ماروی کا اداس کنواں
محبتوں، چاہتوں اور اداس نسلوں کی سرزمین وادی مہران کی مردم خیز دھرتی میں صدیوں سے پیاسا صحرا، صحرائے تھر ’’جمہوریت کے انتقام ‘‘ کی وجہ سے قحط سالی کی وجہ سے جانا پہچانا جاتا ہے مگر اس اداس و ویران خطے کی پہچان کچھ اور ہے۔
فطرت کا یہ میوزیم اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ مور جیسے خوبصورت پرندے، سحرزدہ کردینے والی شامیں، ریت کے اداس ٹیلے، بے ضرر لوگ، تاریخی مندر، قدیم مساجد، صدیوں پرانے تالاب اور کنویں جن کے کنارے بیٹھ کر صدیوں سے اچھے وقت کے انتظار میں بانسری بجانے والے تھر کے لوگ، جن کی معیت میں روح تک اداس ہو جاتی ہے۔
ایسی ہی مشہور مقامات میں سے ایک مقام 'ماروی کا کنواں' بھی ہے جس سے منسوب داستان کا شمار مشہور سندھی لوک داستانوں میں ہوتا ہے۔ اس دھرتی پر یوں تو ان گنت کہانیوں نے جنم لیا لیکن عمر ماروی یا ماروی کی کہانی، جسے حب الوطنی اور تھر کی مٹی سے محبت کی داستان کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، تھر کے لوگوں میں بالخصوص اور باقی سندھ میں بالعموم ایک خاص مقام رکھتی ہے۔
تھر کا صحرا اپنی اداسیوں اور خموشیوں میں بھی ایک عجیب حسن رکھتا ہے۔ جیسے ہی آپ صحرا میں قدم رکھتے ہیں ایک عجیب اداسی من مندر میں ڈیرا ڈال دیتی ہے، لیکن اسی ویرانے میں جب مور کی کوک کانوں میں رس گھولتی ہے تو منظر یکسر بدل جاتا ہے۔
صحرا کے بیچوں بیچ ایک پختہ سڑک بل کھاتی ریت کے ٹیلوں کا سینہ چیرتی بہت دور تک چلی گئی ہے۔ اس سڑک کے اطراف مختلف چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد ہیں جہاں زندگی باوجود صدہا مشکلات کے اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ انہی بستیوں اور گوٹھوں میں سے ایک گوٹھ کا نام ’بھالوا‘ ہے جسے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے اشعار میں ملیر بھی کہا گیا ہے۔ اس گوٹھ کو ماروی کا گوٹھ یا ماروی کے کنوئیں والا گوٹھ بھی کہا جاتا ہے۔
ضلع تھرپارکر کی تحصیل نگرپارکر میں بر لبِ سڑک واقع اس گاوں کی طرف ایک پختہ سڑک نکلتی ہے جو زمانے کی سختیوں اور سندھ حکومت کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، لیکن یہ سڑک غریب کی خواہشات کی طرح تھوڑی دور جا کر اچانک ختم ہوجاتی ہے۔ جہاں اس سڑک کا اختتام ہوتا ہے وہیں وہ مشہور زمانہ کنواں واقع ہے جس پر ایک داستان نے جنم لیا۔ حب الوطنی کی لازوال داستان۔ تھر اور تھر کی مٹی سے محبت کی عجیب داستان۔ شاہانہ ٹھاٹ باٹ کو چھوڑ کر مشکلات سے بھری زندگی اختیار کرنے کی داستان۔
راویانِ روایت بیان کرتے ہیں کہ ملک تھر کے اس گاؤں میں ایک غریب محنت کش کے آنگن میں ایک ایسا پھول کھلا جس کے حسنِ جہاں سوز کا چرچا آس پاس کے تمام علاقوں میں پھیل گیا۔ گاؤں کے ہر لڑکے کی خواہش تھی کہ ماروی اس کے عقد میں آئے۔ گاؤں والے کہتے کہ ماروی کو تو کسی محل میں پیدا ہونا چاہیے تھا۔ اسی گاؤں میں رہنے والے ایک نوجوان نے ماروی سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا مگر ذات پات اور رسم و رواج میں بہت زیادہ تفاوت کی بنا پر یہ رشتہ نہ ہوسکا۔ اس لڑکے کا نام ’پھوگ‘ تھا۔ رشتے سے انکار نے پھوگ کو عاشق سے رقیب میں بدل دیا۔
