ورلڈ ٹی ٹوئنٹی: جن کی کمی شدت سے محسوس ہوگی
سال 2016ء میں دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا میلہ ہندوستان کے میدانوں پر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی صورت میں سج چکا ہے۔ دنیا کے تمام بہترین کھلاڑیوں کو ایک جگہ پر کھیلتے دیکھنے کے مواقع نادر ہوتے ہیں اور سالوں میں جا کر میسر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں کرکٹ پرستاروں کے ساتھ ساتھ خود کھلاڑی بھی ان مواقعوں کا شدت سے انتظار کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو زیادہ بڑے پیمانے پر دکھا سکیں۔ اب جبکہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی پہلے مرحلے کے ساتھ شروع ہوچکا ہے، چند کھلاڑی ایسے بھی ہیں کہ جو مختلف وجوہات کی بنیاد پر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی نہیں کھیل پائیں گے۔ یہ وہ کھلاڑی ہیں جن کی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء میں کمی شدت کے ساتھ محسوس ہوگی۔
برینڈن میک کولم
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے بے تاج بادشاہ، نیوزی لینڈ کے برینڈن میک کولم نے عجیب ہی فیصلہ کیا۔ انہوں نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے عین قبل بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہہ کر سب کو حیران کردیا۔ وہ اب بھی کافی کرکٹ کھیل سکتے تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آخری ٹیسٹ میں بھی انہوں نے تیز ترین سنچری کا نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔
لیکن وہ اپنی شرائط پر زندگی جینے والے کھلاڑی ہیں، اس لیے انہوں نے بُرا وقت آنے سے پہلے ہی عروج پر کرکٹ چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ میک کولم کی کمی سب سے زیادہ محسوس ہوگی، صرف نیوزی لینڈ کے کھلاڑیوں اور پرستاروں کو نہیں بلکہ ویسٹ انڈیز سے لے کر آسٹریلیا اور سری لنکا سے لے کر انگلستان تک پھیلے ان کے کروڑوں شائقین کو بھی۔
سعید اجمل
دنیائے باؤلنگ پر طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے سعید اجمل 2014ء میں اپنے باؤلنگ ایکشن کو مشکوک قرار دیے جانے کے بعد پابندی کا شکار ہوئے۔ ناقابل یقین محنت کے بعد اپریل 2015ء میں بحال تو ہوگئے لیکن نئے ایکشن کے ساتھ ویسی کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
ابھی پاکستان سپر لیگ میں انہیں خود کو ثابت کرنے کا ایک اور موقع ملا لیکن کوئی ایسی غیر معمولی کارکردگی نہیں دکھا سکے کہ جس کی وجہ سے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے ان کا انتخاب عمل میں آتا۔ یوں ایک عظیم اسپنر شاید ہمیشہ کے لیے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے باہر ہوگیا ہے اور واقعی ہمیں پرانے اور فتح گر سعید اجمل کی بہت یاد آئے گی۔
مچل اسٹارک
آسٹریلیا کا 26 سالہ تیز گیند باز، جس کا شمار بائیں ہاتھ سے خطرناک باؤلنگ کرنے والے کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ عالمی کپ 2015ء میں مچل اسٹارک نے 22 کھلاڑیوں کو میدان بدر کیا تھا اور ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء میں یہ متاثر کن باؤلر اپنے زخموں کی وجہ سے نہیں کھیل سکے گا۔ یہ نہ صرف آسٹریلیا بلکہ دنیا بھر میں پھیلے اسٹارک کے مداحوں کے لیے مایوس کن بات ہے۔
کیرون پولارڈ
ویسٹ انڈین آل راؤڈر کیرون پولارڈ کا نام ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے نامزد کھلاڑیوں میں شامل تھا مگر وہ خود دستبردار ہو گئے۔ وہ گزشتہ سال نومبر میں گھٹنے پر چوٹ لگنے کے بعد زخمی ہوگئے تھے اور ان کا کہنا ہے کہ صحت یابی میں ابھی تک خاطر خواہ پیشرفت نہیں ہوئی۔
پولارڈ محدود طرز کی کرکٹ کے موزوں ترین کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں۔ طوفانی بلے بازی اور کارآمد باؤلنگ کسی بھی مقابلے کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے، بس ویسٹ انڈیز اس بار ان کا فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔
مورنے مورکل
جنوبی افریقہ کے بہترین تیز باؤلر مورنے مورکل بدقسمتی سے اس مرتبہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ڈیل اسٹین، کائل ایبٹ اور کگیسو ربادا کے شانہ بشانہ باؤلنگ کرتے نظر نہیں آئیں گے۔ ڈیل اسٹین زخمی ہونے کی وجہ سے کافی عرصے سے مشکلات سے دوچار ہیں اور اب بھی اگر ان کی شرکت پر کوئی سوالیہ نشان لگتا ہے تو مورنے کو متبادل کے طور پر طلب کیا جا سکتا ہے۔ مورنے جیسے 'ورلڈ کلاس' کو باہر بٹھانے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جنوبی افریقہ کے پاس فاسٹ باؤلنگ کے وسائل کتنے زیادہ ہیں۔
سنیل نرائن
ویسٹ انڈیز کے سنیل نرائن بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی مشکوک باؤلنگ ایکشن کے باؤلرز کے خلاف "چھاپہ مار کارروائی" کا نشانہ بننے والوں میں سے ایک ہیں۔ گزشتہ سال نومبر میں شک کی نگاہوں میں آنے کے بعد سے اب تک وہ اپنے ایکشن کو بہتر بنانے میں خاطر خواہ پیشرفت نہیں کر سکے۔ یہاں تک کہ خود ہی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے منتخب دستے سے اپنا نام واپس لے لیا۔
ٹی ٹوئنٹی میں عالمی نمبر ایک رہنے والے سنیل کی اس اہم ٹورنامنٹ میں عدم موجودگی شدت سے محسوس کی جائے گی۔ خاص طور پر جبکہ یہ مقابلے بھی ہندوستان میں ہو رہے ہیں، جہاں وہ کھیلنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
اسٹورٹ براڈ
اسٹورٹ براڈ اس وقت اپنے کرکٹ کیریئر کے عروج پر ہیں، وہ اپنی شاندار گیند بازی کے ذریعے کسی بھی بیٹنگ لائن کے پرخچے اڑا سکتے ہیں مگر انگلستان نے انہیں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے موزوں نہیں سمجھا۔ بہرحال، اس کی وجہ جو بھی ہے، یہ بات یقینی ہے کہ اگر انگلستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو اسے براڈ کی کمی شدت کے ساتھ محسوس ہوگی۔ سابق انگلش کپتان ناصر حسین نے اپنے ایک کالم میں اس فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی سیدھی وکٹوں پر تجربہ کار اسٹورٹ براڈ کی ضرورت محسوس ہو گی۔
کمار سنگاکارا
دور جدید کے عظیم ترین بلے بازوں میں کمار سنگاکارا یقیناً سرفہرست ہوں گے۔ بائیں ہاتھ سے انتہائی دلکش بیٹنگ کرنے والے سنگاکارا کو حال ہی میں ہم نے پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی نمائندگی کرتے دیکھا تھا، جہاں انہوں نے فائنل میں 30 گیندوں پر شاندار 55 رنز بنائے تھے، جو اس بات کا ثبوت تھے کہ وہ اب بھی بہترین بلے باز ہیں۔
مگر ہم انہیں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء میں نہیں دیکھ سکیں گے، کیونکہ انہوں نے پچھلی بار سری لنکا کے عالمی ٹی ٹوئنٹی چیمپئن بنتے ہی اس طرز کی کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا تھا اور گزشتہ سال تمام طرز کی بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ ان کی عدم موجودگی میں سری لنکا جس طرح جدوجہد کرتا دکھائی دے رہا ہے، اس کے بعد تو سنگاکارا کی کمی مزید محسوس ہوگی۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر کرک نامہ ڈاٹ کام پر شائع ہوا، اور بہ اجازت یہاں دوبارہ شائع کیا گیا ہے.
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
تبصرے (2) بند ہیں