• KHI: Fajr 5:23am Sunrise 6:39am
  • LHR: Fajr 4:49am Sunrise 6:10am
  • ISB: Fajr 4:53am Sunrise 6:16am
  • KHI: Fajr 5:23am Sunrise 6:39am
  • LHR: Fajr 4:49am Sunrise 6:10am
  • ISB: Fajr 4:53am Sunrise 6:16am
شائع March 15, 2016

کہا جاتا ہے کہ ننگر ٹھٹھہ کی جامع مسجد اُس جگہ پر بنی ہوئی ہے، جہاں جلاوطنی کے زمانے میں شاہجہاں یہاں موجود ایک چھوٹی سی مسجد میں نماز کی ادائیگی کرتا تھا۔ ٹھٹھہ کی یہ عظیم الشان جامع مسجد ایرانی فن تعمیر کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔

ٹھٹھہ کے خوبصورت ماضی کو تصور میں سجا کر ہم جب موجودہ ٹھٹھہ شہر میں داخل ہوتے ہیں، تو اس بات پر یقین ہوجاتا ہے کہ شہروں کو بھی بد دعائیں لگتی ہیں۔ ان کے بھی نصیب اور بدنصیبیاں ہوتی ہیں۔ کیپٹن الیگزینڈر ہیملٹن 1699 میں ٹھٹھہ کے لیے لکھتے ہیں: 'ٹھٹھہ دریائے سندھ سے دو میل کے فاصلے پر ایک وسیع میدان میں ایک خوبصورت شہر ہے۔ لوگوں نے شہر میں باغات کو پانی دینے کے لیے دریا سے نہریں نکالی ہیں۔ یہاں کے باغات کی خوبصورتی شاندار ہے، مزیدار اور شیریں میوہ جات اور رنگین پھولوں سے باغ بھرے ہوتے ہیں۔'

مگر اب اس شہر کا نقشہ الیگزینڈر ہیملٹن کے برعکس ہے۔ اُڑتی مٹی، ٹوٹی سڑکیں، شُتر بے مہاراں کی طرح چلتی گاڑیاں، سکون نام کی کوئی چڑیا اب ننگر کے ان بازاروں میں نہیں اُڑتی۔ وہ چہار سو درسگاہیں، سینکڑوں محلے اور سیاحوں کی آوت جاوت وہ خوبصورتیاں بس اب ایک خواب ٹھہریں۔

بادشاہی مسجد اس وقت شہر کے بالکل مشرق میں ہے، مگر جب یہ بنی تھی تب یہ شہر کے بیچ میں ہوگی، مرکزی شاہی بازار اس کے مغرب میں اور مغلوں کے باغات مسجد کے مشرق میں ہوں گے۔ اُس زمانے میں شہر 28 محلوں میں پھیلا ہوا تھا اور 30 سے بھی زائد مسجدیں تھیں۔ تصور کریں دو تین صدیوں پہلے جب فجر کے وقت ان مسجدوں سے اذانیں آتی ہوں گی تو کیسا سماں بندھتا ہوگا۔

بادشاہی مسجد ٹھٹھہ کا بیرونی مرکزی دروازہ۔— فوٹو ابوبکر شیخ
بادشاہی مسجد ٹھٹھہ کا بیرونی مرکزی دروازہ۔— فوٹو ابوبکر شیخ
بیرونی دروازے سے داخل ہونے پر کئی فوارے نظر آتے ہیں جو اب خشک ہو چکے ہیں۔— فوٹو ابوبکر شیخ
بیرونی دروازے سے داخل ہونے پر کئی فوارے نظر آتے ہیں جو اب خشک ہو چکے ہیں۔— فوٹو ابوبکر شیخ
اندرونی مرکزی دروازہ۔— فوٹو ابوبکر شیخ
اندرونی مرکزی دروازہ۔— فوٹو ابوبکر شیخ
صحن۔— فوٹو ابوبکر شیخ
صحن۔— فوٹو ابوبکر شیخ

