ہارون رشید کے بھونڈے تجربات
پاکستان کرکٹ میں ڈرامہ (یا کامیڈی کہہ لیں) کبھی ختم نہیں ہوگا، اور آخری قسط تو قہقہوں سے بھر پور تھی۔
احمد شہزاد جنہیں قومی سلیکٹرز نے کچھ ہی دن پہلے فارم میں نہ ہونے کی وجہ سے ٹیم سے خارج کردیا تھا اب کمر بستہ ہو کر ورلڈ ٹی20 کے لیے واپس آ گئے ہیں، جبکہ خرم منظور ماضی کا باب بن چکے ہیں۔
ایشیا کپ ٹی20 جیسے بڑے ٹورنامنٹ کے لیے شہزاد کی جگہ ناتجربہ کار خرم کو ترجیح دینے کی سنگین غلطی سے پیدا ہونے والے نتائج کی ''پوری ذمہ داری'' لیتے ہوئے چیف سلیکٹر ہارون رشید کہتے ہیں کہ فیصلہ ''مہنگا'' پڑا۔
اور یوں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی تقریباً ایسی تھی جیسے کہ کوئی اسکول ٹیم ہو۔
رہنے دیں ہارون صاحب۔ آپ کا 'معصومانہ' اعتراف نہ آپ کو اور نا ہی آپ کی ٹیم کو بنگلہ دیش میں ورلڈ ٹی 20 سے صرف چند دن قبل بدترین کارکردگی سے بری الذمہ قرار دلوا سکتا ہے۔
قومی چیف سلیکٹر کا عہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے ہارون کسی نہ کسی وجہ سے اس عہدے کے ساتھ بالکل بھی انصاف نہیں کر پائے۔
کبھی کبھی صرف ایک غلط انتخاب ٹیم کا توازن بگاڑ دیتا ہے۔ اگر تین بہترین بلے باز جلد ہی پویلین لوٹ جائیں، تو ظاہر ہے کہ ٹیم جلد ہی مشکل میں پڑ جائے گی۔ اور یہی پاکستان کے ساتھ بنگلادیش میں ہوا۔
اگر ہماری بیٹنگ لائن کھوکھلی ہے اور آسانی سے تباہ کی جا سکتی ہے، تو اکیلے محمد عامر ہمیں ہمیشہ میچ نہیں جتوا سکتے۔
بنا سوچے سمجھے خرم کو شامل کرنا، پھر ان کی ناکامی کے بعد ٹیم سے باہر کر دینا اور پھر ورلڈ ٹی20 کے لیے شہزاد کو واپس بلانا، یہ تمام صورتحال پاکستان کیمپ کے تذبذب کو واضح طور ظاہر کرتی ہے۔
اس سے سلیکٹرز کی شدید نااہلی بھی صاف ظاہر ہوتی ہے جنہوں نے آنے والے بڑے ٹی 20 ٹورنامنٹس کے لیے گذشتہ سال کھلاڑیوں کو بالکل بھی نہیں آزمایا تھا۔
اگر ہارون اور ان کی ٹیم ٹی 20 فارمیٹ میں غیر مقبول خرم کے نام پر غور کر رہے تھے تو یہ انتہائی غیر پیشہ وارانہ عمل ہے کہ انہوں نے ایک اوپنر کو میچ میں کھلانے کا موقع فراہم نہیں کیا۔
جب خرم کو معلوم ہوا کہ اسکواڈ میں ان کا بھی نام ہے، تو وہ حیران رہ گئے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 29 سالہ کھلاڑی کو خود کو ذہنی طور پر تیار رہنے کے لیے خبردار نہیں کیا گیا تھا۔
اتنی ہی حیران کن شہزاد کی واپسی ہے جنہیں بہتر فارم میں نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ایشیا کپ ٹی 20 اور ورلڈ ٹی 20 سے باہر کردیا گیا تھا۔ انہیں عالمی ایونٹ کے لیے ٹیم میں واپسی پر خود کو انتہائی خوش قسمت سمجھنا چاہیے، اور وہ نئے جذبے اور بہترین کارکردگی کے ساتھ نقصان کی تلافی کرسکتے ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ ایشیا کپ ٹی 20 میں تباہ کن ناکامی سلیکشن میں ہونے والی بے پناہ بے قاعدگیوں کا بد ترین نتیجہ ہے۔
کیا پاکستانیوں کو شاہد آفریدی کی کپتانی میں ایشیا کپ سے شرمناک طریقے سے باہر ہونے پر افسردہ ہونا چاہیے؟ یقیناً اگر کرکٹ پرستاروں کو حالیہ وقتوں کی کرکٹ کی صورتحال کی آگہی ہے تو انہیں اس پر کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔
جب ہماری ٹیم نے متحدہ عرب امارات کو بمشکل شکست دی تو ہم نے سکھ کا سانس لیا تھا، مگر جلد ہی بنگلہ دیش کی ٹیم نے زبردست کھیل پیش کرتے ہوئے ہمیں چت کر دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری ٹیم مسلسل تباہی کا شکار رہی تھی۔
اگر صرف ٹی20 فارمیٹ کی بات کریں، تو شاید سلیکشن کی تمام بے قاعدگیوں کا احاطہ کرنا شاید ناممکن ہے، کیوں ان کی تعداد کافی زیادہ ہے اور ان کے طریقہء کار اور شدت بھی الگ الگ ہیں۔
گذشتہ سال بنگلادیش نے پاکستان کو ڈھاکہ میں ٹی 20 میچ میں شکست دے کر حیران کردیا تھا۔ ہمیں اس شکست کے بعد جاگ جانا چاہیے تھا لیکن ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اور نتیجتاً گذشتہ سال امارات میں دوبارہ فارم میں آچکی انگلینڈ ٹیم کے ہاتھوں 0-3 سے وائٹ واش؛ سال کے اوائل میں نیوزی لینڈ کے خلاف پہلا میچ جیتنے کے بعد مخالف ٹیم کی عمدہ صلاحیتوں کی وجہ سے پاکستان کی 2-1 سے شکست؛ اور اب ایشیا کپ میں ناکامی۔
ہارون اور ان کی ٹیم کے پاس کوئی وژن نہیں ہے، اور یہ بات ان کے غلط فیصلوں سے ظاہر ہے۔ یا شاید یہ کہنا بھی ٹھیک ہوگا کہ ہماری ٹیم کی سلیکشن میں آپ کو منطق، میرٹ اور استقامت بہت کم ہی دیکھنے کو ملے گی۔
کمزور بیٹنگ کافی عرصے سے ہمارے لیے سر درد بنی ہوئی ہے خاص طور بات جب مشکل پچ کی ہو، تو سلیکٹرز کو اپنا کام تھوڑا سمجھ بوجھ کے ساتھ کرنا چاہیے مگر بدقسمتی کے ساتھ ابھی تک ایسا کچھ ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہا ہے۔ اور کچھ دن قبل ٹی 20 ٹیم سے حاصل ہونے والے نتائج اس بات کا واضح اور پختہ ثبوت ہیں۔
جلد باز اور ناقابلِ بیان فیصلے موجودہ سلیکشن کمیٹی کا خاصہ ہیں۔
شہزاد اور خرم کی سلیکشن کی غلطی کے علاوہ ایشیا کپ کے حوالے سے سلیکٹرز کے کچھ اور متنازعہ فیصلوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
اوپنر شرجیل خان اور آل راؤنڈر محمد نواز کو محض پاکستان سپر لیگ میں ان کی کارکردگی کی بنیاد پر جلد بازی میں ٹیم میں شامل کیا گیا جو سلیکٹرز کو بہت مہنگے پڑا۔
تیزی سے نکھرتے وکٹ کیپر اور بیٹنگ محمد رضوان کو اچانک ٹیم سے نکالنا اور افتخار احمد کو شامل کرنا بھی کسی جھٹکے سے کم نہیں تھا۔
دلچسپ طور پر، ایک 'غیر معمولی طور پر غیر معمولی' کیس میں ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ ہمارے سلیکٹرز اور ٹیم انتظامیہ عمر اکمل کو ابھی اور کتنے میچز میں کھلانے کے لیے تیار ہیں — 'لافانی' عمر اکمل — جو کمزور مخالفین کے خلاف بہتر کارکردگی پیش کرتے ہیں اور مشکل وقت میں ذرا بھی کام نہیں آتے۔
اور سلیکٹرز شاید یہ سوچ رہے ہوں گے کہ 35 سالہ محمد سمیع — جنہیں بین الاقوامی ٹی 20 میں بہترین ریکارڈ رکھنے والے عمر گل پر ترجیح دی گئی تھی — نے اب تک بین الاقوامی مقابلوں کا دباؤ برداشت کرنا سیکھ لیا ہے اور ورلڈ ٹی 20 میں ضرورت پڑنے پر ان کا استعمال کیا جا سکے گا۔
بہتر بالنگ اٹیک رکھنے والی ٹیموں کے پاس جیت کے بہتر مواقع موجود ہوتے ہیں۔ مگر فاسٹ باؤلرز محمد عامر، محمد عرفان اور وہاب ریاض شیر بنگلہ نیشنل اسٹیڈیم کی فاسٹ باؤلرز کے لیے مددگار پچ پر بھی حیران کن طور پر میچ جتوا نہیں پائے۔
اس حقیقت کہ 'ٹیم کی سلیکشن میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل تھے' پر نظر ڈالیں تو آفریدی اور وقار یونس کو بھی ٹیم کی خراب کارکردگی پر آڑے ہاتھوں لینے کی ضرورت ہے۔
گذشتہ سالوں کے بوم بوم بوائے آفریدی کا ذکر کیے بغیر ناکامیوں کی یہ تشخیص بلاشبہ ادھوری ہوگی۔
اعداد و شمار بہت سی چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جب بھی ٹیم سنگین صورتحال سے نمٹ رہی ہو، تو مشکل میں گھرے کپتان اپنے ہی بیٹ کو اپنے لیے خودکشی کا ہتھیار بنا لیتے ہیں، جس وجہ سے ٹیم نہ صرف کئی میچز ہار چکی ہے، بلکہ ان کے کئی جذباتی مداح بھی ان کے خلاف ہو گئے ہیں۔
ان کے مداح اب ان کے جارحانہ کھیل سے بیزار ہوچکے ہیں جو گذشتہ 4 ماہ کے دوران نہ صرف انہیں بلکہ ان کی ٹی 20 ٹیم کو بھی کوئی حوصلہ افزاء نتائج نہیں دے سکا ہے۔
آفریدی کے پرستار جانتے ہیں کہ وہ بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں — انہوں نے ماضی میں کئی مواقع پر انتہائی پریشر میں زبردست کارکردگی دکھائی ہے — اگر وہ ٹی 20 مقابلوں میں ابتدائی اوورز میں تھوڑا سنبھل کر کھیلیں۔ بدقسمتی کے ساتھ کئی مواقع پر ایسا نہیں ہوسکا ہے اور اب اس وجہ سے ٹیم کو بہت نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
اپریل 2015 سے لے کر اب تک ٹی 20 انٹرنیشنل میں آفریدی کی خراب بیٹنگ اور باؤلنگ (16 میچ، 173 رنز، اوسط 12.35، زیادہ سے زیادہ 45، 12 وکٹیں، اوسط 33.41) پر نظر ڈالیں تو آپ کو اس بات پر مزید کسی توجیہہ کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ کرکٹ پر گہری نظر رکھنے والے لوگ کیوں 36 سالہ کھلاڑی کی ریٹائرمنٹ کے حامی ہیں۔
اگر سلیکٹرز کو 15 رکنی ٹیم کے انتخاب کے لیے ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے، تو کھیلنے والے 11 کھلاڑیوں کا انتخاب ٹیم انتظامیہ کی ذمہ داری ہے جس میں کپتان ہی سربراہ ہوتا ہے۔
اور اگر یہی کافی نہیں تھا، تو آفریدی کی ورلڈ ٹی 20 کے بعد 'ریٹائرمنٹ کے فیصلے پر دوبارہ غور' کرنے کی پیشکش نے ان پر بہترین کارکردگی دکھانے کے لیے پریشر بڑھا دیا ہے، جس کا ثبوت ایشیا کپ میں ان کی بدترین کارکردگی ہے۔
اب جبکہ ایشیا کپ 2016 تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، تو آفریدی کو ورلڈ ٹی 20 میں اپنا بیس سالہ بین الاقوامی تجربہ استعمال کرنا ہوگا۔ شاید یہ ان کا آخری بین الاقوامی مقابلہ ہو جیسا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ چیئرمین شہریار خان نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں واضح طور پر کہا تھا۔
آفریدی کا مثبت رویہ میگا ایونٹ میں ان کی شکستہ ٹیم کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہوگا۔ تمام کھلاڑیوں کو ماضی، بالخصوص ماضی قریب کو بھول کر اپنی آج تک کی بہترین کارکردگی دکھانی ہوگی۔
امید ہے کہ ہمارے سلیکٹرز، کپتان اور ہیڈ کوچ اپنے منصوبوں اور اقدامات کا دوبارہ جائزہ لیں گے، اور ایسے فیصلے لیں گے جو مکمل طور پر ٹیم کے مفاد میں ہوں۔ ورنہ پاکستان کو ایشیا کپ میں جو صدمہ پہنچا ہے، وہی ورلڈ ٹی 20 میں بھی پہنچے گا، اور آئندہ بھی۔
تبصرے (1) بند ہیں