• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

بحریہ ٹاؤن کراچی: لالچ اور قبضے کا لامحدود سلسلہ

اس منصوبے کی تعمیر کیلئے کیسے غریبوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرکے قبضہ اور متعدد قوانین کی خلاف ورزی کی گئی۔
شائع April 18, 2016 اپ ڈیٹ April 20, 2016

کہیں سے ہندوستانی گانے کی آواز آرہی ہے۔ چائے کے ایک سٹال پر ویٹر ہاتھوں میں گرما گرم چائے کے کپ تھامے تیزی سے بھاگ دوڑ رہے ہیں۔ مکئی والا اپنے کاروبار میں مصروف ہے اور سڑک گاڑیوں اور انسانوں سے بھری ہوئی ہے۔ ڈیفنس فیز5 توحید کمرشل کا یہ علاقہ ہر رات نہایت منافع بخش رہتا ہے۔ یہاں کا منظر ایک کسینو کی طرح دکھائی دیتا ہے جہاں 'روولیٹ' اور 'بلیک جیک' کے بجائے رئیل اسٹیٹ کا کھیل کھیلا جاتا ہے اور اس رئیل اسٹیٹ کا نام 'بحریہ ٹاؤن کراچی' ہے، جو سپر ہائی وے پر شہر سے دور تعمیر کیا جا رہا ہے۔

توحید کمرشل کی دو تین گلیوں میں موجود تقریباً ہر رئیل اسٹیٹ ایجنسی کے نام کے ساتھ بحریہ ٹاؤن کی لوح نمایاں نظر آئے گی۔ ان میں سے کئی بحریہ ٹاؤن کے مستند ڈیلرز ہیں۔

ان میں سے بحریہ ٹاؤن کے ایک ایجنٹ کا کہنا ہے کہ '2 سال کی قلیل مدت میں بحریہ ٹاؤن کے مڈ وِے کمرشل میں 125 گز کے پلاٹ کی قیمت 90 لاکھ سے اوپر جاچکی ہے اور میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ آئندہ 2 سالوں کے اندر اس کی قیمت 8 کروڑ سے زائد ہوجائے گی'.

ایک اور انتہائی مسرور ایجنٹ نے بتایا کہ، 'حال ہی میں اسپورٹس سٹی (بحریہ ٹاؤن کے عقب میں واقع نئے منصوبے) کے سارے پلاٹ فروخت ہو چکے ہیں.'

اتفاق سے ان رئیل اسٹیسٹ ایجنسیوں میں سے ایک، جسے دو بھائی چلاتے ہیں، کچھ مخصوص خریداروں کے لیے بڑے پیمانے پر 'حوالہ' کی سہولت بھی دیتے ہیں۔

یہاں تک کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے رجسٹریشن فارم بھی ایک بہت بڑا کاروبار بن گئے ہیں۔ ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ صرف فارم کی قیمت 1 لاکھ روپے سے زائد ہوتی ہے جس سے صرف فارم کی مد میں اربوں روپے حاصل ہو رہے ہیں۔"

بڑے پیمانے پر پھیلے اس بحریہ ٹاون کراچی کا دارومدار ڈھٹائی کے ساتھ قانون میں ہیرا پھیری پر منحصر ہے، جس میں سیاسی اشرافیہ اور زمینی عہدیداروں جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ میں موجود بااثر شخصیات کے ساتھ مل کر زمین کے اصل مالکان کو ان کے حق سے محروم کردیا۔

اور لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے، اس بے ایمانی کو 'ترقیاتی کاموں' کا نام دیا جا رہا ہے۔

بحریہ ٹاؤن اور لینڈ حکام نے ایک سازش کے ذریعے ملک کے سب سے بڑے شہر میں زمینوں پر قبضوں کے لیے متعدد قوانین کی خلاف ورزی کی۔

19 مارچ کے دن، پولیس انسپکٹر خان نواز کی نگرانی میں کئی پولیس کی گاڑیاں ملیر کے ضلع میں موجود، سپر ہائی وے سے 13 کلومیٹر کی دوری پر جمعہ موریو گوٹھ نامی چھوٹے سے گاؤں پہنچیں۔ ان کے ساتھ بلڈوزر، وہیل لوڈرز اور ٹرک تھے جن کا مقصد وہاں موجود 250 گھروں اور جھونپڑیوں کو گرانا تھا۔

وہاں کے رہائشی امیر علی کے مطابق" یہ سارا کام بہت جلد کر لیا گیا اور بے یارو مددگار رہائشی گھبرانا شروع ہوگئے، انہیں معلوم تھا کہ ان کے لیے کوئی انصاف نہیں ہے"۔

بحریہ ٹاون کا داخلی دروازہ ─ فیصل مجیب/وائٹ سٹار
بحریہ ٹاون کا داخلی دروازہ ─ فیصل مجیب/وائٹ سٹار

اس سے 2 روز قبل اس گوٹھ کے رہائشیوں نے ڈان سے بات کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ انہیں اپنی جگہ سے طاقت کے ذریعے ہٹا دیا جائے گا۔

ایک رہائشی کندا خان گبول کا کہنا تھا کہ 'پولیس ہمارے لوگوں کو حراست میں لے رہی ہے اور دھمکیاں دے رہی ہے کہ وہ یہ ظاہر کرے گی کہ ہمیں وانا، مستونگ اور قلات کے علاقوں سے گرفتار کیا گیا ہے'.

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'پولیس نے مجھے کئی گھنٹوں تک زیرِ حراست رکھا اور مجھے اُس وقت چھوڑا گیا جب لوگ جمع ہونا شروع ہوئے، کیونکہ اس بات کا خدشہ تھا کہ ہائی وے بند نہ ہوجائے'.

