• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

بلاتفریق سب کا احتساب ضروری ، آرمی چیف

شائع April 19, 2016 اپ ڈیٹ April 20, 2016
آرمی چیف نے کوہاٹ میں سگنل ریجمنٹل سینٹر کا دورہ کیا — فوٹو : بشکریہ ٓئی ایس پی آر
آرمی چیف نے کوہاٹ میں سگنل ریجمنٹل سینٹر کا دورہ کیا — فوٹو : بشکریہ ٓئی ایس پی آر

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی یکجہتی، سالمیت اور خوشحالی کے لیے بلاتفریق سب کا احتساب ضروری ہے.

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے کوہاٹ میں سگنل ریجمنٹل سینٹر کا دورہ کیا، جہاں ایک تقریب کے دوران انھوں نے سگنل ایئر چیف میجر جنرل سہیل احمد زیدی کو سگنل کور کے کرنل کمانڈنٹ کے بیجز لگائے.

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ فوج کو دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جاری جنگ میں پوری قوم کی حمایت حاصل ہے اور ملک میں اُس وقت تک پائیدار امن اور استحکام نہیں لایا جاسکتا جب تک کرپشن کا جڑ سے خاتمہ نہ ہوجائے.

اس موقع پر آرمی چیف نے سگنل کور کو آپریشن ضرب عضب میں مواصلاتی تعاون فراہم کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کے سول اور عسکری جوانوں کی خدمات کو سراہا.

ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جنگ قوم کی تائید اور حمایت سے لڑی جا رہی ہے اور ملک کے استحکام، یکجہتی اور خوشحالی کے لیے بلا امتیاز احتساب انتہائی ضروری ہے.

آرمی چیف کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج اس سمت میں بامعنی کوششوں کی حمایت جاری رکھیں گی، جس سے ہماری آئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کو یقینی بنایا جاسکے۔

‘حکومت کو سنجیدہ ہونا ہوگا’

اس حوالے سے ڈان نیوز کی تجزیہ کار مہر عباسی کا کہنا تھا کہ یہ بیان ایک اہم موڑ ہے، یکساں طور پر سب کا احتساب ہونا چاہیے، اس کا اخلاقیات سے زیادہ قانونی پہلو ضرور ہے۔

پاناما لیکس کے انکشافات کی تحقیقات کے لیے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے اعلان کردہ کمیشن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیے تو بلکل ایسا ہی ہونا چاہیے، لیکن کمیشن کی تشکیل ایسی ہونی چاہیے کہ اس پر تمام جماعتوں کو اعتماد ہو۔

مہرعباسی نے اس بات پر بھی تنقید کی کہ لندن میں عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان کے گھر کے باہر مسلم لیگ (ن) کے احتجاج کو سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی وژن نے خصوصی کوریج کی جبکہ قومی اسمبلی میں پاناما لیکس پر ہونے والی خصوصی بحث کو نشر نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس معاملے پر سنجیدہ نظر نہیں آتی لیکن اب اس کو سنجیدگی دکھانی ہوگی، اور تمام جماعتوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔

پاناما لیکس

واضح رہے کہ دو ہفتے قبل آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں : شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔

ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں،اس ڈیٹا میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔

مزید پڑھیں : پاناما پیپرز میں پاکستانیوں کے متعلق انکشافات

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

اس سلسلے میں وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا البتہ دو ہفتے گزرنے کے باوجود یہ کمیشن قائم نہیں ہو سکا ہے، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے یہ انکشاف سامنے آچکا ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق 2 چیف جسٹسز سمیت 5 سابق ججز تحقیقاتی کمیشن کی سربراہی سے انکار کر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : پاناما لیکس اور حسن نواز کا 1999 کا انٹرویو

ضروری نہیں افشا ہونے والی یہ دستاویزات غیر قانونی سرگرمیوں کا ثبوت ہوں کیونکہ برطانوی روزنامہ دی گارجین کے مطابق آف شور ڈھانچہ استعمال کرنا قانونی ہے۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی اس معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں : پاناما لیکس میں مزید بڑے ناموں کا انکشاف

دستاویزات کے مطابق، وزیر اعظم نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے علاوہ بے نظیر بھٹو، ان کےرشتہ دار حسن علی جعفری اور سابق وزیرداخلہ رحمان ملک پیٹرو فائن ایف زی سی کے مالکان تھے۔

خیال رہے کہ یو این کمیٹی نے 2005 میں انکشاف کیا تھا کہ یہ کمپنی عراق میں ’تیل کے بدلے خوراک‘ سکینڈل میں ملوث تھی۔

آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟

- کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

- کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔

اسی طرح، پی پی پی رہنما آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی جاوید پاشا کا نام بھی کم از کم پانچ آف شورکمپنیوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔

میڈیا مینیجر پاشازی ٹی وی سمیت دوسرے انڈین چینلز سے کاروباری معاہدے کرتے رہے ہیں۔

دستاویزات کے مطابق، لکی مروت کا سیف اللہ خاندان ریکارڈ 34 ایسی کمپنیوں کے مالکان ہیں۔ ان میں سے عثمان سیف اللہ پی پی پی کی ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن ہیں۔

سابق جج ملک قیوم کا، جن کے بھائی پرویز ملک لاہور سے پی ایم ایل-ن کے رکن قومی اسمبلی ہیں، نام دستاویزات میں شامل ہے۔

لیکس میں وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے کم ازکم دو قریبی ساتھی الیاس میراج (پہلی بیوی نصرت کے بھائی) اور ثمینہ درانی (دوسری بیوی تہمینہ درانی کی والدہ) کے نام بھی موجود ہیں۔

لیکس میں بتایا گیا کہ ثمینہ درانی کم از کم تین آف شور کمپنیوں Rainbow Ltd, Armani River Ltd and Star Precision Ltd جبکہ میراج Haylandale Ltd میں بڑے شیئر ہولڈر ہیں۔

تاہم ،میڈیا رپورٹس کے مطابق،لیکس میں شامل تقریباً 200 پاکستانیوں کی اکثریت کاروباری شخصیات ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

شریف ولی کھرمنگی۔ Apr 20, 2016 12:26am
بالکل سب کا احتساب ہونا چاہئے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں، فوج ہی کو اس معاملے میں کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ ملک کو لوٹنے والے بڑے مگر مچھوں اور انکے چہیتوں پر ہاتھ ڈالا جاسکے۔ ورنہ فوجی جوان شہید ہوتے رہینگے، ملک قرض میں ڈوبتا جائیگا، اور مگر مچھ سوئیس اکاونٹس اور پانامہ وغیرہ میں ملکی دولت چھپاتے رہیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024