اسٹیبلشمنٹ سے کوئی سوال نہیں کر سکتا
مجھے ہماری سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت سے زیادہ کوئی چیز متجسس نہیں کرتی۔ سب سے بالادست ادارے کے مفادات کو مختصراً قومی مفاد کہا جاتا ہے۔ آئیے اس تازہ خبر پر بات کرتے ہیں جو بڑی حد تک توجہ سے محروم رہی یا جسے جان بوجھ کر نظر انداز کردیا گیا۔ ہیلری کلنٹن کی صدارتی انتخاب کی مہم کو اس وقت جھٹکا لگا جب امریکی محکمہء خارجہ (اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ) نے اس بات کی تصدیق کی کہ ہیلری نے انتہائی خفیہ ای میلز بھیجنے کے لیے اپنا ذاتی سرور استعمال کیا تھا۔
اس وقت کے سینیئر مشیر ولی نصر کی جانب سے ہیلری کلنٹن کو کی گئی ای میل کے مطابق اقوام متحدہ میں ہماری موجودہ مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے بظاہر امریکی انتظامیہ اور سابق چیف جنرل اشفاق کیانی کے درمیان غیر رسمی پیغام رساں کا کردار ادا کیا تھا، جبکہ ملیحہ لودھی نے جو مکمل پیغام نصر سے شیئر کیا تھا، اسے مندرجات سے نکال دیا گیا تھا۔ یہ پیغام 17 جنوری 2011 کو ریمنڈ ڈیوس کی لاہور میں دو لوگوں کے قتل کے الزام میں گرفتاری کے تین روز بعد بھیجا گیا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں سنگین دراڑ کا سبب بنا تھا۔
بھلے ہی امریکی حکام نے اب تک پاکستانی جنرل کا پیغام خفیہ رکھا ہے، مگر کیا ہم پاکستان میں اپنے عسکری حکام اور دفتر خارجہ سے پوچھ سکتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس واقعے کے تین دن بعد چیف نے غیر سفارتی اور غیر رسمی ذرائع کے ہاتھوں کون سا پیغام یا معلومات پہنچائی تھیں؟
ہمارے سیاسی اور سفارتی حکام ریمنڈ ڈیوس کے سفارتی اہلکار نہ ہونے پر گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہے تھے اور لاہور پولیس نے قتل کا مقدمہ بھی درج کیا تھا۔ کچھ عرصے بعد عدالت میں معافی بعوض ’دیت’ پر خفیہ طور پر سمجھوتہ کیا گیا اور ہمارے انٹیلیجنس اہلکار چشمِ زدن میں اسے جہاز تک لے گئے جو اسے امریکا واپس لے جانے کے لیے تیار تھا۔
یہ وہی آرمی چیف تھے جن کی مدت کے دوران مئی 2011 میں امریکی بحریہ کے کمانڈوز نے ایبٹ آباد میں پاکستان ملٹری اکیڈمی اور چھاؤنی کے قریب حملہ کیا تھا اور اطلاعات کے مطابق جہاں اسامہ بن لادن کو پا کر مار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سول سیاسی حکام نے مبینہ طور پر غیر رسمی ذرائع استعمال کرتے ہوئے واشنگٹن میں تعینات سفیر کے ذریعے امریکی فوج کے سربراہ کو پیغام پہنچایا کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے پاکستانی ہم منصب اور 'دوست' کو راضی کریں کہ وہ شدید عوامی رد عمل کو دیکھتے ہوئے کہیں نا اہل سیاسی قیادت سے اقتدار نہ چھین لیں۔
اگر فوج کا سربراہ غیر رسمی سفارتکاری کے لیے سابق سفارتکار کا استعمال کرے تو جائز ہے؛ اگر سیاسی قیادت اپنا پیغام غیر رسمی ذرائع سے بھیجتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ میں شور مچ جاتا ہے۔
میمو گیٹ یاد ہے؟ آئیے اس کو مختصراً دہراتے ہیں۔ 10 اکتوبر 2011 کو فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون نے پاکستان میں ہلچل مچا دی۔ پاکستانی خاندان سے تعلق رکھنے والے امریکی منصور اعجاز نے آئی ایس آئی پر شدید الزام تراشی کرتے ہوئے لکھا کہ (ایبٹ آباد) حملے کے بعد ''ایک سینئر پاکستانی سفارتکار نے شدید ضروری درخواست کے ساتھ مجھے ٹیلیفون کیا''۔ وہ لکھتے ہیں: ’’آصف علی زرداری پاکستان کے عسکری اور انٹیلیجنس ذرائع کو بائی پاس کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی حکام کو پیغام بھیجنا چاہتے تھے۔’’ انہوں نے مزید کہا کہ ''صدر خائف تھے کہ ملٹری ٹیک اوور نزدیک ہے۔ اس لیے انہیں آرمی چیف کے ٹیبل پر امریکی مکے کی ضرورت تھی تاکہ ٹیک اوور کے کسی بھی گمراہ کن ارادے کو ختم کیا جا سکے۔‘‘
