ایک اور چھٹی
پہلے ایشیاء کپ اور پھر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بہترین کارکردگی کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی ازسرِ نو تشکیل کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ پی سی بی کی پوری انتظامیہ کو گھر بھیج دینا چاہیے اور کوئی کہتا ہے کہ سابق کھلاڑیوں کو پی سی بی کی باگ ڈور سنبھالنی چاہیے۔
منہ توڑ شکستوں کے بعد حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ اطلاعات آئیں کہ پی سی بی چیئرمین شہریار خان تنقیدی تیروں کی تاب نا لاتے ہوئے مستعفی ہو رہے ہیں، مگر چیئرمین پی سی بی ادھیڑ جوانی میں اپنے پختہ عزم اور مضبوط ارادوں کے ساتھ ڈٹے ہیں اور مستعفی نہیں ہوئے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کی مایوس کن کارکردگی پر تنقید کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ہم ایک ایسی مثالی ریاست میں رہتے ہیں جہاں ہر شعبے کو چلانے والے اعلیٰ درجے کے پروفیشنل اور ماہر موجود ہیں، جس کے معاشرے میں انسانیت کے تمام تقاضے نا صرف پورے کیے جاتے ہیں بلکہ معاشرہ کا ہر فرد صادق اور امین ہے اور اخلاقیات کے اعلیٰ تقاضوں کا متمنی ہے۔
تنقیدی تیر برسانے والے یہ سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں کہ پاکستانی ٹیم کی انتظامیہ سمیت کھیلنے اور کھلانے والے اسی قوم سے ہیں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم بھی دیگر پاکستانی شعبوں کی طرح سفارشی بھرتیوں اور اندرونی سیاست کا شکار ہے۔ اور کیونکہ اس میں کھیلنے والے اور اُن کو کھلانے والے بھی اسی معاشرے کا حصّہ ہیں، اس لیے ان کا انتخاب بھی اسی طریقے سے کیا جاتا ہے، جس طریقے سے دیگر شعبوں کے لیے 'اہل اور قابل' افراد چنے جاتے ہیں۔
پڑھیے: کرکٹ ٹیم کی میوزیکل چیئر
فرق صرف یہ ہے کہ چونکہ پاکستان میں کرکٹ ہر گلی اور محلے میں کھیلی جاتی ہے، اس لیے پاکستانی ٹیم کو ایسے کھلاڑی دستیاب ہو ہی جاتے ہیں جو ٹیم اور پاکستان کرکٹ کے شاندار ماضی کی کچھ نہ کچھ لاج رکھے ہوئے ہیں۔
یہ حال صرف کرکٹ کا نہیں بلکہ پی آئی اے سے لے کر اسٹیل مل تک تمام اداروں کی تباہی کی وجوہات وہی ہیں جو کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ناکامی کی۔ یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ 1992 میں عمران خان کی قیادت میں ورلڈ کپ جیت گئے ورنہ موجودہ حالات کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ ہم کوئی بھی ورلڈ کپ جیت سکیں گے۔
ویسے 1992 کا ورلڈ کپ بھی اگر، مگر اور کیونکہ سے ہی جیتے تھے۔ ہم اس بات پر بہت خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے انتہائی غیر متوقع حالات میں ورلڈ کپ جیتا تھا۔ ہاں یہ ایک کارنامہ تو ضرور ہے، پر یہ معمول نہیں بننا چاہیے۔ ہماری ٹیم کی کارکردگی اتنی اچھی تو ہونی چاہیے کہ فیورٹ قرار پائے، یا کسی سخت حریف کے چھکے ہی چھڑا دے۔ ایک عرصے سے حال یہ ہے کہ ہم جو بھی میچ جیتتے ہیں وہ توقعات کے برعکس ہی جیتتے آ رہے ہیں کیونکہ کارکردگی ہے ہی ایسی جس سے کوئی توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتیں۔ تو کیا یہ کوئی قابلِ فخر بات ہے؟
کرکٹ کے علاوہ ہمارے قومی کھیل ہاکی کا بھی یہی حال ہے۔ پاکستان کو 4 بار ورلڈ چیمپیئن رہنے کے باوجود ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے کوالیفائی کرنا پڑتا ہے۔ حالات تو اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ تاریخ میں پہلی بار پاکستان 2014 ہاکی ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی بھی نہیں کرسکا۔
پاکستان کے عظیم سابق کپتان عمران خان اور چند دیگر سابق کھلاڑیوں کا ماننا ہے کہ ڈومیسٹک سطح پر کمزور ڈھانچہ ہونے کی وجہ سے قومی ٹیم اس حالت تک پہنچی ہے۔ ڈومیسٹک کرکٹ کا ڈھانچہ اگر مضبوط ہو، تو اس میں بہترین کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو ٹیم میں جگہ دی جا سکتی ہے۔
پڑھیے: قومی کرکٹ بچانی ہے تو اسکول کرکٹ بحال کریں
مگر ہمارے پاس مقامی کرکٹ کا ایسا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں۔ حال ہی میں منعقد کی جانے والی پاکستان سپر لیگ اس جانب ایک پہلا قدم ہے، لیکن پی ایس ایل کو پاکستان ٹیم کے لیے باقاعدہ طور پر کھلاڑی پیدا کرنے میں ابھی بہت وقت درکار ہے۔
اس کے بجائے بورڈ نے پی ایس ایل میں قدرے بہتر کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو فوراً بین الاقوامی میچز کے لیے منتخب کر لیا، جو کہ جلد بازی اور بس کسی بھی طرح حالات بہتر کرنے کی کوشش کا مظہر ہے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بری کارکردگی کی رہی سہی کسر میڈیا پوری کر دیتا ہے۔ تمام ہی چینلز پر بیٹھے ہوئے تجزیہ کار ٹیم کی کارکردگی پر ایسے تنقید کرتے ہیں جیسے کہ وہ اپنے زمانے کے ٹنڈولکر یا وسیم اکرم رہ چکے ہوں۔ کچھ چینلز فنڈز کی کمی کی وجہ سے ایسے پرانے کرکٹرز کو بطور تجزیہ کار اپنے شو میں بٹھا لیتے ہیں، جن کے نام کے آگے سابق کرکٹر پڑھ کر چچا گوگل سے پوچھنا پڑتا ہے کہ موصوف نے پاکستان کی طرف سے کب اور کتنے میچ کھیلے تھے۔
اب پے درپے شکستوں کے بعد کپتان، چیف کوچ اور مینیجر کی چھٹی کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا ان تینوں کی چھٹی کروانے سے پاکستانی ٹیم پرفارم کرنا شروع کر دے گی؟ گراؤنڈ کے اندر کھیلنے والے کھلاڑی تو وہی رہیں گے۔ کوئی بھی نیا کوچ، سلیکٹر یا کپتان خود تو جا کر گراؤنڈ میں کھیلنے سے رہا۔
ہمیں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ ہم نے کم از کم دو دہائیوں سے کوئی اعلیٰ پائے کا ون ڈے بیٹسمین پیدا نہیں کیا ہے۔ ہمارا باؤلنگ اٹیک اب بھی کافی مضبوط ہے، لیکن ہمارے باؤلرز کی تمام محنت پر ہمارے بیٹسمین اور ہمارے فیلڈرز پانی پھیر دیتے ہیں۔
پڑھیے: کیا پاکستانی بیٹسمین اسپن کھیلنا بھول چکے ہیں؟
عوامی غم و غصے کو دیکھتے ہوئے آفیشلز کی چھٹی کروا دینا شاید زخم پر عارضی مرہم تو ہوسکتا ہے، لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔ مسئلے کا مستقل حل ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جس کے تحت ٹیلنٹ کی تلاش کی جائے، اسے نکھارا جائے، اسے ٹیم میں بھیجا جائے، اور جہاں ایک طرف اس پر کارکردگی دکھانے کا دباؤ ہو، تو دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ یہ دباؤ سر پر لٹکتی تلوار کی صورت میں نہ ہو کہ ایک میچ ہارنے پر یا باہر بٹھا دیا جائے یا کپتان تبدیل کر دیا جائے، یا میڈیا ٹرائل شروع ہوجائے۔
لیکن کیا کریں کہ ہم لوگ ہیں ہی ایسی قوم سے نہ، جہاں ہر حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کئی دہائیوں سے سر اٹھائے کھڑے مسائل کو ایک دو سالوں میں ٹھیک کر دے گی، اور جب یہ مسائل ٹھیک نہیں ہوتے تو ہم پھر اس حکومت سے بھی بیزار ہو کر اسے گھر بھیجنے کے مطالبات شروع کر دیتے ہیں۔
خراب کارکردگی پر تنقید کرنا اپنی جگہ درست ہے، لیکن تنقید بے جا بھی نہیں ہونی چاہیے۔ موجودہ صورتحال میں تو میرے نزدیک بے جا نہیں ہے، لیکن ہم لوگوں نے مصباح الحق جیسے اعلیٰ پائے کے بیٹسمین کے ساتھ اپنے ٹاک شوز میں جو سلوک کیا ہے، وہ اسے دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نئے ٹیلنٹ کی بھی ہم زیادہ سے زیادہ صرف ایک دو میچز میں شکست برداشت کریں گے۔ اس کے بعد ۔۔۔۔ ایک اور چھٹی۔
تبصرے (2) بند ہیں