پاکستان کی 12 باصلاحیت خواتین
آج 8 مارچ ہے، خواتین کا عالمی دن! لیکن 28 فروری 1909 کو جب خواتین کا پہلا عالمی دن منایا گیا تو اُس وقت خواتین کو امریکا سمیت زیادہ تر ملکوں میں ووٹ ڈالنے کا حق بھی نہیں تھا.
یاد رہے کہ خواتین کا پہلا عالمی دن 1908 میں ہونے والے انٹرنیشنل خواتین گارمنٹس ورکرز یونین کے احتجاج کی یاد میں منایا گیا تھا.
کئی سالوں بعد 1977 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے خواتین کا عالمی دن 8 مارچ کو منانے کا اعلان کردیا. اب ہر سال اس دن خواتین کی سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی کامیابی کا جشن منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ان تمام شعبوں میں خواتین کی پیش رفت کی ضرورت ہے، اگرچہ خواتین نے بہت کچھ حاصل بھی کرلیا ہے، جس کی وجہ ان کی محنت، مہارت اور عزم ہے۔
آج ہم پاکستان کی کچھ خواتین کی کامیابیوں کا جشن منائیں گے جن پر پاکستان کو فخر ہے۔ اس فہرست میں چند خواتین کا نام شامل کیا گیا ہے، تاہم وہ خواتین جن کا نام جگہ کی تنگی کے باعث شامل نہیں کیا جاسکا ہماری تعریف اور فخر کی قابل ہیں۔ سچ تو یہ ہے، پاکستان اور دنیا بھر کی تمام خواتین نے دنیا کو ایک بہتر جگہ بنایا ہے۔
ارفع کریم رندھاوا
ارفع کو سب ہی جانتے بھی ہوں گے اور انہیں ارفع یاد بھی ہوں گی۔
یہ وہ لڑکی ہے جس نے 2004 میں سب سے کم عمر مائیکروسافٹ سرٹیفائڈ پروفیشنل کا خطاب حاصل کرکے دنیا کو حیران کردیا تھا۔
وہ لڑکی جس نے سب سے کم عمر صدراتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی حاصل کرنے کے ساتھ پاکستان اور دوسرے ممالک میں متعدد ایوارڈز حاصل کیے۔
ارفع نے متعدد بین الاقوامی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کی۔
ایک ایسی لڑکی جس کا مستقبل بہت روشن تھا لیکن وہ ہم سب کو صرف 16 برس کی عمر میں 14 جنوری 2012 کو چھوڑ کر اس دنیا سے گزر گئی۔
ارفع اُس ستارے کی طرح تھی جو خود تو بہت کم عرصے کے لیے چمکی لیکن اس کی روشنی آج بھی متاثر کن ہے۔
ارفع تمہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا!
عائشہ فاروق
28 سالہ عائشہ فاروق پاکستان اور جنوبی ایشیا کی پہلی فائٹر پائلٹ ہیں۔ بہاولپور سے تعلق رکھنے والی عائشہ پاکستان ایئر فورس کے لیے چینی کمبیٹ F-7PG طیاروں پر پرواز کرتی ہیں۔
تین سال کی عمر میں والد کو کھو دینے کے بعد، عائشہ نے اپنی والدہ کو ہمیشہ ایک رول ماڈل کے طور پر دیکھا اور پرواز کے لیے ان کی چاہت میں اضافہ اپنے انکل اور کزن کو دیکھ کر ہوا جو پاکستان ایئرفورس میں تھے۔
عائشہ نے سخت عملی اور جسمانی ٹریننگ حاصل کرکے دکھایا کہ خواتین کچھ بھی کر سکتی ہیں۔ عائشہ کا نوجوان لڑکیوں کو مشورہ ہے کہ’ کسی رول ماڈل کو دیکھنے کے بجائے خود ایک رول ماڈل بن جانا چاہیے‘۔
پاکستان ایئر فورس میں گزشتہ دہائی سے تقریباً 19 خواتین پائلٹ ٹریننگ حاصل کر رہی ہیں، جن میں پانچ فائٹر پائلٹ ہیں لیکن اب تک وہ کمبیٹ پرواز کرنے کی ٹریننگ حاصل کر رہی ہیں۔
نسیم حمید
جب نسیم حمید کو 2010 میں ساﺅتھ ایشین گیمز میں جنوبی ایشیاء کی تیز ترین خاتون کا اعزاز حاصل ہوا تو اُس وقت اُن کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ 22 سالہ ایتھلیٹ نے سو میٹر کا فاصلہ صرف 11.81 سیکنڈز میں طے کرکے بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں ہونے والے مقابلوں میں طلائی تمغہ جیتا تھا.
کراچی سے تعلق رکھنے والی اس لڑکی کا گمنامی سے شہرت کی جانب سفر کا آغاز اسکول اور کالج میں پہنچنے کے بعد ہوا، جب اس کی ایتھلیٹکس میں دلچسپی اور صلاحیت بڑھی۔ اُس وقت تک نسیم کا انحصار صرف اپنی سخت محنت، عزم اور صلاحیت پر تھا تاکہ وہ ایتھلیٹ کی حیثیت سے ابھر سکیں تاہم وہ مناسب کوچنگ یا کٹ کا بوجھ نہیں اٹھاسکتی تھیں۔
آخرکار ایک کالج ایونٹ کے دوران آرمی کوچز کی نگاہ نسیم پر ٹھہری اور انھیں تربیت کے لیے آرمی گراﺅنڈ کو استعمال کرنے کی اجازت مل گئی۔ متعدد مقامی ایونٹس میں شاندار کارکردگی پر نسیم کو پاکستان ریلویز سے کانٹریکٹ ملا اور پھر اس ابھرتی ہوئی اسٹار کو سیف گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملا اور جنوبی ایشیاء کی تیز ترین خاتون کی حیثیت سے ان کا نام ریکارڈ بکس کا حصہ بن گیا۔
شہرت نے اُن کے لیے مالی محاذ پر کچھ آسانی پیدا کردی اور انھیں مشق اور اپنی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے معاونت ملی مگر یہ شہرت نسیم کو مغرور نہیں بناسکی اور اپنے جیسے دیگر ایتھلیٹس کے خواب پورا کرنے کے لیے انھوں نے نسیم حمید اسپورٹس اکیڈمی قائم کی جہاں نوجوان ایتھلیٹس کو تربیت فراہم کی جاتی ہے۔
شرمین عبید چنائے
صحافی، سماجی کارکن اور فلمساز شرمین عبید چنائے نے پاکستان کے لیے دو آسکر ایوارڈز جیت کر ہمیں فخر کا موقع دیا ہے۔ شرمین کی ڈاکیومینٹریز 'سیونگ فیس' (2002) تیزاب کے حملے سے متاثرین کی کہانی تھی جبکہ 'اے گرل ان اے ریور: دی پرائس آف فار گیونس' (2015) غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے تھی.
دونوں متنازع موضوعات ہیں مگر انہوں نے 'بیسٹ ڈاکومینٹری شارٹ سبجیکٹ' میں آسکر ایوارڈ اپنے نام کیے۔ شرمین عبید چنائے نے کراچی گرامر اسکول سے اے لیولز تک تعلیم حاصل کی جس کے بعد اسمتھ کالج، امریکا سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ وطن واپسی کے بعد انہوں نے متعدد اخبارات کے لیے لکھا اور بحیثیت فلمساز کیریئر کا آغاز کیا۔
وہ اُن گیارہ خواتین ڈائیریکٹرز میں سے ایک ہیں جنھوں نے نان فکشن فلم پر آسکر جیت رکھا ہے۔
آسکر کے ساتھ ساتھ شرمین نے دو ایمی ایوارڈز بھی جیتے ہیں، جبکہ وہ 2012 میں ٹائم میگزین کی دنیا کے سو بااثر ترین افراد کی فہرست میں بھی شامل تھیں۔ انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے بھی 2012 میں 'ہلال امتیاز' کا اعزاز دیا گیا۔
ماریہ طور پکئی وزیر
'میں ایک جنگجو ہوں، میں پیدائشی جنگجو ہوں ، میری موت بھی ایک جنگجو کی طرح ہوگی'۔ ان الفاظ کے ذریعے 25 سالہ پاکستانی اسکواش کھلاڑی ماریہ طورپکئی نے اپنی شخصیت کی وضاحت بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کی۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی اس جنگجو نے نوعمری سے ہی اپنے آبائی علاقے میں لڑکیوں پر نافذ کی جانے والی پابندیوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ وہ ایک لڑکے جیسے انداز، ملبوسات اور مختصر بالوں کے ساتھ لڑتی جھگڑتی اور کھیلوں کا حصہ بنتی تھیں۔
ان کے خاندان نے کھیلوں میں ماریہ کی دلچسپی کی حمایت کی اور ان کے والد نے لڑکیوں پر روایتی پابندیوں سے بچنے کا ایک طریقہ اپنی بیٹی کو ایک لڑکے کی شکل میں پیش کرکے نکالا جس سے ماریہ کو کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت میں مدد ملی۔ بارہ سال کی عمر میں ماریہ نے جونیئر ویٹ لفٹنگ ٹورنامنٹ میں 'چنگیز خان' کے نام سے شرکت کرکے جیتا۔