مبینہ طور پر 10 مئی 2011 کو یہ مراسلہ ایڈمرل مائیک ملن کے حوالے کر دیا گیا، جس میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ ’’براہ راست مداخلت کرتے ہوئے جنرل کیانی کو سختی کے ساتھ جلد اور سیدھا پیغام دیں کہ جس میں ان کے اور جنرل پاشا کے لیے واشنگٹن کا مطالبہ ہو کہ وہ سویلین انتظامیہ کو نیچے گرانے کے لیے جاری اپنی منصوبہ بندی سے باز آجائیں، اور یہ کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا 1971 جیسا لمحہ ہے۔''
یہ ایک دھماکہ خیز چیز تھی۔ کون ایسا ہوشمند ہوگا جو اس قدر حقیر شرائط پر امریکی مفادات کے آگے ہتھیار ڈالے گا، اور وہ بھی تحریری طور پر؟ زرداری حقانی جوڑا کیا کرنا چاہ رہا تھا؟ کیا ایک پاکستانی سفیر کبھی ایسی دستاویز لکھ سکتا تھا؟ کیا وہ اسلام آباد کی نمائندگی کر رہے تھے یا واشنگٹن کی؟ حقانی کو واشنگٹن سے واپس بلا لیا گیا۔
میاں نواز شریف اور دیگر کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست کا اصل ہدف ظاہر ہوگیا۔ یکم دسمبر 2011 کو فل کورٹ بینچ نے سماعت کی۔ نواز شریف خود عدالت میں حاضر ہوئے اور بات کی۔ کارروائی کے دوران رجسٹرار نے مجھے بلایا کہ عدالت میموگیٹ کیس کی تحقیقات کے لیے بطور آزاد تفتیش کار میرے نام پر غور کر رہی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ میں سب سے پہلے عدالتی حکم نامہ اور کمیشن کی شرائط دیکھنا چاہتا ہوں۔
حکم نامہ اسی دن جاری کر دیا گیا۔ اتنی جلد بازی کیوں؟ کیوں ریاست اور فریقین کو کمیشن کے قیام کا نوٹس نہیں بھیجا گیا؟ میں نے سوچا کہ اگلی سماعت میں مجھے عدالت بلایا جائے گا اور میری رضامندی معلوم کی جائے گی۔ اس کے بجائے مجھے 2 دسمبر کو عدالتی حکم نامہ موصول ہوا جس میں ’’کمیشن کے سربراہ کے طور پر قومی فریضہ انجام دینے کے لیے‘‘ میری رضامندی چاہی گئی تھی۔
یہ سب کیا تھا؟ کیا وہ ایک ’قومی فریضہ‘ تھا جسے سر انجام دینے کے لیے مجھے بلایا گیا تھا یا پھر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بلایا گیا تھا جو زرداری اور واشنگٹن میں موجود ان کے بااعتماد شخص کو ہر حال میں گھیرنا چاہتی تھی؟ وکیل کے روپ میں نواز شریف عدالت میں کیا کر رہے تھے؟ میثاق جمہوریت کے ساتھ کیا ہوا؟ کیا وہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہو رہے تھے؟ مجھے کیوں اس سیاسی معمے یا اس کیس میں گھسیٹا جا رہا تھا کہ جس میں مجھے شاید سابق آئی ایس آئی سربراہ اور ایسے آدمی جس پر واشنگٹن کے ساتھ رابطوں کا شک تھا، کے درمیان ہونے والی خفیہ ملاقاتوں کے مقاصد کے بارے میں سوالات کرنے پڑتے۔
میمو گیٹ سے سازش کی بو آرہی تھی۔ میں نے فوراً ردِعمل دیتے ہوئے میمو گیٹ کمیشن کے سربراہ کے طور پر ذمہ داری نبھانے سے معذرت کر لی۔
میمو گیٹ واٹر گیٹ نہیں تھا۔ زرداری کو صدر نکسن کی طرح استعفیٰ نہیں دینا پڑا تھا۔ ان کے پاس ایک اور قربانی کا بکرا حسین حقانی تھا، جن پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے ہی مراسلہ لکھا اور مائیک ملن تک پہنچایا تھا۔ ایبٹ آباد حملے پر کسی کو سزا نہیں ہوئی؛ کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اعلیٰ عسکری حکام سے سخت سوالات کر سکے۔
اسٹیبلشمنٹ اپنی حماقتوں کو اپنی فتوحات میں تبدیل کرنے کا فن حاصل کر چکی ہے۔ جمہوریت کو ایسے تراشا گیا ہے کہ اس ملک میں چند لوگوں کی بالادستی ہمیشہ قائم رہے۔ اور جب تک یہ تبدیل نہیں ہوتا، اس وقت تک پاکستان میں جمہوریت یوں ہی خطرے کا شکار رہے گی۔
لکھاری ایف آئی اے کے سابق سربراہ ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 22 فروری 2016 کو شائع ہوا۔