گوٹھ کے ان رہائشیوں کی مشکلات کا آغاز 9 فروری کو اس وقت ہوا جب بحریہ ٹاؤن اور ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کے حکام نے سڑک کے لیے جگہ خالی کروانے کی کوشش کی اور گاؤں کے رہائشیوں نے اس کی مزاحمت کی۔ جس کے جواب میں ایم ڈی اے کے حکام نے کندا خان گبول، امیر علی اور درجنوں دیہاتیوں کے خلاف فائرنگ کے الزام میں ایف آئی آر درج کروا دی۔

بھلے ہی چالان میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ مذکورہ زمین پر ایم ڈی اے کے مالکانہ حقوق کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا تھا، پھر بھی جسٹس شیر محمد کولاچی نے مجرمانہ غلطیوں سے بھرپور ایف آئی آر میں انسدادِ دہشتگردی ایکٹ 1997 کی شق 6 (2) ذیلی شق (M) (L) بھی شامل کرنے کے احکامات جاری کیے۔

اس کی وجہ سے ایف آئی آر میں نامزد کئی افراد چھپے ہوئے ہیں، اور گاؤں کے رہائشیوں کے مطابق یہی وجہ تھی کہ وہ 19 مارچ کو گھروں کو توڑنے کے اس عمل کے خلاف مزاحمت نہیں کر پائے۔

─ فیصل مجیب/وائٹ سٹار
─ فیصل مجیب/وائٹ سٹار

جمعہ موریو کے لوگوں سے ابھی ان حربوں کے ذریعے خاندانی زمین کو چھینا گیا ہے، اس کے آس پاس کے دیہاتیوں کو بھی ان مسائل کا سامنا ہے۔ زمینوں کے مالکانہ حقوق رکھنے کے باوجود لوگوں کو دھمکیوں کے ساتھ ساتھ زمین بیچنے کا کہا جا رہا ہے۔ ان کے گھروں کو گرایا جا رہا ہے، قبرستان کا نشان تک مٹایا جا رہا ہے، پھلوں کے درختوں کو اکھاڑ دیا گیا ہے اور ٹیوب ویلوں کو توڑ دیا گیا ہے۔

گزشتہ برس نومبر کی ایک رات کثیر تعداد میں پولیس موبائلیں اور بکتر بند گاڑیوں نے علی محمد گبول گوٹھ کا رخ کیا۔ اہلکار مختلف گھروں میں داخل ہوئے اور 5 رہائشیوں دین محمد، عباس، اقبال، پنو اور داد اللہ کو اپنی گاڑیوں میں ڈال کر لے گئے۔

وہاں کے رہائشی محمد موسیٰ نے اس بات کا انکشاف کیا کہ پولیس والے صرف ان افراد کو نہیں بلکہ ان کے ساتھ ان کی قیمتی اشیاء، پیسے، زیورات اور 3 بکریاں بھی ساتھ لے گئے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ایک قسم کی وارننگ ہے کہ اگلی بار یہ ہماری عورتوں کو بھی لے جائیں گے۔

پولیس اہلکار اس کام کے دوران رہائشیوں کے احتجاج سے بچننے کے لیے تعینات ہیں
پولیس اہلکار اس کام کے دوران رہائشیوں کے احتجاج سے بچننے کے لیے تعینات ہیں

یہ ریڈ بھی مختلف واقعات کا تسلسل تھی۔ اس چھاپے سے کچھ دن قبل انسپکٹر خان نواز ہی کی سربراہی میں پولیس اہلکاروں نے گوٹھ کا محاصرہ کرکے رہائشیوں کو سڑک کی تعمیر کے لیے زمین خالی کرنے کا کہا۔

مقامی افراد نے زمین خالی کرنے سے انکار کر دیا اور سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کردی۔

درخواست میں ایم ڈی اے، بحریہ ٹاؤن اور پولیس کو درخواست گزار کی زمین میں بے جا مداخلت، ہراساں اور بلیک میل کرنے اور زمین کی قانونی ملکیت رکھنے والوں کو بے دخل کرنے سے روکنے کا مقدمہ پیش کیا ہے۔

فیض محمد گبول (بائیں سے تیسرا) اپنے آباؤاجداد کی زمینوں پر کام ہوتے دیکھ رہا ہے
فیض محمد گبول (بائیں سے تیسرا) اپنے آباؤاجداد کی زمینوں پر کام ہوتے دیکھ رہا ہے

حراست میں لیے گئے مقامی افراد کے خاندان کا کہنا تھا کہ جب کہ صبح ملیر پولیس کے پاس گئے انہیں حراست میں لیے گئے افراد کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ جب انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے نمائندوں سے بات کی تو اُن کا کہنا تھا کہ ان افراد کی رہائی کے لیے انہیں اپنی زمین کو چھوڑنا ہوگا۔ ایک مقامی شخص کا کہنا تھا کہ اب ہمارے پاس ہار ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

مقامی تاریخ دان اور وقائع نگار گل حسن کلمتی نے غمگین لہجے میں کہا ’کس قانون کے مطابق غریبوں کے گھروں کو گرا کر امیر لوگوں کے لیے شاہانہ طرزِ رہائش بنائی جا رہی ہیں؟ کیا اس طرح پی پی پی اپنے وفادار ووٹرز کو نوازتی ہے۔‘

بحریہ ٹاؤن کراچی کے نیچے

جمعہ موریو اور علی محمد گبول ان 45 گاؤں میں شامل ہیں جو کہ سابقہ گڈاپ ٹاؤن کے 4 دیہات میں شامل تھے جو کہ اب ضلع ملیر کا حصہ ہیں۔

یہ تمام بستیاں ان لوگوں کا گھر ہے جو یہاں مشترکہ طور پر ایک صدی سے زائد عرصے سے رہائش پذیر ہیں، ان کے قبرستان اور مزارات ان کے آباء و اجداد کی رہائشیں اس کی گواہی دیتی ہیں۔

