ہائے ری عورت
خواتین، جو کہ انسانی آبادی کا نصف حصہ ہیں، انہیں ہمارے معاشرے مییں عمومی طور پر صنف نازک کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ ان کے متعلق رائے عامہ یہ ہے کہ یہ کمزور ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہوتی ہیں۔
فرسودہ سماجی روایات میں جکڑے ہوئے بیمار ذہن لوگ عورت کو کمتر ثابت کرنے کے لیے کہیں احادیث کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں تو کہیں قرآنی آیات کا مفہوم اپنی عقل کے مطابق لوگوں کو سمجھاتے نظر آتے ہیں۔
ایک بات جو وہ نہیں بتاتے، وہ یہ کہ اسلام نے عورت کو حقوق کتنے دیے ہیں۔ ہاں یہ بات ضرور بتاتے ہیں کہ عورت پر پابندیاں کتنی ہیں اور اس کے لیے احکامات کتنے ہیں۔
سماج میں مردوں کی حاکمیت کے باعث انہیں ہر جگہ جنسی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گھر سے نکلنےسے لے کر کالج، یونیورسٹی اور دفتر تک پہنچنے تک سڑکوں پر، بسوں میں، ہر جگہ ان کا یوں بغور جائزہ لیا جاتا ہے جیسے کوئی عجوبہ گزر رہا ہو۔
ایسے سماجی رویوں کی وجہ سے جب کوئی بیٹی نوکری کرنے کی بات کرتی ہے تو ردِعمل یہی ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، کیسے آؤ گی، کیسے جاؤ گی، حالات ٹھیک نہیں، زمانہ خراب ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ورکنگ ویمن کے بارے میں آراء قائم کی جاتی ہیں اور انہیں ایسے دیکھا جاتا ہے جیسے کام کرنا ان کا حق نہیں، جبکہ وہی خواتین روز مرہ کے گھریلو کام کاج میں مصروف رہیں تو خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ دیکھو کتنی 'سگھڑ' ہے پورا گھر سنبھالا ہوا ہے۔
ان تمام معاشرتی پابندیوں اور پاکستان کے ایک اسلامی ملک ہونے کے باوجود عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور گینگ ریپ جیسے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، اور پہلے اِکا دُکا نظر آنے والے یہ واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں، اور اب اس سے معصوم بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہم ان واقعات سے کب تک چشم پوشی کیے رکھیں گے؟
پڑھیے: قتل تنازع حل کرنے کیلئے 9 سالہ بچی ’ونی‘
کب تک ہمارے پاس ہونے والی جنسی زیادتیوں کی تعداد کے مقابلے میں امریکا اور انڈیا میں ہونے والی زیادتیوں کی تعداد گنواتے رہیں گے؟ بھئی انڈیا میں ہزار ریپ ہوتے ہیں، ہوتے ہوں، آپ اپنے معاشرے کی فکر کیوں نہیں کر سکتے؟ آپ یہ کیوں نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں ہمارے پاس ایک ریپ بھی قبول نہیں۔
آپ لاکھ شرمین عبید کو برا بھلا کہہ لیں کہ انہوں نے فلم بنا کر پاکستان کا منفی چہرہ پیش کیا ہے، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا شرمین نے اپنی فلم میں جھوٹ دکھایا ہے؟ کیا یہ وہی ملک نہیں جہاں جرگے تصفیے کے لیے فریقِ مخالف کی خواتین سے اجتماعی زیادتی کا حکم دیتے ہیں؟ کیا یہ وہی ملک نہیں جہاں بچیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا ہے اور صوبائی وزیر اس پر یہ کہتا ہے کہ یہ ہماری 'روایات' ہیں؟ کیا یہ وہی ملک نہیں جہاں سابق وفاقی وزیرِ تعلیم جرگے کی سربراہی کرتے ہوئے لڑکیوں کو ونی کرنے کا حکم دیتا ہے؟
ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسے فیصلے کرنے والے آزاد ہیں، اور 'معزز' کہلواتے ہیں، جبکہ ان فیصلوں کا نشانہ بننے والے 'بدنامی' کے ڈر سے خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔
پڑھیے: 'غیرت' کے نام پر سات سال میں تین ہزار قتل
شرمین عبید چنائے کی فلم اے گرل ان ریور میں جس صباء کے واقعے کا ذکر کیا گیا، کیا وہ پاکستانی حکمرانوں کے علم میں نہیں تھا؟ کیا تیزاب پھینکنے کے واقعات، برہنہ کرنے، ونی، کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل وغیرہ جیسے واقعات وہ نہیں جانتے کہ اس اکثریتی دیہی آبادی والے ملک کے معاشرے میں عام ہیں؟
وہ سب جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ انہیں کرنا کیا ہے لیکن کرتے نہیں۔ اب سنا ہے کہ فلم ریلیز ہونے کے بعد حکومت غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے خلاف قانون بنانے کی تیاری کر رہی ہے۔ مطلب یہ طے ہے کہ کوئی جگائے گا تب ہی جاگنا ہے۔
میں نے پاکستان کے گاؤں دیہاتوں میں دیکھا ہے کہ تمام مرد چارپائی پر بیٹھتے ہیں اور خواتین زمین پر بیٹھتی ہیں۔ مجال ہے جو گھر کے مرد کے سامنے وہ بھی چارپائی ہر بیٹھ جائیں۔ آج بھی دیہاتوں میں بہن اس وقت تک بھوکی رہتی ہے جب تک پہلے بھائی کھانا نہ کھا لے۔
گذشتہ دنوں پنجاب میں خواتین پر تشدد کے خلاف ایک بل پاس کیا گیا تو تنگ نظر لوگ اس پر بھی سراپا احتجاج بن گئے۔ لیکن کیوں کیا اس سے ان کی بہن بیٹی کو تحفظ حاصل نہیں ہوگا؟ یا تو اس پر صرف وہ لوگ ہی احتجاج کر رہے ہیں جو صرف شوہر ہیں، نہ باپ ہیں بیٹی کے نہ بھائی ہیں بہن کے۔ آخر کون لوگ ہو سکتے ہیں جو اپنی بیٹی اور بہن پر تشدد کے خلاف پاس ہونے والے قانون کی مخالفت کر سکتے ہیں؟
مزید پڑھیے: علامہ طاہر اشرفی کی تحفظِ خواتین بل کی حمایت
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر صرف لفاظیوں، ریلیوں اور سیمیناروں سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ معاشرے میں خواتین کے اہم مقام کو کھلے دل کھلے ذہن سے تسلیم کرنا ہوگا۔
اس مقصد کے لیے قوانین سازی نہایت ضروری ہے۔ حکومت نے اس سلسلے میں خوش آئند اقدامات اٹھانے شروع کیے ہیں، لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں۔ مسئلے کا حل قوانین پر سختی سے عملدرآمد ہی ہے۔ تب ہی خواتین پر ہاتھ اٹھانے والے، تیزاب پھینکنے والے، جنسی زیادتی کرنے والے، ہراساں کرنے والے اپنے ان مکروہ اعمال سے باز رہ سکیں گے۔
ورنہ یہی دن ہوگا اور سال 2026، ہم وہیں کے وہیں ہوں گے جہاں 2016 میں ہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں