حقیقی فالٹ لائن کہاں؟
گلشنِ اقبال لاہور کے علامہ اقبال ٹاؤن میں واقع ایک وسیع و عریض پبلک پارک ہے۔ یہاں کافی سبزہ ہے جہاں گھرانوں کو چادر بچھائے کھانے کھاتے ہوئے، جھیل میں کشتی کی سواری کرتے ہوئے، اندرونِ لاہور کی بھول بھلیاں دیکھتے ہوئے، یا بجلی کے جھولوں میں سواری کا مزہ لیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
بچپن میں میں اس کے مرکزی دروازوں میں سے ایک کے سامنے ہی رہتا تھا۔ بچپن کی میری زیادہ تر تصاویر میں یہ پارک نظر آتا ہے۔
پارک میں کرکٹ کھیلنے کی اجازت نہیں تھی؛ یہاں تک کہ مالی فٹ بال کھیلنے سے بھی منع کرتے تھے کیونکہ گھاس تازہ اور کلیاں نازک ہوا کرتی تھیں۔
مگر گیٹ نمبر ۱ کے پاس ایک الگ تھلگ علاقہ تھا جہاں دیواریں چند فٹ اونچی تھیں اور انتظامیہ سے وہاں کوئی بھی آیا جایا نہیں کرتا تھا۔ ہم اکثر اپنے کرکٹ بیٹ وہاں لے جایا کرتے اور ایک دو میچ کھیل لیا کرتے — گرمیوں میں ہماری شرط عام طور پر حلوہ پوری اور چنے کا ناشتہ ہوا کرتی تھی۔
حال ہی میں پارک کے پاس سے گزرتے ہوئے میں نے سوچا کہ کیا بچے اب بھی دیواریں پھلانگ کر پارک میں داخل ہوتے ہیں جس طرح ہم کیا کرتے تھے؟
کل اس جگہ جہاں آپ کلیوں کو بھی بغیر ندامت نہیں چھو سکتے تھے، اسے انسانی خون سے نہلا دیا گیا۔
انہوں نے اپنا ہدف انتہائی احتیاط سے منتخب کیا۔ ایسٹر کی وجہ سے پارک کا مسیحی برادری سے بھرا ہونا لازمی تھی۔ ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ ہلاکتیں تھا، اور وہ اس میں بلاشبہ کامیاب ہوئے ہیں۔
ایک سال قبل جب آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تھا تو پوری قوم دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے متحد ہوگئی تھی۔ ہم نے دشمنوں سے بدلہ لینے اور اپنے ملک کو بچوں کے لیے محفوظ بنانے کے وعدوں پر مبنی گانے بھی تیار کیے۔
جلد ہی آپریشن ضربِ عضب کو کامیاب قرار دے دیا گیا اور ایسا لگا کہ اب کارروائیوں کا رخ اداروں میں کرپشن کی جانب ہوجائے گا۔
لاہور کا حملہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ شاید ہم نے کامیابی کا جشن منانے میں جلد بازی سے کام لیا۔
شاید دشمن ہمارے اندر ہمارے تصورات سے بھی زیادہ گہرائی میں رہتا ہے، اور گندگی کو صاف کرنے میں ہمیں کچھ سال سے کہیں زیادہ لگیں گے۔
اس طرح کے دھماکوں کو صرف ایک طرح ختم کیا جا سکتا ہے، اور وہ ہے کہ دہشتگردوں کے نیٹ ورک، ان کے خیر خواہوں، ہمدردوں، سلیپر سیلز، معاونوں، حامیوں اور منصوبہ بندی کرنے والوں کو ٹھکانے لگایا جائے۔
لاہور پارک دھماکہ یہ یاد دہانی کرواتا ہے کہ ہم اب بھی دہشتگرد نیٹ ورک کا قلع قمع کرنے سے بہت دور ہیں۔ ان کا نیٹ ورک ایک پزل کی طرح ہے اور ہم اس کی مکمل تصویر بنانے سے ابھی بہت دور ہیں۔
کیا یہ ممکن ہے کہ کہیں کسی شخص کے پاس اب بھی اس پزل کا اہم حصہ موجود ہے؟
شاید ہم نے یہ مان لیا ہے کہ کس طرح مختلف سیاسی مذہبی گروہوں نے خود کو پاکستان میں تشدد سے دور کر لیا ہے، مگر کیا ہم یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ 'اسٹریٹجک طور پر درست' اس حکمتِ عملی پر ان گروہوں کے تمام افراد عمل کر رہے ہیں؟
پشتو کا محاورہ ہے،
جب تندور گرم ہو تو کوئی بھی اس میں اپنی روٹیاں پکا سکتا ہے۔
کیا ہمارا تندور اب بھی گرم ہے تاکہ دوسرے اس سے فائدہ اٹھا سکیں؟ حقیقی فالٹ لائنز کہاں موجود ہیں؟ کیا ہم کبھی بھی اس صورتحال کا تنقیدی تجزیہ کرسکتے ہیں جس میں ہم موجود ہیں؟
اس جنگ میں سب سے بڑا معرکہ ذہنیت کی تبدیلی ہے۔
ضروری نہیں کہ ہم سب لوگ ایک دوسرے سے اتفاق ہی کریں۔ اختلاف ہر انسان کا بنیادی حق ہے مگر جب کبھی کسی کے عقائد کی بناء پر کسی کو نقصان پہنچایا جائے، تو یہیں سے مسئلے کی ابتداء ہوتی ہے۔
اور اس کی کئی سطحیں ہیں۔ سادہ ترین طریقہ یہ ہے کہ ان کے عقائد و نظریات کا مذاق اڑایا جائے، اور شدید ترین طریقہ ان کے میلوں میں بم دھماکے کرنا ہے — کسی نہ کسی حد تک ہم سب ہی لوگ اس میں ملوث ہیں۔ ہر سطح کی بنیاد اس سے نچلی اور کم متشدد سطح پر قائم ہے۔
اگر ہمیں دہشتگرد نیٹ ورکس سے لڑنا ہے تو ہمیں انتہا پسندانہ نظریات سے لڑنا ہوگا۔
دہشتگردوں کے خلاف اس جنگ میں ہمارا فوری ہتھیار بندوق اور ڈنڈا ہو سکتا ہے، مگر آخرکار یہ لکھاریوں کا قلم، اینکرز کا مائیک، منبر سے بلند ہونے والی آوازیں اور ایک عام شہری کے ماؤس کے کلکس ہیں جو ان نیٹ ورکس کا خاتمہ کریں گے۔
تبصرے (3) بند ہیں