ان مسجدوں میں سے کچھ اب بھی شکستہ حالی میں سانسیں لیتی ہیں۔ پھر حویلیاں تھیں، بازاروں کے چوراہے تھے، دس سے زیادہ بازاروں کے نام ابھی تک سنائی دیتے ہیں۔ اور یہ ساری حقیقتیں بھی اب افسانے ٹھہرے، لیکن وہ جامع مسجد جس کی بنیاد 1644 میں پڑی، وہ اب تک اپنی خوبصورتی اور جاہ و جلال کے ساتھ وہیں کھڑی ہے۔

شام ہونے لگی تھی اور میں ٹوٹے پھوٹے راستے سے ہوتا ہوا مسجد پہنچا۔ ٹھٹھہ سجاول روڈ جو اس مسجد کے آگے سے کسی وقت میں گزرتا تھا، اور اب حال یہ ہے کہ وقت اس راستے پر سے گزر گیا ہے۔ میں نے پہلی بار کسی ادھ مری سڑک کو دیکھا جو نہ جیتی ہے نہ مرتی ہے۔ راستوں کے بھِی اپنے دکھ ہیں۔ نہ جانے کتنے برسوں سے یہ سڑک اسی کیفیت میں پڑی ہے۔ لیکن لوگ اس مسجد تک آ ہی جاتے ہیں۔

مسجد کے مشرقی دروازے سے پہلے بہت ساری چھوٹی دکانیں ہیں جیسے شیریں ربڑی کی، چنوں کی، پان سگریٹ کی، کھلونوں کی اور چاٹ کی بھی جو چار پہیوں پر ہیں، جہاں چاہو لے جاؤ دکان کو، اور جہاں جگہ دیکھو کھڑی کردو اور دھںدہ شروع۔

میں قدیمی مرکزی دروازے پر آیا۔ ایک بڑا مرکزی دروازہ اور دو چھوٹے دروازے ایک جنوب کی طرف اور دوسرا شمال کی طرف۔ یہ یقیناً کاریگری، خوبصورتی، نزاکت، نفاست اور رنگوں کے میلان اور ترتیب کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہے۔ اور یہ سب اس لیے ہے کہ، سندھ کی تعمیرات اور اسلامی دور کے ابتداء میں جو تبدیلیاں آئیں، اُن کی بنیادیں وسط ایشیا کے شہروں بدخشاں، ہرات اور ایران نے فراہم کیں، مگر یہاں سندھ کا تعمیراتی فن اور سنگتراشی یہاں کی ہی ہے، کیونکہ گجرات اور وہاں سے اُگتا 'جین' اور 'بدھ' دھرم اور اُس کے تعمیرات کے اثرات یہاں پر تو ہر حال میں پڑنے تھے۔ اور یہاں کی خوبصورتیوں اور نزاکتوں کی بنیاد یہ ہی حقیقت ہے۔

میں اس شاندار مسجد کو دیکھنے کے لیے اندر داخل ہوا۔ کیونکہ بہار کی آمد تھی تو درختوں اور پھولوں پر رنگ ٹوٹ کر آیا تھا۔ کچھ خاندان تھے جو مسجد کے باغ میں بیٹھے تھے۔ کچھ لوگ مسجد کے اندر سے آرہے تھے۔ موجودہ مرکزی اور قدیمی مرکزی دروازے کے بیچ میں پانی کے فوارے بنے ہوئے تھے اور دونوں کناروں پر درختوں کی قطاریں تھیں اور ہری بھری تھیں۔

فواروں میں پانی نہیں تھا اس لیے خشک تھے اور کچھ بچے ان سوکھے فواروں کے چھوٹے سے تالاب میں لیٹتے، اٹھتے اور ہنستے تھے کہ یہ ہی عمر تھی کہ کھیل کود کرلیں۔ پھر یہ دن نہیں رہیں گے اور ہنسی کی فاختائیں پتہ نہیں نصیب کے امبر پر اُڑیں یا نہ اُڑیں، اس لیے یہ ہی وقت غنیمت ٹھہرا۔

