• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

ڈی ایچ اے اسکینڈل: کیانی کے خلاف تحقیقات کی درخواست

شائع February 24, 2016

اسلام آباد: سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد پہلی مرتبہ ان کا نام ڈی ایچ اے اراضی اسکینڈل کے سلسلے میں لیا جارہا ہے.

ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے ایک سابق عہدیدار لیفٹیننٹ کرنل (ر) طارق کمال نے 22 فروری کو قومی احتساب بیورو (نیب) کو دی گئی ایک درخواست میں اس حوالے سے تحقیقات کرنے کا کہا کہ آیا جنرل اشفاق پرویز کیانی ڈی ایچ اے ویلی کے ٹھیکے میں بے قاعدگیوں یا بے ضابطگیوں میں ملوث رہے یا آیا ان کا نام فیصلہ سازوں کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کو فائدہ پہنچانے کے لے استعمال کیا گیا.

تاہم کمال طارق کی درخواست پر اس وجہ سے کوئی عمل نہیں کیا جاسکا کیونکہ نیب کے پاس اُن فوجی افسران کے معاملات دیکھنے کا کوئی اختیار نہیں ہے جو سول انتظامیہ کے ساتھ کام نہ کر رہے ہوں.

ڈی ایچ اے ویلی اسکینڈل، زمینوں کے اُن 50 بڑے اسکینڈلز میں سے ایک ہے جنھیں نیب نے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا تھا.

اشفاق پرویز کیانی کو دسمبر 2007 میں چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا گیا تھا.

درخواست کے مطابق 2008 میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور بحریہ ٹاون نے ڈی ایچ اے ویلی کے مشترکہ ٹھیکے پر دستخط کیے.

مزید پڑھیں:ڈی ایچ اے اسکینڈل: کامران کیانی کے ریڈ وارنٹ کا امکان

درخواست میں مزید کہا گیا، 'بحریہ ٹاؤن کو فیز ٹو ایکسٹینشن کے قریب 40 ہزار کنال زمین خریدنی تھی، یہ منصوبہ 2005 میں ڈی ایچ اے اسلام آباد نے بنایا اور اس کی مارکیٹنگ کی. بحریہ ٹاؤن کے سی ای او ملک ریاض نے زمین خریدنے میں مشکل پیش آنے پر اُس وقت کے ڈی ایچ اے کے نائب صدر میجر جنرل آصف سے زبانی درخواست کی کہ وہ ڈی ایچ اے ویلی پراجیکٹ کو ڈی ایچ اے کی زمین پر تعمیر کرنے کی اجازت دیں.'

'25 فروری 2009 کو ہونے والی ایک ملاقات میں اس کی اجازت مل گئی اور ڈی ایچ اے کی تقریبآ 30 ہزار کنال زمین مجاز اتھارٹی کی اجازت کے بغیر بحریہ ٹاؤن کو منتقل کردی گئی، جس سے بحریہ ٹاؤن کو اربوں روپے کا فائدہ ہوا.'

درخواست میں مزید کہا گیا کہ ڈی ایچ اے نے 100 ارب روپے سے زائد کی رقم بینک گارنٹی کے بغیر بحریہ ٹاؤن کو ٹرانسفرکی، مزید دعویٰ کیا گیا کہ منصوبے کی لاگت میں 100 فیصد اضافہ ہونے کے باوجود ڈی ایچ اے کا منافع برقرار رہا اور اس میں اس تناسب سے اضافہ نہیں کیا گیا.

درخواست میں الزام لگایا گیا کہ جنوری 2009 میں میجر جنرل آصف نے ڈی ایچ اے کی ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ کے دوران ہدایات جاری کیں کہ مشترکہ ٹھیکے کی تکمیل میں تیزی لائی جائے کیونکہ اس کی منظوری آرمی چیف کی جانب سے دی گئی ہے، ساتھ ہی انھوں نے پراجیکٹ کی جلد از جلد تکیمل کی ہدایات جاری کیں. ان مشترکہ معاہدوں پر دستخط سے بحریہ ٹاؤن کو اربوں روپے کا منافع حاصل ہوا.

یہ بھی پڑھیں:ڈی ایچ اےاسکینڈل: سابق فوجیوں سمیت 3 گرفتار

جب نیب راولپنڈی کے ڈائریکٹر جنرل ظاہر شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ بیورو، فوجی افسران کے خلاف انکوائریوں کا آغاز نہیں کرسکتا.

