منگھو پیر: دیومالائی داستان سے سائنس تک
منگھوپیر کراچی کے قدیم ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ مصروف، بے ترتیب اور تیزی سے پھیلتے ہوئے شہر کے شمالی حصے میں واقع یہ علاقہ ایک صوفی بزرگ منگھو پیر کی مزار کی وجہ سے شہرت کا حامل ہے۔
صدیوں پرانے مزار کی انوکھی بات یہاں پر موجود بہت بڑا تالاب اور گرم پانی کا چشمہ ہے۔ تالاب میں درجنوں مگرمچھ رہتے ہیں جنہیں مزار پر آنے والے عقیدت مند باقاعدگی کے ساتھ کھانا کھلاتے ہیں۔
عقیدت مندوں کا ماننا ہے کہ مگر مچھ صوفی بزرگ سے منسوب ہیں۔
علاقے کی قدیم کتب اور 19ویں صدی کی برٹش راج کی تحریروں میں مزار کا ذکر ملتا ہے۔ کچھ مؤرخین کے مطابق یہ مگرمچھ صدیوں سے یہاں پر موجود ہیں۔
کچھ ماہرینِ آثار قدیمہ کا دعویٰ ہے کہ انہیں یہاں مگرمچھوں کی ہزاروں سال پرانی باقیات ملی ہیں اور کالونیل دور کے برطانوی مصنفین کے مطابق بھی مگرمچھ وہاں 'ہزاروں سالوں' سے موجود ہیں۔
منگھوپیر کراچی کی تند و تیز مکرانی/شیدی برادریوں کے روحانی پیشوا ہیں۔
یہ لوگ ان افریقی غلاموں کی اولادیں ہیں جنہیں 10 ویں اور 17 ویں صدی کے دوران عرب، فارسی، ترک اور یورپی حملہ آور یہاں لائے تھے۔ یہ لوگ زیادہ تر بلوچی بولنے والے مسلمان محنت کش مرد و عورت ہیں جن میں فٹ بال، باکسنگ، گدھوں کی ریس اور رقص کا جنون پایا جاتا ہے۔
مزار کے سالانہ میلے کو شیدی اپنی بنیادی افریقی طرز کے ساتھ مناتے ہیں۔
مگر کراچی کے علاقے لیاری (جہاں شیدی اکثریت میں قیام پذیر ہیں) میں گینگ وار، اور انتہا پسند گروپوں اور عسکریت پسندوں کے منگھوپیر میں پناہ لینے کی وجہ سے دو سالوں سے یہاں میلہ منعقد نہیں ہو پایا ہے۔
رینجرز اور پولیس کا جامع آپریشن علاقے کو کافی حد تک عسکری گروہوں سے خالی کروانے میں کامیاب رہا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ سالانہ میلے کا دوبارہ آغاز اس سال ہوگا۔
13 ویں صدی میں جب منگول عراق پر حملہ کر رہے تھے تو اس وقت پیر منگھو عراق سے یہاں تشریف لے آئے۔ منگھو نے جنوبی پنجاب اور صوبہء سندھ سے سفر کرتے ہوئے یہاں (موجودہ کراچی) میں سکونت اختیار کی تھی۔
اس وقت کراچی میں ماہی گیروں کے چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد تھے، اور منگھو جس جگہ عبادت کرنے کے لیے ٹھہرے، وہ الگ تھلگ، ایک پہاڑی کے اوپر قائم اور کھجور کے درختوں سے گھری ہوئی تھی۔
جلد ہی ماہی گیروں کے دیہاتوں کے لوگوں نے ان کی پیروی شروع کر دی۔ جب ان کی وفات ہوئی تو مقامی لوگوں نے اسی جگہ پر چھوٹا سا مزار تعمیر کر دیا۔
بزرگ نے ہمیشہ ان مگر مچھوں کے پہلو میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور ممکن ہے کہ ان کے ساتھ کھانا بھی بانٹتے ہوں گے، اس لیے ایک دیومالائی کہانی نے جنم لیا کہ مگرمچھ اصل میں جوئیں تھیں جو کہ بزرگ کی معجزانہ طاقتوں سے مگر مچھوں میں تبدیل ہو گئی تھیں۔
مگر سائنسدان اور ماہرین آثار قدیمہ مانتے ہیں کہ اس علاقے میں بہت پہلے سے ہی ایک تالاب یا جھیل موجود تھی جس میں سینکڑوں مگر مچھ موجود تھے۔
ان کے مطابق جھیل ایک قدیم سیلاب کی وجہ سے وجود میں آئی اور مگر مچھ بھی سیلاب کے ساتھ بہہ کر یہاں تک آ پہنچے تھے۔
کاربن ڈیٹنگ کے مطابق یہاں ملنے والی ہڈیاں کانسی کے دور (3300-1200 قبلِ مسیح) سے تعلق رکھتی ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کو یہاں کچھ پیتل کی قدیم اشیا بھی ملی ہیں جن پر موجود نقش و نگار سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ہزاروں سال پہلے کانسی دور کا ایک قدیم گاؤں رہا ہوگا جہاں لوگ مگرمچھوں کی عبادت کرتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ 13ویں صدی میں جب بزرگ نے یہاں سکونت اختیار کی اور ان کی وفات ہوئی تھی، اس وقت علاقے میں بہت زیادہ سبزہ موجود تھا۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اس وقت تک مگرمچھ انسانوں سے مانوس ہو چکے تھے اور خوراک کے لیے بزرگ کے پیروکاروں پر انحصار کرنے لگے تھے۔
یہاں کبھی بھی مگرمچھ کے حملے کا واقعہ پیش نہیں آیا ہے، اور مگرمچھ بھی جارح نہیں ہیں، لیکن مزار کے مجاور پھر بھی ہمیشہ خبردار رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
نسل در نسل مگر مچھ یہیں پر جیتے، مرتے، جنم دیتے اور پیدا ہوتے رہے ہیں اور تمام مگرمچھ براہِ راست انہی مگر مچھوں کی نسل سے تعلق سے رکھتے ہیں جو صدیوں پہلے سیلاب کے ساتھ یہاں تک پہنچے تھے۔
دنیا میں دیگر مقامات پر پائے جانے والے مگرمچھوں کے برعکس مزار پر موجود مگرمچھ گوشت سے لے کر مٹھائی تک تقریباً سب کچھ کھا لیتے ہیں۔
سائنسدانوں کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ نسل در نسل پیروکاروں کے ہاتھوں سے طرح طرح کی خوراک کھا کر اب یہ مگرمچھ تمام چیزیں کھانے کے عادی ہوگئے ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں