسوں بعد اسی بات پر بیگم سے شرط لگی اور نیاگرا فالز کے قریب ایک سکھ کے ساتھ پنجابی بول کے جیت بھی لی۔

اسکول کی لائبریری سے تاریخ کی کتابیں پڑھیں تو رنجیت سنگھ کے بارے میں وہ کچھ سن لیا جو سوال کرنے کے بعد بھی کبھی کسی ٹیچر نے نہیں بتایا تھا۔ پنجاب کے اس بہترین منتظم کی حکومت پشاور تک تھی اور اس کے مشیروں میں مسلمان بھی شامل تھے۔ مگر مطالعہء پاکستان کے نصاب میں سید احمد خان کی کامیاب اسلامی حکومت کا تذکرہ تھا۔ سبق تو یاد کر لیا کہ نمبر بھی اچھے لانے تھے، مگر دل سکھ ریاست کی تباہی اور انگریز سرکار کی کمائی کا حساب ہی لگاتا رہ گیا۔

کچھ سال جب بیساکھی کے میلے میں ہندوستان سے سکھ یاتریوں کے آنے کا سنا تو گرو نانک کی باتیں کھوجنی شروع کیں۔ مکہ مدینہ گئے تھے، کعبہ کے سامنے بھی بیٹھے تھے، وہاں نعتیں بھی کہی تھی۔ اس کے بعد بلھے شاہ اور بابا فرید کو جب بھی سنا تو یہی سمجھا کہ سکھوں کی گرنتھ صاحب میں بھی کچھ ایسی ہی باتیں ہوں گی۔ گرونانک چلے گئے اور ان کے جانشینوں کو کبھی کسی مغل حکمران نے بغاوت کے جرم میں مار دیا تو کسی نے دین سے انحراف کے جرم میں۔ گرو ارجن سنگھ، گرو گوبند سنگھ، تیغ سنگھ، بڑے سورما گزرے ہیں اس بہادر قوم میں۔

رنجیت سنگھ کی باقی نشانیوں میں سے ایک نشانی ان سکھوں کی صورت میں ہے جو سینکڑوں سال سے پشاور اور پشتو بولنے والے دیگر علاقوں میں آباد ہیں۔ گردوارے کم زیادہ ہوتے رہے، خطرے بڑھتے گھٹتے رہے, مگر سکھوں نے اپنا علاقہ نہ چھوڑا۔ سردار سورن سنگھ سے میں ملا تو نہیں، مگر ان کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ پی ٹی آئی کے جذباتی کارکن تھے۔ پہلے جماعت اسلامی میں تھے۔ گھوڑے پر بیٹھے سبز جھنڈا اٹھائے بہت اچھے لگتے تھے۔ خالصتان کی حمایت کرنے والی اور دہشت گردی سے لڑنے والی ہماری سرکار کو اچھی تصویروں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ ان دنوں ایک گھوڑے پر بیٹھے سورن سنگھ اور ایک سکھ کپتان فیس بک پر بہت نظر آتے تھے۔۔ اقبال نے ہندوستان کے بارے میں کہا تھا کہ

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

معلوم نہیں کہ سکھ شاعروں کو پاکستان میں سکھ مذہب آزاد نظر آیا کہ نہیں۔ ویسے بھی جہاں نسلی مسلمانوں کی اسلام کی ڈگریاں جعلی قرار دی جانے لگیں، وہاں کس کو یاد رہے کہ کون سا گردوارہ کتنے سال سے بند پڑا ہے۔ جہاں اکثریت کے پردے سلامت نہ ہوں، وہاں اقلیت اپنی بیٹیوں کے مذہب تبدیل کر لینے کو بارش میں ٹپکتی چھت کی طرح تسلیم کر لیتی ہے۔

سورن سنگھ مگر دھن کے پکے نکلے۔ قرآن کے بوسیدہ ورق اکٹھا کرنے کے لیے ڈبے رکھوائے، نعتیں پڑھیں، حسین کے عزاداروں کو پانی پلایا کہ گرو کی تلقین تھی۔ یہ سورن سنگھ کا عزم تھا کہ 70 سال سے بند پشاور کا گردوارہ بھی کھل گیا۔ ہندوستان سے آتے سکھوں کو جتانے کے لیے ہمارے پاس ایک اور موقع، پاکستان میں مذہبی اقلیتیں کتنی آزاد ہیں، اس حوالے سے مقرروں کی دلیلوں میں ایک دلیل کا اضافہ۔

مگر جس سوچ نے گرو گوبند سنگھ اور گرو ارجن سنگھ کو مارا تھا، وہی سوچ سورن سنگھ کو بھی مار گئی۔ ویسے تو خیبر پختونخواہ کی پولیس کا کہنا ہے کہ سورن سنگھ کو پی ٹی آئی کے اپنے ایک ممبر نے مارا ہے، اس فون کال کا مگر کیا جائے جو تحریک طالبان نے کی تھی۔ دست قاتل جو بھی ہو، گھوڑے پر سبز ہلالی پرچم لہراتا سورن سنگھ کل چتا کی آگ میں جل کر امر ہوگیا۔

پڑھیے: سورن سنگھ کے قتل کے الزام میں پی ٹی آئی عہدیدار گرفتار

تعزیتی بیانات تو ٹھیک ہیں مگر جماعتِ اسلامی کو چاہیے تھا کہ اس کی چتا میں ذرا کھل کے شریک ہو جاتے۔ آخر ان کے ممبر رہ چکے تھے۔ اقلیتوں کے بارے میں سوچنا چاہیے چاہے وہ آپ کی پارٹی کے اقلیتی ونگ میں شامل نہ بھی ہوں۔ تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ نے شرکت تو کی، یوم تاسیس کے جلسے میں ایک تصویر بھی لگوائی لیکن اگرناچ گانا نہ ہوتا تو اچھا ہوتا۔ سوگ کے ایام میں ناچ گانا اچھا نہیں لگتا۔ اگر اس کے قاتلوں کی طرف ذرا کھل کے اشارہ کر دیتے تو شاید بہت سے سورن سنگھ بچ جاتے۔ دادا سچ کہتے تھے۔ سکھ دل سے محبت کرتا ہے اور دل سے نفرت۔ اچھا ہوتا اگر ہم اس محبت کا مان رکھ لیتے۔

لیکن کیا کیا جائے کہ ہم سورن سنگھ کو بھی بھول جائیں گے، جیسے ہم مولانا حسن جان، مولانا سرفراز نعیمی، شہباز بھٹی اور علامہ حسن ترابی کو بھول گئے۔ جیسے ہم آرمی پبلک اسکول، گلشن اقبال، مون مارکیٹ، نشتر پارک اور سینکڑوں ایسے واقعات کے شہیدوں کو بھول گئے ہیں۔

ہمارے بزدلوں کی عمریں طویل ہیں اور بہادروں کی کم۔ ہم وہ بیوہ ہیں جس کی عدت 24 گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ سورن سنگھ چلا گیا تو لازم ہے کہ ہم کوئی نیا بہانہ تلاش لیں زندہ رہنے کا۔ اگلے سانحے تک ہم ناچ گا لیں۔ زندہ نہ صحیح، زندوں کی اچھی اداکاری ہی کر لیں۔

اختر عباس

اختر عباس اس آخری نسل کے نمائندے ہیں جس نے لکھے ہوئے لفظوں سے دور افتادہ رشتوں کا لمس محسوس کیا۔ وہ اس پہلی نسل کا بھی حصہ ہیں جس نے الیکٹرانک میسیجنگ کی برق رفتاری سے دلوں کے رنگ بدلتے دیکھے۔ نابیناؤں کے شہر میں خواب تراشتے ہیں اور ٹویٹر پر Faded_Greens@ کے نام سے چہچہاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (6) بند ہیں

