گرین لائن اور حل طلب مسائل
ترقی کے نام پر پاکستانی شہروں کو جدید شہر میں تیزی کے ساتھ تبدیل کیا جا رہا ہے۔ لاہور بس ریپڈ ٹرانزٹ (جسے مقامی لوگ الگ سے مختص راستے کی وجہ سے جنگلہ بس کہتے ہیں) کا پہلہ مرحلہ مکمل اور شروع ہونے کے بعد ایسے منصوبوں کو دوسرے شہروں میں بھی شروع کرنے کے لیے تیزی سےاقدامات جاری ہیں۔
2 کروڑ سے زائد شہریوں کو درپیش ٹرانسپورٹ اور سفری مشکلات کے حل کے لیے شہر کراچی بھی اس طریقہ کار سے 'فائدہ' اٹھانے کے لیے تیار ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم کراچی ماس ٹرانزٹ ماسٹر پلان 2030 کے فائدوں اور نقصانات پر بات کریں، بہتر ہوگا کہ ہم موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں۔ 1996 میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن اور 1999 میں کراچی سرکولر ریلوے ختم ہونے کے بعد کبھی بھی میٹروپولیٹن شہر میں بڑھتے ہوئے مسافروں کی سہولیات کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
کراچی کے ایک سینئر پولیس افسر کی چند ماہ قبل کی رپورٹ کے مطابق شہر کے اندرونی مختلف روٹس پر 8000 بسیں، منی بسیں اور کوچز چل رہی ہیں، جو کہ 2 کروڑ 42 لاکھ لوگوں کو ہر دن کام پر لے جانے کے لیے بہت کم ہیں۔
چنگچی رکشوں اور اس کے بعد سی این جی رکشوں پر حفاظتی وجوہات کی بناء پر پابندی عائد کرنے سے پہلے تک شہریوں کو تھوڑا آرام میسر تھا۔ حکام کی لاپرواہی سے تنگ آ کر عام لوگوں نے موٹرسائیکلوں کا سہارا لینا شروع کردیا۔ ایک تحقیق کے مطابق شہر میں 18 کروڑ موٹر سائیکلیں ہیں مگر موٹرسائیکل کو ٹرانسپورٹ کا بہترین حل تصور نہیں کیا جاتا۔
ٹرانسپورٹ سیکٹر میں سرکاری توانائی اور سرمایہ کاری کی توجہ صرف ٹریفک کے رش سے چھٹکارے کے لیے صرف کی گئی ہے جس میں فلائی اوور، انڈر پاس اور سگنل فری کوریڈور کی تعمیر شامل ہے۔ مگر سرکاری بسیں یا منی بسیں نہ ہونے کی وجہ سے روڈ نجی گاڑیوں سے بھر چکے ہیں جن کی تعداد میں 600 فی دن کے غیر معمولی حساب سے اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کیے گئے ہیں لیکن شہریوں کو خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچا۔
خراب ڈیزائن کے حامل اور غیر مناسب طور پر تعمیر کیے گئے لیاری ایکسپریس وے پر 13 ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود شہر کو خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ ٹریفک جام، مؤثر ٹریفک انتظامیہ کی غیر موجودگی سے سڑکوں پر جھگڑے اور بدتر ڈرائیونگ رویوں کے نتیجے میں لوگوں کی اموات، اور وسائل و سفر کرنے والوں کا وقت ضائع ہونا عام ہے۔ سڑک استعمال کرنے والوں اور فٹ پاتھ پر چلنے والوں کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے دیکھے گئے ہیں۔
شاہ خرچ اور عالیشان اسکیموں کی روایت برقرار رکھتے ہوئے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر امدادی اداروں کے مالے تعاون اور ملک کی ایک مشہور ریئل اسٹیٹ شخصیت نے مل کر کراچی کے لیے بس ریپڈ ٹرانزٹ پلان کا بیڑا اٹھایا ہے۔
92 کلومیٹر طویل چھ بی آر ٹی راہداریاں، 43 کلومیٹر طویل کراچی سرکولر ریلوے کی از سرِ نو تعمیر اور تین راہداریوں پر 41 کلومیٹر طویل ریل ریپڈ ٹرانزٹ کا قیام اس منصوبے کا حصہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس میگا پراجیکٹ پر آنے والی لاگت تقریباً 160 ارب روپے ہے۔
منصوبے کے لیے موجودہ سروسز اور زمین میں کافی تعداد میں ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت پڑے گی۔ مثلاً بس کا راستہ بنانے کے لیے چھوٹی سے متوسط پیمانے پر آبادیوں، دکانوں اور دوسری عمارتوں کی منتقلی کی ضرورت ہوگی۔ بہت سی جگہوں پر بی آر ٹی کوریڈور کے راستے میں موجود فلائی اوورز، روڈ شولڈر (سڑک کے ساتھ اضافی خالی جگہ) اور گرین بیلٹس کو بھی مکمل یا جزوی طور پر منہدم کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
نارتھ ناظم آباد کی مرکزی سڑک شاہراہِ شیر شاہ سوری کے کشادہ گرین بیلٹ کو گھٹا کر اس کی چوڑائی بہت کم کر دی جائے گی۔ منصوبے کے بعد موجودہ سڑکوں پر پیدا ہونے والے ٹریفک کے رش کا مسئلہ، مختلف اسپانسرز کے تحت بننے والے بی آر ٹی لائنز کو آپس میں ضم کرنے، پہلے سے موجود ٹرانسپورٹ کے ذرائع کو ملانے، مختلف اداروں کی آپس میں معاونت اور اس منصوبے کی زبردست قیمت کی وصولی، کرایوں کی سطح اور مسافروں پر اخراجات کا بوجھ، زمین کے مسائل اور شہری انتظامیہ کا ردعمل، یہ تمام معاملات ایسے ہیں جنہیں منصوبے پر عمل در آمد کرنے سے پہلے سمجھنا اور حل کرنا بہت ضروری ہے۔
ایک باصلاحیت اور معقول حد تک آزاد بااختیار ادارے کے قیام کی بھی ضرورت ہے جو مختلف مالکان، سرمایہ کاروں اور اسٹیک ہولڈرز کی شراکت سے بننے والے اس پیچیدہ منصوبے کا انتظام سنبھال سکے۔ مایوسی کی بات ہے کہ اس مقصد کے لیے قائم کی گئی سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کی ارتقاء سست روی کا شکار ہے۔
ایک شہری کے نقطہء نظر سے دیکھیں تو اس معاملے پر اٹھنے والے سوالات بالکل مختلف ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کے جواب کراچی ماس ٹرانزٹ ماسٹر پلان 2030 میں موجود نہیں ہیں۔ آزاد محققین کی کئی تحقیقوں کے مطابق مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
ان میں مناسب کرائے؛ تیزی سے چلنے والی ٹریفک کی علاقائی ٹریفک سے علیحدگی؛ پیدل چلنے والوں کے لیے مناسب جگہ؛ سائیکلوں اور اندرونی علاقوں سے رابطے کے لیے مناسب سڑکیں؛ بڑی اور مال بردار گاڑیوں کے ٹریفک قوانین؛ بسوں کی تعداد میں اضافہ؛ کار اور موٹر سائیکل کی پارکنگ کی جگہوں کی تعمیر؛ غیر موٹرائزڈ ٹرانسپورٹ کا انضمام؛ سڑکوں کی باقاعدگی سے مرمت اور کارپیٹنگ؛ سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس کا انتظام؛ بس اسٹاپس کی دیکھ بھال؛ اور ڈرائیونگ رویوں میں بہتری کو ممکن بنانا شامل ہے۔
دوسرے الفاظ میں کہیں تو بغیر دیر کیے بہت سے مختصر اور درمیانی مدت کے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
پیچیدہ مسائل کو آسانی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ کراچی سرکولر ریلوے کو آدھا درجن ریل گاڑیوں کے ساتھ صبح اور شام کے مصروف اوقات میں پپری سے سٹی اسٹیشن تک چلا کر دوبارہ متحرک کیا جاسکتا ہے۔ اس سروس کے ذریعے گلشن حدید، اسٹیل ٹاؤن، لانڈھی، ملیر، کورنگی اور شاہ فیصل کالونی کے شہری مسافروں کو فائدہ ہوگا۔
اگر اسے لوکل منی بسوں اور سی این جی رکشوں کے روٹس سے آپس میں ملا دیا جائے تو شہریوں کو کافی سہولت فراہم ہوگی جن کے مصروف اوقات میں کئی گھنٹے شارعِ فیصل/نیشنل ہائی وے پر ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں۔ دیگر ٹریکس کو فعال بنانے کے لیے کم خرچ متبادل طریقے استعمال کر کے بے دخلیوں میں کمی لائی جاسکتی ہے اور لوگوں کی حفاظت کے لیے راستہ علیحدہ کرنے کی ضرورت ہے۔
بسوں کی تعداد میں اضافہ — ماضی میں جس کا وعدہ شہری اور صوبائی حکمرانوں نے کیا تھا — کافی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ مناسب انتظامی طریقہء کار اپنا کر نجی آپریٹر کی خدمات حاصل کرتے ہوئے بسوں کو کمرشل بنیادوں پر چلایا جائے۔ بڑے سی این جی رکشے اور چنگچیوں کا حفاظتی معائنہ ممکن بنایا جائے۔ عام شہری جن میں طلبہ، مزدور، محنت کش، آفس ملازم و دیگر وہ تمام لوگ ہیں جو اس سستی اور آسان دستیاب ذریعہ ٹرانسپورٹ پر مستقل انحصار کرتے ہیں۔
لکھاری این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے شعبہ پلاننگ اینڈ آرکیٹکچر کے سربراہ ہیں۔