خطِ نستعلیق میں لکھا ہوا ایک کتبہ۔— فوٹو ابوبکر شیخ
خطِ نستعلیق میں لکھا ہوا ایک کتبہ۔— فوٹو ابوبکر شیخ
مسجد میں کیا گیا سنگتراشی کا کام اعلیٰ درجے کا ہے۔— فوٹو ابوبکر شیخ
مسجد میں کیا گیا سنگتراشی کا کام اعلیٰ درجے کا ہے۔— فوٹو ابوبکر شیخ
مسجد کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے لیے کاشی کا کام کیا گیا ہے۔— فوٹو ابوبکر شیخ
مسجد کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے لیے کاشی کا کام کیا گیا ہے۔— فوٹو ابوبکر شیخ

اس مسجد کا کام میر ابوالبقا امیر خان ولد نواب ابوالقاسم نمکین بکھری، جو ٹھٹھہ سرکار کے صوبیدار تھے، نے شاہجہان کے حُکم سے شروع کروایا، اور اس شاندار مسجد کا کام 1647 میں ایک حوالے سے مکمل ہوا۔ اس شاندار مسجد کے 99 گنبد اس کی خوبصورتی میں اور اضافہ کا سبب ہیں اور اُس زمانے کے حساب سے اس مسجد کی تعمیر پر 9 لاکھ روپے خرچ آئے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اضافی تعمیر و مرمت پر کام ہوتا رہا۔ محقق رسول بخش تمیمی لکھتے ہیں: "پہلی تعمیر کے بعد شہنشاہ شاہجہاں کے آخری برس 1068 ہجری (1657ء) میں میر سید جلال رضوی نے فرش تعمیر کروایا۔ عالمگیر کے آخری دور میں مسجد میں کچھ ترمیمات اور اضافی تعمیرات کی گئیں۔ میر مُراد علی کے دور 1227 ہجری (1812ء) میں کچھ مرمت کی گئی۔

"اس کے بعد ٹھٹھہ کے ایک معزز شخص مخدوم محمد ابراہیم (المتوفی 1317ھ) نے ایک درخواست والی خیرپور میر مُراد علی کو بھیجی، مگر میر صاحب کو شکار سے فرصت نہیں تھی تو اس طرف توجہ ہو نہ سکی۔ برٹش راج میں دو دفعہ مرمت ہوئی، ایک 1855 میں جب سندھ کے کمشنر سر بارٹل فریئر تھے اور دوسری بار مسٹر ہینری جیمس کے وقت 1894 میں۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت 1975 میں اس مسجد پر مرمتی اور اضافی کام ہوا جس میں اس مسجد کو چار دیواری دی گئی، مسجد کے آگے ایک شاندار باغیچہ بنایا گیا اور ایک شاندار محراب بھی تعمیر کیا گیا جس کی وجہ سے اس مسجد کی خوبصورتی میں اور اضافہ ہوا۔ اس وقت مسجد کے پیش امام ڈاکٹر مُفتی عبدالباری بن مُفتی عبداللطیف بن مولانا مُفتی حاجی محمد حُسین صدیقی صاحب ہیں۔"

اندرونی مرکزی دروازہ۔— فوٹو ابوبکر شیخ
اندرونی مرکزی دروازہ۔— فوٹو ابوبکر شیخ
مرکزی دروازے پر خوبصورت کام کیا گیا ہے۔— فوٹو ابوبکر شیخ
مرکزی دروازے پر خوبصورت کام کیا گیا ہے۔— فوٹو ابوبکر شیخ
مسجد کے اندرونی حصے میں کئی محرابیں ہیں۔— فوٹو ابوبکر شیخ
مسجد کے اندرونی حصے میں کئی محرابیں ہیں۔— فوٹو ابوبکر شیخ
جائے وضو۔— فوٹو ابوبکر شیخ
جائے وضو۔— فوٹو ابوبکر شیخ