اُس وقت ماریہ کو اسکواش سے اپنی محبت کا احساس ہوا اور والد نے پریکٹس کے لیے بیٹی کا داخلہ پشاور کی ایک اکیڈمی میں کروا دیا جہاں وہ لڑکے کے روپ میں تھیں، لیکن یہ فریب زیادہ لمبے عرصے تک نہیں چل سکا اور جلد ہی سب کو معلوم ہوگیا کہ چنگیز درحقیقت ماریہ ہے۔ اس کے بعد ماریہ کو اکیڈمی میں مذاق کا نشانہ بنایا جانے لگا جبکہ گھر والوں کو علاقے میں ہراساں کیا گیا، مگر جتنا زیادہ ماریہ کو تنگ کیا گیا، اتنی ہی زیادہ انھوں نے پریکٹس اور سخت محنت کی اور نیشنل جونیئر چیمپئن شپس جیتنا شروع کردیں اور 2006 میں وہ پروفیشنل سرکٹ کا حصہ بن گئیں۔
اگلے سال انہیں اُس وقت کے صدر پاکستان کی جانب سے سلام پاکستان ایوارڈ سے نوازا گیا جبکہ ویمن انٹرنیشنل اسکواش پلیئرز ایسوسی ایشن کی جانب سے ینگ پلیئر آف دی ایئر کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔
بتدریج خطرات سنگین ہوتے گئے اور ماریہ نے اکیڈمی میں پریکٹس روک دی۔ انہوں نے اپنے کمرے میں پریکٹس شروع کردی اور بیرون ملک کلبوں، اکیڈمیوں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو ای میلز بھیجنا شروع کردیں تاکہ باہر جاکر وہ محفوظ ماحول میں پریکٹس کرسکیں۔
ایک ای میل سابق اسکواش کھلاڑی جوناتھن پاور کو بھیجی گئی جو ماریہ کی صلاحیت اور عزم سے متاثر ہوئے، جس کے بعد انہوں نے 2011 میں پاکستانی کھلاڑی کو کینیڈا میں اپنی اکیڈمی میں تربیت کی پیشکش کی۔ ماریہ اس وقت کینیڈین شہر ٹورنٹو میں مقیم اور تربیت حاصل کررہی ہیں، جبکہ پاکستان کی ٹاپ خاتون اسکواش کھلاڑی ہیں جو عالمی درجہ بندی پر 49 ویں نمبر پر موجود ہیں۔
ملالہ یوسف زئی
ملالہ اس وقت دنیا بھر میں پاکستان کی سب سے مقبول نوجوان خاتون ہیں۔ سوات سے تعلق رکھنے والی وہ لڑکی جو اُس وقت اسکول جانا چاہتی تھی جب لڑکیوں پر اسکول جانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ ملالہ نے بی بی سی کو لکھے اپنے ایک بلاگ سے مقبولیت حاصل کی۔
ملالہ نے اسکول جانا شروع کیا لیکن اسی دوران ان پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوگئیں، لیکن ملالہ اس حادثے میں سلامت رہیں، اب وہ برطانیہ میں رہتی ہیں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ اپنی کوششوں کے باعث وہ نوبل انعام حاصل کرنے والی سب سے کم عمر لڑکی قرار پائیں۔ انہیں یہ ایوارڈ دسمبر 2014 کو دیا گیا تھا۔
مہک گل
مہک 15 سالہ پاکستانی شطرنج کی کھلاڑی ہیں جنہوں نے 6 سال کی عمر میں شطرنج کھیلنا شروع کیا، جس کے بعد سے آج تک وہ پاکستان اور دوسرے ممالک میں اس کھیل میں حصہ لے رہی ہیں۔
12 سال کی عمر میں مہک ورلڈ چیس اولمپک میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی سب سے کم عمر کھلاڑی تھیں جس کے ساتھ ہی وہ اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی لکھوا چکی ہیں۔
یہ چیمپیئن بہت جلد اپنے والد اور کوچ محمد زاہد کی رہنمائی میں شطرنج کی گرینڈ ماسٹر بننے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ہمیں امید ہے ایسا بہت جلد ہوگا۔
نمیرا سلیم
کراچی سے تعلق رکھنے والی نمیرا سلیم پہلے متحدہ عرب امارات اور پھر موناکو میں مقیم رہیں. ایک بہادر، پیشہ ور خلاباز، آرٹسٹ اور ان کے اپنے الفاظ میں ایک عالمی شہری ہیں۔