حافظ Apr 25, 2016 08:06pm
ہمارے بزدلوں کی عمریں طویل ہیں اور بہادروں کی کم۔ ہم وہ بیوہ ہیں جس کی عدت 24 گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتی۔
sumaira Apr 25, 2016 08:58pm
مارے بزدلوں کی عمریں طویل ہیں اور بہادروں کی کم۔ ہم وہ بیوہ ہیں جس کی عدت 24 گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ بہت عمدہ۔۔
Ali Apr 25, 2016 11:24pm
Good article. However author mixed too many things in one article. Don't know whether he was praising Sikh history, criticizing our educational system or it was about Suran Sigh or JI (as topic implied incorrectly). I was so shocked when I heard about Suran Singh's assassination too, however one should not rush to conclusion especially when police is working on this case. As it's already becoming clearer that it's not TTP. Unless one have clear evidence, we should believe what police is saying. I don't see a reason that police is covering up any thing. By saying other wise without proof is immature and discrediting all the hard work of police.
حمیداللہ خٹک Apr 26, 2016 09:37am
سورن سنگھ کا قتل بلاشبہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ان کا قتل ان افسوس ناک واقعات کا تسلسل ہے جو ہمارے معاشرے میں آئے روزرونما ہورہےہیں۔بغیر کسی ثبوت کے اس واقعے کو اقلیتوں کے ساتھ ظلم کے کھاتے میں ڈالنادنیا کے کسی بھی قانون اورنظام عدل کی رو سے درست نہیں ۔رہا دہشت گردوں کا معاملہ ہےان کا کام دہشت پھیلانا ہے ۔میرے خیال میں ہمیں دہشت گردوں کی افواہوں کی مقابلے میں ریاست کے انتظامیہ کی بات کو ترجیح دینی چاہیے جب تک ہمارے پاس کوئی ٹھوس شہادت اس کے خلاف موجود نہ ہو ۔اس وقت افواہوں کو پھیلانے سے نہ معاشرے کی خدمت ہورہی ہے نہ ریاست کی البتہ یورپ کو اس قسم کی باتوں سے خوش کیا جاسکتا ہے ۔شاید ایسے لکھاریوں کا سب سے بڑا مقصد بھی یہی ہوتا ہے۔
Nauman Hyder Apr 26, 2016 09:46am
نہیں معلوم هماری ذندگی میں وہ دن دیکهنا نصیب میں هے یا نہیں جب هم نصاب کی سطح پہ پوری ایمانداری کے ساته عدم برداشت کے خلاف کوئی کوشش کریں گے کب تک مظلومیت کے جهوٹے درد کی ٹیسوں کو موجب ظلم ثابت کرنے کے کرہیہ کوششوں میں اپنی نسلوں کو اس آگ کا اندهن بنا بنا کے سرکاری سطح پے گنگناتے رهیں گے کہ "همیں دشمن کے بچوں کو پڑهانا هے" سوال یہ هے کیا پڑهانا هے ہندوستان میں مسلمانوں کے بدحالی کے قصے یا غزوات میں مسلمانوں کی بہادریوں کی داستانیں کیا ہی اچها هوجو یا سب کی بجائے عدم برداشت کے خلاف کوشش هو مگر نہیں هم اپنے اعمال سے نتهی هوئی اس منافقت کو کس قبر میں دفنایں گے جس کی مٹی هی اس سوچ کی آبیاری کر چکی هو کے بهترین عمل جہاد هے کب کس سے کیوں اس کی فکر چهوڑ دیئجے بہترین عبادت حج چاہئے غصب شدہ مال پے هو الله تو هے هی رحیم وکریم............ دوسرا قانون پاکستان کی شان میں گستاخی کا تو میرے اباواجداد بهی قبروں میں محو آرام هونے کے بعد بهی تصور نہیں کر سکتے میں تو بس اس نظام میں سدهار پیدا کرنے کی هاته جوڑ کے اصلاح کرنے کا کہہ رها هوں جسے خود اسکے رکهوالوں نے رکهیل سے بهی بدتر بلکہ بدترین وشرم ناک بنا دیا هے جو نظام اس طوائف سا هوگیا هے جو مقتولین جنگلات کو کٹہرے کی شکل دے کےخود پیلے و لال پتهروں کی عمارتوں میں اپنے دام کا تعین کرواتا هے اور رات کی سیاهیوں میں ٹکے ٹکے پے بےلباس هو کے همارے اجداد کو منہ چڑهاتا محسوس هوتا هے کیوں کے انکی آوازیں وہ نعرے لگاتی کبهی پاس و کبهی دور هوتی محسوس هوتی هیں لے کے راهیں گے پاکستاں بٹ کے رہے گا هندوستان
شاذیہ Apr 26, 2016 10:59am
نہایت عمدہ تحریر۔ بین السطور آپ نے جو کچھ بھی کہا ہے، ہمارے رہنمائوں میں اگر ذرا بھی شرم باقی ہوتی تو چلوّ بھر پانی میں ذوب مرتے مگر کیا کیا جائے کہ سبھی کو سیاسی دکانیں چمکانے اور مخالفین پر کیچڑ اچھالنے سے فرصت ذرا کم ہی ملتی ہے اور جو اگر ملِ بھی جائے تو وہ انسانیت سے زیادہ دولت کمانے کے طریقوں پر اپنا قیمتی وقت صرف کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024