ڈاکٹر احمد حسن دانی، جنہوں نے ٹھٹھہ کے آثاروں اور تعمیرات کو بڑے غور سے دیکھا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں: "آپ اگر مسجدوں کی تعمیر کو دیکھیں تو تُرکی، ایران، مصر اور ہند کے اثرات آپ کو نظر آئیں گے۔ یہاں کی سنگتراشی نے قرآنی آیتوں کو پتھر پر کندہ کر کے اس فن کو کمال کے درجہ تک پہنچایا۔ ہنرمندوں نے پتھروں کی سختی میں کاغذ پر کی گئی خطاطی اور خدوخال کو تراش کر اس کی خوبصورتی کو لازوال بنادیا۔ مسلم دور کے آرائشی اور سجاوٹی کام کو اینٹوں کے ذریعے قدرتی پتھروں کے رنگ اور اینٹ کی سطح پر مصالحوں، رنگوں، نقش و نگاری، گلکاری اور کتبہ نگاری، خطاطی، جیومیٹری کی تجریدی تصاویر، کاشی گری اور رنگوں کے استعمال کے ذریعہ کمال تک پہنچا دیا۔"

— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ

سورج کی روشنی دھیمی پڑنے لگی تھی۔ جہاں جہاں نظر جاتی تھی، مجھ سے میرے الفاظ چھںتے گئے۔ کبھی کبھی آپ اتنا حیرت انگیز منظر دیکھتے ہیں کہ آپ کا اپنا آپ کے پاس کچھ نہیں رہتا۔ ایک حیرت اور احترام کا احساس چہارسُو تیرتا تھا۔ کاشی کا کام اپنی خوبصورتی کی آخری حدوں کو چھوتا ہوا آپ کو نظر آئے گا۔

اگر آپ کاشی کی اُن مختلف سائز کی چھوٹی بڑی اینٹوں پر وہ رنگ دیکھیں جو آگ سے کندن ہوکر نکلے ہیں، تو چارسُو وہ رنگ بکھرتے نظر آئیں گے۔ بینگنی، ہرا، نیلا، فیروزی گنبدوں پر، دیواروں پر، فرش پر۔ ہر طرف ایک سماں سا بندھ جاتا ہے۔ ایک ذہن اتنا خوبصورت سوچ سکتا ہے؟ میں حیران رہ گیا۔

ڈاکٹر دانی لکھتے ہیں: "شاہجہانی مسجد کاشی کی اینٹوں کی خوبصورتی کی شاندار مظہر ہے۔ یہ عمارت دوسری مغل شاہی مساجد جیسے، آگرہ، فتح پور سیکری، دہلی، لاہور کی طرح نہیں ہے جو پتھر سے بنائی گئی ہیں۔ بلکہ یہ مسجد مقامی خوبصورت اینٹوں سے بنائی گئی ہے۔ اور اُس پر کمال ٹھٹھہ کے اُن کاشی کی اینٹوں کا ہے جسے دیکھ کر کاشی گری کا کمال نظر آتا ہے۔

"مکلی کی دوسری عمارتیں جہاں خوبصورتی کے لیے گلاب کے پھول پتیاں بنائی گئی ہیں، اُن کی جگہ پر یہاں گنبدوں پر آپ کو ایسا لگے گا جیسے آسمان پر بہت سارے چھوٹے ستارے چمک رہے ہیں اور جب ان کا آپ مرکز دیکھتے ہیں تو آپ کو سورج مُکھی کا پھول نظر آتا ہے۔ یہ حیران کُن خوبصورتی ہے۔ پھر آپ کو ایسے بھی گنبد نظر آئیں گے جن پر لکیریں اس طرح کی ہیں جن کو دیکھنے سے ستارے بنتے نظر آتے ہیں۔

"یہ سارے کمالات کاشی کی اینٹیں بنانے والے اُن ذہین کاریگروں کے ہیں جنہوں نے مختلف کونوں والی کاشی کی اینٹیں بنائیں اور ان دیواروں پر اُن کو جمایا۔ اس کام کو دیکھ کر کاشی کی اینٹ کی آرائش کو پتھر والے کام سے الگ حیثیت و اہمیت دی جا سکتی ہے۔ ٹھٹھہ کی ان اینٹوں کا مغل شاہی طرز تعمیر سے کوئی بھی واسطہ نہیں ہے۔ اگر ہم رنگوں کے حوالے سے ان کا کوئی رشتہ ملانا چاہیں تو وہ 'تیموری' طرز تعمیر سے جاکر ملے گا۔ جیسا ہم ہرات، سمرقند اور بخارا میں دیکھتے ہیں۔

"ٹھٹھہ کی شاہجہانی مسجد کو مغل شاہی طرز تعمیر کا حصہ سمجھا گیا ہے، مگر یہ بنیادی تعمیری تصور ٹھٹھہ کی کاشی والی اینٹوں کی خوبصورت بناوٹ اور جمانے کا فن ہے جو صدیوں سے مقامی کاریگروں کی تخلیق کا نتیجہ ہے۔"

— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ
— فوٹو ابوبکر شیخ

پھر اگر قرآن شریف کی اُن آیتوں کو دیکھیں، اُن مختلف کتبوں کو دیکھیں جو مسجد کی تعمیرات کے حوالے سے تحریر کی گئی ہیں، تو خطِ نسخ، خط ثُلُث اور خط نستعلیق کی نزاکت، نفاست اور خوبصورتی آپ کی روح میں خوشبُو کی طرح بس جاتی ہے۔ جامع مسجد میں یہ تینوں خط استعمال ہوئے ہیں۔ مسجد میں جو نستعلیق کا خط ہے وہ اُس زمانے کے دو ماہر خطاط عبدالغفور اور عبداللہ کے قلم سے تحریر کیا ہوا ہے۔ خطِ ثُلُث کی تحریر طاہر اور بھنبھو کی اُنگلیوں کا کمال ہے، جب کہ خطِ نسخ، محمد فاضل اور عبدالقدوس کی کتابت ہے۔

سانس کی ڈوری بے وفا ہے کب، کس پل دھوکہ دے جائے یہ پتہ نہیں ہوتا۔ لوگ چلے جاتے ہیں، کام کہیں نہیں جاتا۔ عمل کو کسی نہ کسی حالت میں رہ جانا ہے۔ میں مسجد کے آنگن میں بیٹھ جاتا ہوں۔ ایک عجیب سا احساس کسی مہک کی طرح میرے چہار سُو پھیلا ہے، جس کو شاید الفاظ کا روپ میں نہ دے سکوں۔

مغرب کی طرف سُرخی اور میری آنکھوں میں نمی پھیلتی جا رہی ہے۔ میں دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھاتا ہوں۔ مسجد کے بننے کے پہلے لمحے سے آج تک جس نے بھی اس مسجد کی تعمیر اور خوبصورتی کے لیے سوچا اور کام کیا، جن لوگوں نے چاروں موسموں میں یہاں سخت محنت کی اور ایک مُقدس خوبصورتی کو جنم دیا، میری دعائیں ان سب کے لیے۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (14) بند ہیں