اپریل 2007 میں قطب شمالی پر پہنچنے والی وہ پہلی پاکستانی تھیں۔ کچھ ماہ بعد جنوری 2008 کو وہ جنوبی قطب پہنچنے والی پہلی پاکستانی بھی قرار پائیں۔ انہوں نے دونوں مقامات پر پاکستان کا جھنڈا بھی لہرایا۔
اُن کے ایڈونچرز مزید جاری رہے اور 2008 میں وہ ماؤنٹ ایورسٹ پر اسکائی ڈائیو کرنے والی پہلی پاکستانی کے ساتھ ساتھ پہلی ایشین بھی بن گئیں۔
2011 میں نمیرا نے تمغہ امیتیاز بھی حاصل کیا اور اسی سال وہ موناکو میں پاکستان کی پہلی اعزازی قونصل بھی قرار پائیں۔
صابیہ ابت
صابیہ ہری پور سے تعلق رکھنے والی ایک سائیکلسٹ ہیں، جنہوں نے اپنے نانا نانی کے گھر اپنے ماموں سے اس کی ٹریننگ لینا شروع کی، تاہم بڑے ہونے کے بعد بھی خوف کے باعث وہ گھر کے باہر سائیکل نہیں چلا سکتی تھیں تاہم 2 سال کے اندر اندر 2013 میں انہوں نے نیشنل سائیکلنگ چیمپئن شپ کا خطاب جیت کر سب کو حیران کردیا تھا۔
ان کے عزم کو دیکھ کر سائیکلنگ فیڈریشن نے صابیہ کو ٹریننگ میں مدد دی اور وہ قومی، صوبائی اور آرمی کی ٹیم کی رکن بھی بن گئیں۔ صابیہ کو صرف اپنی فیملی ہی نہیں اپنے شوہر کی بھی مکمل سپورٹ ملی، جس سے وہ اپنے خوابوں کو پورا کرسکیں اور انہوں نے انٹرنیشنل سائیکلنگ ایونٹس میں بھی حصہ لیا.
زینتھ عرفان
زینتھ عرفان لاہور سے تعلق رکھنے والی 21 سالہ طالبہ ہیں، جنہوں نے لاہور سے آزاد کشمیر تک 6 روز میں بائیک پر اکیلے سفر کرکے سب کو حیران کردیا۔ اس سفر کا اعلان انہوں نے گزشتہ سال اپنے فیس بک پیج پر کیا تھا اور ثابت کردیا کہ ایسا کچھ نہیں جو ایک لڑکی نہیں کر سکتی۔
اپنی والدہ کی حوصلہ افزائی پر زینتھ نے 2013 میں بائیک چلانا سیکھی جب ان کا چھوٹا بھائی اسے گھر لے کر آیا۔ یہ زینتھ کے والد کا خواب تھا کہ وہ ایک موٹر بائیک پر دنیا کی سیر کریں اور اس نے ہی زینتھ کو متاثر کیا۔ انہیں امید ہے کہ وہ ایک دن ایسا ضرور کریں گی۔
ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں ہم زینتھ کے مزید سفر کی خبریں سنیں گے۔
نرگس ماولوالا
بین الاقوامی خبروں میں جگہ بنانے والی کئی خواتین میں سے ایک فلکی طبیعیات دان نرگس ماولوالا بھی ہیں۔ میساچوسٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں شعبہ طبیعیات کی سربراہ ماولوالا سائنسدانوں کی اُس ٹیم کی ایک رکن تھیں، جنھوں نے خلاء میں کشش ثقل کی لہروں کی موجودگی سے متعلق آئن اسٹائن کے نظریئے کو درست ثابت کیا.
ڈاکٹر ماولوالا امریکا کے سائنس دانوں کے ہمراہ کام کر رہی ہیں۔ امریکا جانے سے قبل انہوں نے کراچی میں موجود کانونٹ جیسز اور میری میں تعلیم حاصل کی۔
منیبہ مزاری
منیبہ مزاری ایک لکھاری، فنکار، اسپیکر، سرگرم کارکن اور ٹی وی اینکر ہیں اور معذوری بھی انہیں کبھی کامیابی سے نہیں روک پائی۔
2007 میں ہونے والے ایک کار حادثے میں منیبہ کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی تھی، اس وقت ان کی عمر صرف 21 سال تھی۔ اس حادثے میں منیبہ نے اپنے چلنے کی صلاحیت تو کھو دی لیکن اپنا عزم اور حوصلہ نہیں کھویا۔ اس دوران وہ فنون لطیفہ کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور انہوں نے اپنا ذاتی برانڈ 'منیبہ کینوس' بھی قائم کیا۔
منیبہ نے یہ ثابت کیا کہ طاقت روح میں موجود ہے اور حدود صرف وہی ہیں جو آپ خود اپنے آپ پر لگاتے ہیں۔
یہ مضمون 5 مارچ 2016 کو ڈان ینگ ورلڈ میں شائع ہوا
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
تبصرے (5) بند ہیں