انھوں نے کہا کہ نیب کو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف بھی متعدد درخواستیں موصول ہوئیں لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا کیونکہ اگر حاضرسروس یا ریٹائرڈ فوجی افسران پر مالی غبن کا الزام ہو تو ان کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت ہی کارروائی کی جاسکتی ہے.

اسی طرح جب 2009 میں نیشنل لاجسٹکس سیل (این ایل س) اسکینڈل سامنے آیا تھا، تو نیب کو تفتیش کا کہا گیا تھا، لیکن بعد میں ملزم قرار دیئے گئے 3 جرنیلوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے فوجی حکام کی جانب سے روک دیا گیا تھا.

یہ بھی پڑھیں:'سابق جرنیلوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہو گی'

مذکورہ کیس کی تفتیش فوج نے خود کی اور اگست 2015 میں ریٹائرڈ میجر جنرل خالد ظاہر کو فوجی سروس سے برطرف کرکے ان سے فوجی منصب، میڈلز اور ایوارڈ واپس لے کر ان کی پنشن بھی معطل کردی گئی اور ان سے میڈیکل سہولیات بھی واپس لے لی گئیں۔

اسکینڈل میں ملوث لیفٹیننٹ جنرل افضل مظفر کو 'شدید ناپسندیدگی' کی سزا دی گئی، جبکہ لیفٹیننٹ جنرل خالد منیر خان پر کوئی مالی بدعنوانی ثابت نہیں ہوئی تھی.

واضح رہے کہ نیب نے حال ہی میں ڈی ایچ اے کے سابق ایڈمنسٹریٹر ریٹائرڈ بریگیڈیئر جاوید اقبال اور ڈی ایچ اے کے سابق پراجیکٹ ڈائریکٹر ریٹائرڈ کرنل صباحت قدیر بٹ کو گرفتار کیا، جن پر ڈی اے ایچ اے اسلام آباد کے الاٹمنٹ سرٹیفیکیٹس کی غیر قانونی فروخت اور ڈی ایچ اے اور الائیسم ہولڈنگز پاکستان کے درمیان معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام ہے.

ڈی جی نیب ظاہر شاہ کے مطابق چونکہ مذکورہ دونوں افراد ڈی ایچ اے کے ساتھ کام کر رہے ہیں، لہذا ان کے خلاف ایکشن لیا جاسکتا ہے.

ایک سینیئر بحریہ ٹاؤن عہدیدار ریٹائرڈ کرنل خلیل الرحمٰن کے مطابق فوجی انتظامیہ سے اس حوالے سے ردعمل لیا جانا چاہیے.

اس حوالے سے جب ایک فوجی عہدیدار سے رابطہ کیا گیا تو پیر کو انھوں نے ایک ای میل کرنے کو کہا جبکہ منگل کو رابطہ کرنے پر اس حوالے سے کوئی رائے دینے سے معذرت کرلی.

یہ خبر 24 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad khan Feb 25, 2016 01:32am
نیب والے ایسے ہی واویلا مچارہے ھیں جب انکے حلاف کوئی کاروائی کا اختیار نہیں تو اتنی لمبی چوڑی کہانی کی کیا ضرورت تھی بحریہ ٹاون والا تو فوجی نہیں ان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جاسکتا لیکن انکے ہاتھ لمبے ھیں اس وجہ سے ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے نیب صرف سیاستدانوں اور سیول بیوروکریسی کی پگڑیاں اچھالنے کیلئے ھے باقی انکے ساتھ کوئی اختیار نہیں نیب نے سابق صدر زرداری کو تقریباﹰ 8 سال تک جیل میں رکھا لیکن ایک کیس بھی ثابت کرنے میں ناکام رہے بینظیربھٹو کے حلاف درجنوں کیسس بنائے گئے لیکن ثابت کچھ بھی نہیں ھوا نواز شریف خاندان پر بیشمار کیس بنے لیکن عدالتوں نے تمام کیس خارج کردیئے تھے اب ایک بار پھر سیاستدانوں کے حلاف مہم زوروں پر ھے افواہیں پھیلائی جارہی ھیں لیکن ایک بار پھر یہ صرف الزامات ثابت ھونگے

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024