badtameez Mar 15, 2016 03:26pm
yekdem zaberdest
Qamar Haider - Jeddah Mar 15, 2016 04:07pm
SubhanAllah Masha'Allah JazakAllah Jeetay rahyey, salamat rahyey Sheikh saheb. Duago/Qamar Haider
Sajjad Khalid Mar 15, 2016 04:47pm
ہمیشہ کی طرح عمدہ معلوماتی تحریر۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا خطاطوں نے اپنے دستخط کیے ہیں یا یہ تفصیل آپ کو دانی صاحب کتاب سے ملی ہے۔ اسی طرح نقاشوں کے نام بھی کہیں محفوظ ہونے چاہئیں جن کی خبر آپ کے مضمون سے بھی نہیں مل سکی۔
Kamran Waheed Mar 15, 2016 04:50pm
آپ مسجد کی ناقابل یقین آواز کے نظام کے بارے میں کچھ بھی نہیں لکھا تھا، درخواست ہے کہ پر کچھ روشنی ڈالی
smazify Mar 15, 2016 05:29pm
بہت عمدہ ابو بکر بھائی۔ بہت اعلی
Abubakar Shaikh Mar 15, 2016 06:20pm
@Sajjad Khalid محترم سجاد خالد۔۔۔خطاطوں کے دستخط بالکل کتبوں پر موجود ہیں، میں نے ڈاکٹر دانی صاحب کا حوالہ دیا ہے۔ اور خود سائیٹ جاکر وزٹ کی ہے۔۔۔جامع مسجد پر ایک کتاب تحریر کی جا سکتی ہے۔۔۔اور یہاں ہم سارے حقائق کو تحریر کے دائرے میں اسلئے نہیں لاسکتے کہ، تحریر کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔۔۔۔۔مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ آپ نے بڑی باریک بینی سے تحریر کا مطالعہ کیا۔۔بہت بہت شکریہ ابوبکر شیخ/لکھاری
Qamar Haider - Jeddah Mar 15, 2016 06:33pm
SubhanAllah Masha'Allah JazakAllah khair
Akhtar Hafeez Mar 15, 2016 06:51pm
واہ واہ زبرست سائیں۔۔۔۔۔۔
Akhtar Hafeez Mar 15, 2016 06:52pm
واہ واہ زبردست سائیں۔۔۔۔ عالیشان تصاویر ہیں۔۔۔۔۔
Saeeda Sager Mar 15, 2016 07:21pm
سانس کی ڈوری بے وفا ہے کب، کس پل دھوکہ دے جائے یہ پتہ نہیں ہوتا۔ لوگ چلے جاتے ہیں، کام کہیں نہیں جاتا۔ عمل کو کسی نہ کسی حالت میں رہ جانا ہے۔ میں مسجد کے آنگن میں بیٹھ جاتا ہوں۔ ایک عجیب سا احساس کسی مہک کی طرح میرے چہار سُو پھیلا ہے، جس کو شاید الفاظ کا روپ میں نہ دے سکوں۔@@@ انتہائی خوبصورت عکاسی،ایک تقدس ہے جو یہ الفاظ پڑہتے ہوئے ہمارے دماغوں میں ابھر آتا ہے، یہ آپ کی ایک اور شاندار تحریر ہے،،،اللہ تبارک و تعالی آپ کو اور ہمت دے،،،لکھتے رہئے،،،نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں،،،،،،،،، سعیدہ
عثمان راہوکڑو Mar 15, 2016 09:44pm
یہ ایک دور کے فن کی ایسی نادر مسجد ھۓ، جس کو دیکھتے وقت عقل دنگ رھ جاتا ھۓ، ابوبکر کی تحریر اور تصاویر کا بھی کمال ھۓ، بہت خوبصورت تحریر ھۓ
Malik USA Mar 15, 2016 09:56pm
Excellent article Sheikh sb, Your article is eye opener. So many times you and other writer explore the Sindh old history. After reading these article and the photographs we wish that when the ruler of Sindh will open their eyes that Sindh has so many things to attract the tourist. Only they have to maintain these heritages and to maintain the law and order. Just we could dream that how many tourist will come to visit these places and we could imagine the economy will grow in this State. And Sindh would be the richest province of Pakistan. I think we could wish only.
غلام شبير لغاری Mar 15, 2016 09:57pm
حسب روایت ابوبکر شیخ کا آرٹیکل جو ٹھٹہ کی جامع مسجد پر لکہا ھۓ، اچھی الفاظوں میں اور عمدہ تصاویر کی ساتھ پڑھنے کو ملا، ابوبکر شیخ کی تحریر کا حسن ھۓ کے پڑھنے والا اس کی تحریر کے سحر سے نکل نہیں پاتا، ابوبکر کی کمال کی فوٹوگرافی قابل داد ھۓ،
Nasrullah Jarwar Mar 16, 2016 06:18am
محترم ابو بکر شیخ صاحب کی خوبصورت مسجد شاہجہان پر خوبصورت تحریر اور خوبصورت تصاویر شیخ صاحب کی تحریروں میں ویسے بہت شرینی ہے جو بہی شیخ صاحب کی تحریر ہے لاجواب اور تحقیقی اور انفارمیشن سے بہرپور ہے نصراللہ جروار سینئر جرنلسٹ ٹنڈہ باگہ