2،557 مربع کلومیٹر یا 631،848 ایکڑ رقبے پر محیط ضلع ملیر، کراچی کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس کا بڑا حصہ کھیتوں، نالوں، پہاڑوں اور جنگلی حیات کی پناہ گاہوں پر مشتمل ہے۔ اس میں کیرتھر نیشنل پارک کا بھی کچھ حصہ شامل ہے۔

یہاں کے رہائشی کھیتی باڑی، پولٹری فارمنگ اور مویشی پال کر گزر بسر کرتے ہیں۔ ان کی آواز کی امراء و اشرافیہ کے سامنے کوئی اہمیت نہیں، حکومت نے انہیں صرف چند ہی سہولیات فراہم کی ہیں۔

ان میں سے اکثر گوٹھوں کو ریگولرائز (باضابطہ) ابھی تک نہیں کیا گیا۔ اسی لیے یہ گوٹھ 'آباد اسکیم'، جس سے انھیں ضلعی مفادات ملتے ہیں، کے تحت نہیں آتے ۔ اورنگی پائلٹ پرجیکٹ (او پی پی) کے ڈائریکٹرانور رشید کا کہنا ہے کہ 'ریگولرائزیشن گوٹھ کے رہائشیوں کو زمین کی ملکیت دیتا ہے اور اس طریقے سے اُن سے زمین خالی نہیں کروائی جاسکتی'. 'اگر ڈویلپرز سخت حربے استعمال کرتے ہیں تو ریگولرائزیشن کا مطلب یہ ہے کہ زمین کی قیمت دس گناہ یا بعض اوقات اسے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔'

وہیل لوڈر زمین سے کھجور کے درختوں کے اکھاڑ رہا ہے
وہیل لوڈر زمین سے کھجور کے درختوں کے اکھاڑ رہا ہے

2006 سے لے کر 2013 میں اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمٰن کے قتل تک پراجیکٹ کی ٹیم نے کراچی میں متعدد گوٹھوں کی رجسٹریشن کا بیڑہ اٹھائے رکھا.

او پی پی کی ٹیم نے 1،131 گوٹھ کی دستاویزات مکمل کیں، جن میں سے 817 گوٹھ صرف گڈاپ میں موجود ہیں اور جہاں بحریہ ٹاؤن کی تعمیر ہو رہی ہے۔ گڈاپ کے ان گوٹھوں میں سے صرف 518 کی رجسٹریشن ہوئی، لیکن پروین رحمٰن صاحبہ کی موت کے بعد سے یہ کام ابھی تک رکا ہوا ہے۔

یہی چیز ڈویلپرز کے روایتی طریقہ کار کے لیے فائدہ مند ہے کہ جب کوئی ایسی گوٹھ ان کے راستے میں آتی ہے تو وہ حقیر وظیفہ دے کر لوگوں کو بے دخل کر دیتے ہیں۔

اس سے پہلے ملک ریاض کی کمپنی کے تحت بحریہ ٹاؤن کراچی جیسا بڑا رہائشی منصوبہ آج تک نہیں بنا۔ ڈان کے جغرافیائی سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی 93 مربع کلومیٹر یا 23،300 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہے.

کراچی کے شہر سے دور اس منصوبے میں رہائش کے علاوہ کمرشل بیلٹس، 36 ہولز گولف کورس اور دنیا کی ساتویں بڑی مسجد بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

اس نقشے میں بحریہ ٹاؤن کے منصوبے سے متاثر ہونے والے گاؤں دیکھے جا سکتے ہیں
اس نقشے میں بحریہ ٹاؤن کے منصوبے سے متاثر ہونے والے گاؤں دیکھے جا سکتے ہیں

مگر گذشتہ سال بحریہ ٹاؤن کے سینئر افسر اور ملک ریاض کے قانونی مشیر کرنل (ر) خلیل الرحمان کی ڈان سے گفتگو کے مطابق کمپنی نے کراچی میں صرف 7،631 ایکڑ زمین نجی پارٹیوں سے خریدی ہے۔

یہ اسٹوری آگے چل کر واضح کرے گی کہ یہ دعویٰ بھی مکمل طور پر غلط ہے کیونکہ اس جگہ کی ملکیت صرف ایک خصوصی پاور آف اٹارنی کے ذریعے ممکن ہے۔

جب ڈان نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے حوالے سے یہ تمام سوالات بحریہ سے کیے، تو یاد دہانی کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

سپر ہائی وے کے قریب ٹول پلازہ سے 9 کلومیٹر کے فاصلے پر بحریہ ٹاؤن کی کشادہ شاہراہیں، وسیع رہائشی اسکیمز، کمرشل بیلٹس، عالمی معیار کا 36 ہول گالف کورس، اور دنیا کی ساتویں بڑی مسجد، یہ سب مل کر ایک ایسے سحر انگیز تجربے کو یقینی بنائیں گے جو کہ کراچی کے بے ہنگم شہر میں رہنے سے کہیں زیادہ پرسکون ہوگا۔

قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں

گوٹھوں کے مکینوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا غیر انسانی اور غیر اخلاقی ہے، مگر شہر کے مضافات میں بحریہ ٹاؤن کی وسیع پیمانے پر جاری سرگرمیوں کا یہ صرف ایک رخ ہے۔

پولیس اہلکار رہائشیوں سے زبردستی زمین ہتھیانے میں مدد فراہم کرتے ہے
پولیس اہلکار رہائشیوں سے زبردستی زمین ہتھیانے میں مدد فراہم کرتے ہے

ذیل میں اس بات کی وضاحت ہے کہ کس طرح خفیہ طاقتوں، اور ان کے ساتھ ساتھ سندھ بورڈ آف ریوینیو (بی او آر)، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے)، ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے کرپٹ افسران نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ کندھے سے کندھا ملایا ہے تاکہ سرکاری زمین بیچ کر دولت کمائی جا سکے۔

صوبے کی تمام زمین کی حقیقی ملکیت بی او آر کے پاس ہے۔ محصولات کی وصولی اور زمینوں کے ریکارڈز رکھنے کے علاوہ یہی وہ ادارہ ہے جو افراد، تنظیموں اور دیگر اداروں و بلڈرز وغیرہ جیسے کہ کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، ایم ڈی اے، کو مخصوص مقاصد کے لیے زمین الاٹ کرنے کا مجاز ہے۔

ایم ڈی اے — 2014 اور 2015 کے دوران جس کے چیئرمین وزیرِ بلدیات اور دیہی ترقی کی حیثیت سے شرجیل انعام میمن تھے —کا قیام اس لیے عمل میں لایا گیا تھا تاکہ ضلع ملیر میں سندھ بورڈ آف ریوینیو کی جانب سے الاٹ کردہ زمین پر مختلف منصوبے تعمیر کیے جا سکیں۔

ایم ڈی اے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ 1993 کے تحت کام کرتا ہے، اور اس کے مطابق یہ خود کو مخصوص مقاصد کے لیے الاٹ کردہ زمین نجی ڈویلپرز کو جاری نہیں کر سکتا۔

یہ قانون بار بار اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ ایم ڈی اے کی اسکیموں کا مقصد "اس علاقے کے لوگوں کی سماجی و اقتصادی ترقی ہے۔"

پولیس اہلکار رہائشیوں سے زبردستی زمین ہتھیانے میں مدد فراہم کرتے ہے
پولیس اہلکار رہائشیوں سے زبردستی زمین ہتھیانے میں مدد فراہم کرتے ہے

28 نومبر 2012 کو کراچی بدامنی کیس 16/2011 کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے سندھ حکومت کے کسی بھی سرکاری زمین الاٹ، ٹرانسفر، لیز وغیرہ کرنے پر پابندی عائد کردی۔

مگر پھر بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایسے کئی اقدامات اٹھائے جو کہ عدالتی حکم نامے کی خلاف ورزی کی کوشش تھے۔

سب سے پہلے تو 19 دسمبر 2013 کو ایم ڈی اے ایکٹ 1993 میں ترمیم کر دی گئی تاکہ ایم ڈی اے زمین کی الاٹمنٹ وغیرہ کے حوالے سے پسِ پردہ وہ سب کچھ کر سکے جو عدالتی احکامات کی وجہ سے سندھ بورڈ آف ریوینیو سندھ حکومت کا ذیلی ادارہ ہونے کی وجہ سے نہیں کر سکتا تھا۔

چند دن بعد 26 دسمبر 2013 کو ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا کہ ضلع ملیر کے 43 دیہہ "فزیکل سروے اور سڑکوں کے نیٹ ورک کی تیاری، اور متاثرہ نجی/حاصل کی گئی سرکاری زمین کو ترقیاتی مقاصد کے لیے ایڈجسٹ کرنے کے لیے" ایم ڈی اے کے "کنٹرول" میں دیے جا رہے ہیں۔

علی نواز گوندر گوٹھ اب مکمل طور پر بحریہ ٹاؤن کراچی میں محصور ہے─ وائٹ سٹار
علی نواز گوندر گوٹھ اب مکمل طور پر بحریہ ٹاؤن کراچی میں محصور ہے─ وائٹ سٹار

ڈان کے پاس دستیاب ریکارڈز کے مطابق اس وقت کے سینیئر ممبر سندھ بورڈ آف ریوینیو احمد بخش ناریجو نے ایم ڈی اے کو کم از کم تین انتباہی خطوط لکھے تھے کہ ادارہ نجی زمین مالکان کے ساتھ تب تک معاملات نہیں کر سکتا"جب تک کہ ایم ڈی اے کو حکومتِ سندھ کی جانب سے زمین الاٹ/ٹرانسفر نہ کی جائے، اور حقوق کے ریکارڈز میں بھی یہی نہ تحریر کیا جائے۔"

مارچ 2015 میں سندھ بورڈ آف ریوینیو نے ایم ڈی اے کے لیے 14،617 ایکڑ زمین "مختص" کر لی۔ ["مختص کرنا" الاٹمنٹ کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے: الاٹمنٹ میں بورڈ آف ریوینیو کو قیمت ادائیگی اور دیگر قانونی کارروائیاں شامل ہوتی ہیں۔]

یہی بات 9 مارچ 2016 کو سندھ بورڈ آف ریوینیو کے حالیہ سینیئر ممبر رضوان میمن نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کر رہے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے بھی کہی تھی۔

جو بات رضوان میمن نے نہیں بتائی، وہ یہ کہ مندرجہ بالا علاقہ، جو 9 مختلف دیہات پر مشتمل تھا، اس کو صرف انکریمینٹل ہاؤسنگ اسکیمز [وہ کم قیمت ہاؤسنگ اسکیمز جس میں پلاٹس 120 مربع گز سے تجاوز نہیں کر سکتے] کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ کو بھیجی گئی سمری میں یہ نکتہ موجود تھا۔

سندھ حکومت کی پالیسی برائے اجرائے زمین کے نوٹیفیکیشن 09-294-03/SO/-1/719، جاری کردہ 10 نومبر 2010، کے تحت سرکاری زمین کو مارکیٹ قیمتوں سے کم پر الاٹ نہیں کیا جا سکتا، جبکہ اس کی گنجائش صرف انکریمینٹل ہاؤسنگ اسکیمز کے لیے ہے جنہیں مارکیٹ ریٹ کے کم از کم 25 فیصد کی رعایتی قیمت پر الاٹ کیا جا سکتا ہے۔

کراچی بدامنی کیس کی سماعتوں کے دوران ایم ڈی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے انکریمینٹل ہاؤسنگ اسکیموں کے لیے مختص کردہ زمین کی قیمت کی مد میں مارکیٹ قیمتوں کے 25 فیصد کے حساب سے سندھ بورڈ آف ریوینیو کو 2 ارب روپوں کی ادائیگی کی ہے۔

ایم ڈی اے ایکٹ 1993 کے تحت پلاٹس کی الاٹمنٹ کے ضوابط (ڈسپوزل آف پلاٹس رولز 2006) میں یہ بھی موجود ہے کہ انکریمینٹل ہاؤسنگ کے لیے مختص کردہ پلاٹس کو مارکیٹ قیمتوں کے 25 فیصد سے کم پر فروخت نہیں کیا جا سکتا، اور یہ بھی صرف قرعہ اندازی کے ذریعے کیا جائے گا۔

دوسری جانب ملیر سے مسلم لیگ ن کے رکنِ قومی اسمبلی حاکم بلوچ کے مطابق 2013 میں تین افراد نے ملیر ماڈل کالونی میں جوکھیو گوٹھ میں ایک آفس قائم کیا تھا۔

"ان لوگوں میں سہیل میمن، ساجد جوکھیو [رکنِ صوبائی اسمبلی پی پی پی] اور [حال ہی میں ڈپٹی کمشنر ملیر تعینات ہونے والے] محمد علی شاہ شامل تھے، جنہیں [خفیہ طاقتوں کی جانب سے] ٹاسک دیا گیا تھا کہ ملیر بھر سے نجی اور سروے شدہ سرکاری زمین حاصل کریں۔"

اس زمین کو بعد میں بحریہ سے قریبی تعلقات رکھنے والے لوگوں نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی تعمیر کے لیے استعمال کرنا تھا۔

کراچی-جامشورو سرحد تک بحریہ ٹاؤن کراچی کے قطبے نظر آتے ہیں─ وائٹ سٹار
کراچی-جامشورو سرحد تک بحریہ ٹاؤن کراچی کے قطبے نظر آتے ہیں─ وائٹ سٹار

اس سے ایم ڈی اے افسران کی جانب سے قانون کی بدترین خلاف ورزی کے سلسلے کا آغاز ہوا جس کا مقصد بحریہ ٹاؤن کو خصوصی رعایت دینا تھا، جو ان کے نزدیک "اشتمالِ اراضی" (consolidation) تھی۔

بی او آر کے لیے اشتمالِ اراضی ایک قانونی طریقہ کار ہے، جس کے تحت یہ کسی زمین کے مالک کو اس کی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی زرعی زمین کے بدلے زمین کا ایک مجموعی حصہ جاری کر سکتا ہے، جو کہ 'گورنمنٹ لیںڈ کالونائزیشن ایکٹ 1912’ کے تحت قریبی علاقے میں 16 ایکڑ سے تجاوز نہیں کر سکتا۔

اس کے علاوہ کالونائزیشن ایکٹ کی شق 17 کے تحت "بدلے میں حاصل کی گئی زمین کو انہیں شرائط و ضوابط، اور انہی ذمہ داریوں کے تحت تصور کیا جائے گا، جو دست برداشتہ زمین پر لاگو تھیں۔"

19 دسمبر 2013 میں ایم ڈی اے ایکٹ میں کی جانے والی ترمیم — خصوصاً ایکٹ کی شق 2 کی ذیلی شق ff کے تحت اب ایم ڈی اے بھی اشتمالِ اراضی کا مجاز ہے، جو کہ پہلے صرف سندھ بی او آر کر سکتا تھا۔ اس شق کے مطابق اشتمالِ اراضی کا مطلب "اسکیم میں بذریعہء تبادلہ پلاٹس کی ایڈجسٹمنٹ یا اسکیم کے مقاصد کے لیے پلاٹس کی ایڈجسٹمنٹ ہے۔"

─ وائٹ سٹار
─ وائٹ سٹار

ایم ڈی اے کے تحت بنائے گئے ڈسپوزل آف پلاٹس رولز 2006 میں "پلاٹ" کی تعریف یہ ہے، "کسی بھی اسکیم میں رہائشی پلاٹ (600 مربع گز سے تجاوز نہ کرتا ہو)، کمرشل پلاٹ (ایک ایکڑ سے تجاوز نہ کرتا ہو)، صنعتی پلاٹ (1000 مربع گز سے تجاوز نہ کرتا ہو)، فلیٹ سائیٹ (ایک ایکڑ سے تجاوز نہ کرتی ہو)۔"

انہی رولز میں "اسکیم" کی تعریف ایک ایسا منصوبہ/اسکیم ہے جو کہ ایم ڈی اے ایکٹ کے تحت تیار کی اور عمل میں لائی گئی ہو، اور جس کی حکومت کی جانب سے توثیق کی گئی اور منظوری دی گئی ہو۔

مگر مربع گز حساب سے پلاٹس کی اشتمالِ اراضی کے بجائے ایم ڈی اے نے ہزاروں ایکڑ نجی زمین کا ایک منافع بخش کمرشل ڈویلپمنٹ منصوبے کے لیے انضمام کیا۔

اشتمالِ اراضی ایک نئے طریقے سے

اس مقصد کے حصول کے لیے سندھ حکومت کے بڑوں اور ایم ڈی اے نے "اشتمالِ اراضی کے تصور" کو توڑنے مروڑنے کی کوشش کی ہے، اور اس کے لیے ایسی قانون سازی کی گئی ہے جو اصل قانون سازی کے مقاصد کے حصول کے بجائے ایم ڈی اے ایکٹ 1993 کی شق 2، ذیلی شق ff، ترمیم شدہ 19 دسمبر 2013 اور ایم ڈی اے رولز 2006 سے براہِ راست متصادم ہے۔ اور انہوں نے ایسا ایم ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو نجی زمینوں کے سرکاری زمینوں پر اشتمال کا اختیار دے کر کیا ہے۔

اور صرف یہی نہیں، بلکہ زرعی زمینوں کے بدلے زرعی پلاٹس کے بجائے کمرشل اور رہائشی پلاٹس کا اشتمال کیا گیا ہے، جو کہ کالونائزیشن ایکٹ 1912 کی شق 17 میں موجود اشتمالِ اراضی کے بنیادی مقصد کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

یہاں قدیم قبریں بھی تھیں جنہیں اب منہدم کر دیا گیا ہے— وائٹ سٹار
یہاں قدیم قبریں بھی تھیں جنہیں اب منہدم کر دیا گیا ہے— وائٹ سٹار

درحقیقت اس پورے معاملے میں بدنیتی صاف ظاہر ہے۔ یہاں تک کہ ایم ڈی اے ایکٹ 1993 میں 2013 میں ہونے والی ترمیم بھی صرف ایم ڈی اے کی اسکیمز کے لیے اشتمالِ اراضی کی اجازت دیتی ہے۔

2014 کے دوران ایم ڈی اے نے ہاتھ کی صفائی سے کام لیتے ہوئے کئی اخبارات میں اشتہارات شائع کیے، جن میں ضلع ملیر کے دور دراز دیہات میں موجود فائدہ مند اور منافع بخش نجی زمینوں کی اشتمالِ اراضی کی درخواست کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ ایم ڈی اے کے کئی نوٹسز ہیں جن میں "ملکیت کی تصدیق" کا اعلان کیا گیا ہے، جس کے ذریعے سپر ہائی وے کے نزدیک اس جگہ اشتمالِ اراضی کی تصدیق کی گئی ہے جہاں بحریہ ٹاؤن موجود ہے۔

ان نوٹسز میں انضمام شدہ اراضی کے مالکان کے طور پر ان چار میں سے کچھ یا چاروں نام ضرور موجود ہیں: شاہد محمود، محمد اویس، وقاص رفعت اور وسیم رفعت۔

اس کے علاوہ ان نوٹسز میں "ایگزیکٹو ڈائریکٹر بحریہ ٹاؤن پرائیوٹ لمیٹڈ" زین ملک کو "مالکان کی خصوصی پاور آف اٹارنی" کا حامل قرار دیا گیا ہے۔

قدیم ورثے کو کچرے کی طرح پھینک دیا گیاہے— وائٹ سٹار
قدیم ورثے کو کچرے کی طرح پھینک دیا گیاہے— وائٹ سٹار

لیکن کئی ریٹائرڈ اور حاضرِ سروس حکومتی افسران اس اشتمالِ اراضی کے لیے استعمال ہونے والی اصلی ملکیتی دستاویزات کی صداقت پر بھی شکوک کا اظہار کرتے ہیں۔

سندھ حکومت کے ایک ریوینیو افسر نے انکشاف کیا کہ "ایک [بلدیاتی حکومت کے ایک سینیئر افسر] کے دفتر میں جعلی فارم 7 تیار کیے گئے ہیں تاکہ سرکاری زمینوں کو اشتمالِ اراضی کے ذریعے ہڑپ کیا جا سکے۔"

کئی واقعات میں اشتمال کے لیے استعمال ہونے والی یا تبادلہ کی گئی زمین ضلع ملیر کے انتہائی شمال میں واقع دیہات، جیسے کہ کنڈ اور مہر جبل میں ہے جہاں زمین کی قیمت 20 ہزار روپے فی ایکڑ سے زیادہ نہیں۔

مگر انہیں منتقل کر کے سپر ہائی وے کے چار دیہات، کاٹھوڑ، لنگھیجی، بولاری، اور کونکر کے نزدیک ضم کیا گیا ہے جہاں زمینوں کی قیمتیں 100 گنا زیادہ ہو سکتی ہیں۔ ڈان کی تحقیق کے مطابق اشتمالِ اراضی کی درخواست کرنے والوں سے قیمت کا یہ فرق وصول نہیں کیا جاتا۔

اس کے علاوہ انضمام شدہ اراضی، جو مل کر 7،631 ایکڑ بنتی ہیں، شاطرانہ انداز میں چار دیہات کی زمین پر ٹکڑوں کی صورت میں پھیلائی گئی ہے جس سے بحریہ ٹاؤن آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کر سکتا ہے۔ اب تک ایسا 23،300 ایکڑ زمین کے ساتھ ہو چکا ہے۔ (کراچی کے ضلع وسطی کا مجموعی علاقہ 69 مربع کلومیٹر یا 17،050 ایکڑ ہے۔)

اور صرف یہی نہیں، بلکہ بحریہ ٹاؤن کراچی کی تمام سڑکیں، پل، نکاسیء آب کی زمین دوز نالیاں وغیرہ ایم ڈی اے کے اخراجات سے بنائی جا رہی ہیں، اور اس کی تصدیق محکمہء بلدیات اور ایم ڈی اے کے سینیئر حکام کر چکے ہیں۔

قانون کو پیروں تلے کچلنے اور زمینوں کے جھوٹے سودوں سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں: ایم ڈی اے نے ملیر میں 2014 میں کس طرح اشتمالِ اراضی کی، جبکہ عدالت میں خود سندھ بورڈ آف ریوینیو کے سینیئر ممبر نے تسلیم کیا تھا، اور جس کی تصدیق ڈان کے پاس دستیاب دستاویزات بھی کرتی ہیں، کہ 9 دیہات کی زمین ایم ڈی اے کے لیے مارچ 2015 میں مختص کی گئی تھی؟ دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ ایم ڈی اے نے اس سرکاری زمین کے بدلے نجی زمین کا انضمام کیسے کیا جو کہ اتھارٹی کی ملکیت تھی ہی نہیں؟

اور سندھ بورڈ آف ریوینیو نے کیوں اپنی ناک کے نیچے سرکاری زمین کی چوری کی اجازت دی، جبکہ کئی اخبارات میں اس کے کھلے عام اشتہارات دیے گئے تھے؟

اس کے علاوہ بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کے نام موجود اس وسیع و عریض اراضی کی ملکیتی دستاویزات کہاں ہیں جن پر یہ کمپنی پلاٹنگ کر رہی ہے اور گھر تعمیر کر رہی ہے؟

ایم ڈی اے نے ایک پرائیوٹ کمرشل رہائشی اسکیم کے لے آؤٹ پلان کی منظوری کیسے دی جو اس زمین کو فروخت کر رہی ہے جو اس کی ہے ہی نہیں؟

جب ڈان نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے حوالے سے یہ تمام سوالات بحریہ سے کیے، تو یاد دہانی کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ پوچھے گئے سوالات میں بحریہ ٹاؤن کراچی کے نام سے فروخت کی جانے والی زمین کی ملکیتی دستاویزات اور رقبے، بحریہ ٹاؤن کے انفراسٹرکچر کی ایم ڈی اے کے فنڈز سے تعمیر، اور دور دراز کے دیہات کی سستی زمین کے بدلے سپر ہائی وے کی پرائم لوکیشن پر واقع زمین حاصل کرنے کے الزامات شامل تھے۔

کراچی کے محدود وسائل پر ڈاکہ

خاموشی سے رضامند ہوجانے والے افسران نے نہ صرف منصوبے کے لیے زمین کے حصول کی راہ ہموار کی ہے، بلکہ انہوں نے بحریہ ٹاؤن کو تمام تر سہولیات، جیسے کہ پانی وغیرہ بھی فراہم کی ہیں تاکہ اس کے پارکس اور گالف کورس وغیرہ سرسبز و شاداب رہیں۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ایک ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر نے انکشاف کیا کہ "بحریہ ٹاؤن کراچی کو فائدہ پہنچانے کے لیے ڈملوٹی انٹرسیکشن سے 3 انچ قطر کے چار کنکشن جاری کیے گئے ہیں۔"

یہ کراچی کا پانی ہے، اور اس کا رخ بحریہ ٹاؤن کی جانب موڑا جانا پہلے سے پانی کی کمی کے شکار 2 کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کے لیے مزید مشکلات کھڑی کر دے گا، جہاں شہری یا تو ٹینکر مافیا کے ہاتھوں مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہیں، یا پھر میونسپلٹی کے نلکوں کے سامنے قطاریں بنانے پر۔

محمد سلیم وائس آف انڈیجینیئس کمیونٹی امپاورمنٹ نامی تنظیم کے صدر ہیں۔ یہ کراچی اور اس کے مضافات کے ان مقامی لوگوں کی تنظیم ہے جنہیں اپنی زمینوں سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ محمد سلیم کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے انتہائی گہرے کنوئیں کھودے ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں پانی کا واحد ذریعہ یعنی زیرِ زمین پانی میلوں تک تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔

12 سال قبل سندھ ہائی کورٹ میں سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (ایس آئی یو ٹی) اور دیگران کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے 567/2004 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ (جو کہ اب سپریم کورٹ کے جج ہیں) نے نیسلے پاکستان کو NaClass No. 106، دیہہ چوہڑ، ملیر میں پانی کی بوتلیں تیار کرنے کا پلانٹ لگانے سے روک دیا تھا۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ایک ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر نے انکشاف کیا کہ "بحریہ ٹاؤن کراچی کو فائدہ پہنچانے کے لیے ڈملوٹی انٹرسیکشن سے 3 انچ قطر کے چار کنکشن جاری کیے گئے ہیں۔"

30 نومبر 2004 کو جاری ہونے والے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ "ایک بار اگر اتنی بڑی مقدار میں زمین سے روزانہ، ہر گھنٹے اور ہر منٹ اتنا پانی نکالنے کی اجازت دے دی جائے، تو زیرِ زمین پانی تیزی سے ختم ہوجائے گا، جس سے درخواست گزار اپنے ضروری کاموں کے لیے بھی پانی استعمال کرنے کے حقدار نہیں رہیں گے، جو کہ ان کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان کے برابر ہوگا۔"

اگر نیسلے پلانٹ کی تعمیر کی اجازت دے دی گئی ہوتی تو آج یہ بحریہ ٹاؤن کراچی سے صرف 3 کلومیٹر کے فاصلے پر ہوتا۔

نور محمد گوٹھ کے فیض محمد گبول کے لیے اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ "یہ لوگ فرعون کی اولادیں ہیں…" فیض محمد کا چہرہ ناامیدی اور غصے سے تمتما رہا تھا۔

"پہلی دفعہ مجھ سے میری زمین مانگنے کے لیے ٹپی (سابق صدر آصف علی زرداری کے سوتیلے بھائی) آئے تھے۔ جب میں نے زمین فروخت کرنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے مجھے گالیاں دیں۔) فیض محمد کی 56 ایکڑ زمین، جسے ان کے والد اور دادا نے آباد کیا تھا، پر پھلوں اور کھجوروں کے سینکڑوں درخت تھے۔

بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے نور محمد گوٹھ میں لگے کھجور کے درخت اکھاڑ دیے گئے
بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے نور محمد گوٹھ میں لگے کھجور کے درخت اکھاڑ دیے گئے

13 مارچ 2014 کو بلڈوزروں نے ان کا باغ اجاڑ دیا، درخت اٹھا کر لے گئے، اور ان کا ٹیوب ویل بھی تباہ کر دیا۔ وہ مایوسی سے دیکھتے رہنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکے۔

اس وقت بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کے ملازم ریٹائرڈ فوجی افسران کے ساتھ ساتھ ایم ڈی اے کے حکام بھی موجود تھے۔ اب وہ اپنے باغ کی جگہ پر مہنگے اور عالیشان اپارٹمنٹس کو تعمیر ہوتے دیکھتے ہیں، تو ایک تلخی ہے جو ان کے حلق میں بھر جاتی ہے، اور آنکھوں سے پانی کی صورت میں بہہ نکلتی ہے۔

تاریخی ورثے اور ماحول کی تباہی

بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے "حاصل" کی گئی 23 ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین کے بیچ میں کئی تاریخی مقامات بھی ہیں جن میں ٹھٹھہ کے نزدیک چوکنڈی کے قبرستان سے مشابہ قبریں، بدھسٹ اسٹوپا اور نقش و نگار والے پتھر شامل ہیں۔

تعمیرات کے بیچ میں آنے والے ہر مزار، ہر قبر کو بلڈوزروں نے کچرے کی طرح اکھاڑ پھینکا۔ صدیوں پرانہ ورثہ 'ترقی' کے بلڈوزر اور بے انتہا ہوس کے آگے قائم نہیں رہ سکا۔

نامور مؤرخ گل حسن کلمتی کے مطابق مشہور صوفی بزرگ اور سندھی زبان کے عظیم ترین شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اس علاقے میں قیام کیا تھا۔ کلمتی کے مطابق "ان کا تکیہ مکران میں ہنگلاج ماتا کے زائرین کے لیے آرامگاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔”

مقامی لوگوں کے مطابق جس جگہ شاہ بھٹائی کا تکیہ موجود تھا، آج یہاں بحریہ ٹاؤن کی عظیم الشان مسجد کے بیت الخلاء موجود ہیں۔

اس پورے کھیل میں اس علاقے کا جغرافیہ بھی تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ اس علاقے میں کئی قدیم موسمی ندیاں اور نالے ہیں جو ملیر ندی میں گرتے ہیں۔ مگر بحریہ ٹاؤن کی تعمیراتی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کئی پہاڑیوں کو توڑ کر ختم کیا جا رہا ہے۔

مستقبل کے منصوبوں میں کچھ ندیوں اور نالوں کا رخ تبدیل کرنا بھی شامل ہے جس سے ماحول اور مقامی جنگلی حیات پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

بحریہ فیز 4 کے سکیورٹی سپروائزر محمد شریف برفت، جو کہ کراچی-جامشورو سرحد کے قریب ایک گاؤں میں رہتے ہیں، نے ڈان کو بتایا کہ ان کے فیز میں ترقیاتی کام ابھی بھی کئی ماہ بعد ہوگا۔

9 مارچ 2016 کو نیب کے نمائندے نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کر رہے سپریم کورٹ کے بینچ کو بتایا کہ اب تک بحریہ نے 1 لاکھ 4 ہزار پلاٹ فروخت کر دیے ہیں۔ سرمایہ کاری کرنے والوں میں زیادہ تر افراد سندھ کے متوسط اور زیریں متوسط طبقے، بالخصوص کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔

جو لوگ معلومات رکھتے ہیں، وہ یہ جانتے ہیں کہ بحریہ ٹاؤن میں قیمتیں بالکل اسی طرح بڑھائی جاتی ہیں جس طرح اسٹاک مارکیٹ کے بڑے کھلاڑی شیئرز کی قیمتوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

راحیل نامی ایک اسٹیٹ ایجنٹ نے بتایا کہ کس طرح بحریہ ٹاؤن کراچی کے پلاٹس کی قیمتوں سے کھیلا جاتا ہے۔ "چھوٹے سرمایہ کاروں کو بار بار پہلے سے زیادہ قیمت کی پیشکش کی جاتی ہے، یہ جانتے ہوئے کہ جنہوں نے اپنی محدود آمدنی اس پراجیکٹ میں لگائی ہے، وہ طویل مدتی فائدہ دیکھیں گے، اور اپنا پلاٹ فروخت نہیں کریں گے۔"

"اس کے بجائے وہ صرف یہ جان کر خوش ہوجائیں گے کہ ان کی پراپرٹی کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ اس سے مزید سرمایہ کار راغب ہوتے ہیں۔"

انہوں نے بتایا کہ مناسب موقع آنے پر مارکیٹ میں ضرورت سے زیادہ پلاٹس لا کر یا پھر افواہیں پھیلا کر قیمتیں گرائی جاتی ہیں۔ "یہ سٹے کا حصہ ہے، جس سے قیمتوں کی نئی سطح طے کی جاتی ہے اور فوری منافع کمایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مارکیٹنگ کی ایک بہترین حکمتِ عملی ہے۔" تجربہ کار کھلاڑی بریگیڈیئر افتخار نے بتایا کہ "میرے ایک دوست نے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں ایک پلاٹ 50 لاکھ روپے میں خریدا تھا، اور اب اس کی قیمت آدھی رہ گئی ہے، مگر پھر بھی خریدنے والا کوئی نہیں۔"

بحریہ ٹاؤن کے پیچھے موجود تلخ اور چبھتے ہوئے حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ لگتا ہے کہ جو زمینوں پر اس ظالمانہ قبضے کے خلاف فوری ایکشن لے سکتے ہیں، وہ جان بوجھ کر نظریں چرا رہے ہیں۔

مگر مقامی لوگوں کے مطابق یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ ایک شخص نے مایوس کن لہجے میں کہا کہ "جب ملک ریاض فخریہ طور پر یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ملک کے طاقتور ترین لوگوں کو کتنی بڑی بڑی رشوتیں دی ہیں، تو پھر اس زمین کے غریب اور بے یار و مددگار لوگوں کے لیے ازالے کی کیا امید باقی رہ جاتی ہے؟"

یہ خبر ڈان اخبار میں 18 اپریل 2016 کو شائع ہوئی۔