'کھیت' نامی ایک نوجوان جو ماروی کا کزن تھا، سے ماروی کا رشتہ طے پا گیا اور ماروی اور کھیت دونوں شادی کے لیے ایک دوسرے سے منسوب کر دیے گئے۔ اس غم کی وجہ سے پھوگ ملیر چھوڑ کر اس وقت کے سندھ کے حکمران عمر کے پاس عمر کوٹ جا پہنچا۔ ان دنوں سندھ کا حاکم ’عمر سومرو‘ تھا۔ کہتے ہیں کہ پھوگ عمر سومرو کے مشہور زمانہ ’قلعہ عمر کوٹ‘ میں ملازم ہوگیا۔
تھوڑے ہی عرصے میں اس نے عمر کا اعتماد حاصل کر لیا۔ باتوں باتوں میں پھوگ نے عمر سے ماروی کے حسن کا تذکرہ کیا اور اس رنگ میں کیا کہ عمر بے تاب ہوگیا۔ عمر نے فیصلہ کر لیا کہ وہ ماروی کو خود دیکھنے جائے گا۔ کہتے ہیں کہ اس نے پھوگ کو ساتھ لیا اور اونٹ پر سوار ہو کر سوئے ملیر روانہ ہوگیا۔
تھر میں عام طور پر خواتین ہی پانی بھرنے جاتی ہیں، چاہے جتنا مرضی دور سے پانی لینے جانا پڑے۔ مٹی کے گھڑے اٹھائے پانی کی تلاش میں سرگرداں خواتین عام نظر آتی ہیں۔ ماروی بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ اسی کنویں سے پانی بھرنے جاتی تھی۔عمر نے اسی کنویں پر ماروی کا انتظار کیا اور خود کو مسافر ظاہر کر کے ماروی سے پانی پلانے کی درخواست کی۔ اسے دیکھتے ہی عمر ماروی پر ہزار جان سے عاشق ہوگیا اور ایک دن موقع پا کر ماروی کو اغوا کر کے عمر کوٹ لے آیا۔
عمرکوٹ پہنچ کر عمر نے ماروی کو قلعے میں قید کردیا اور یہ پیشکش کی مجھ سے شادی کر لو تو تمہیں منہ مانگی دولت ملے گی۔ عمر نے ماروی کو جاہ و مرتبہ اور خزانہ سب کچھ پیش کیا۔ عمر نے یہ لالچ بھی دی کہ وہ اس کے والدین کو دولت سے مالا مال کردے گا۔ جب اس طرح بھی عمر ماروی کا دل نہ جیت سکا تو اس نے یہ کہہ کر ماروی کو ایک سال کے لیے مستقل قید میں ڈال دیا کہ اگر اس دوران میں تمہارا دل نہ جیت سکا تو تمہیں واپس ملیر چھوڑ آؤں گا۔
ماروی کے لیے ہر دن ہزار سال کے برابر تھا۔ اسے نہ عمر سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی اس کے مال ومتاع سے۔ وہ کسی طور بس دن گزارتی رہی۔ سندھی شاعری میں ماروی کے ان دنوں کا تذکرہ بہت اداسی اور بے قراری کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ماروی ہر وقت اپنے تھر اور تھر باسیوں کی یاد میں روتی رہتی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور وائی (گیت) ’’آئی مند ملہار کھنبا کندیس کپڑا‘‘ (بسنت کی رت لوٹ آئی ہے، میں بسنتی جوڑا پہنوں گی) اسی دکھ اور جدائی کی یاد میں لکھی گئی ہے۔
اسی طرح دیگر سندھی شعراء نے بھی اس اداس موضوع کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ مشہور سندھی گائیک استاد جمن کی آواز میں روح تک کو اداس کر دینے والی شاہ بھٹائی کی شاعری ’رات بھی مینہڑا وٹھا‘ (رات بھی میرے دیس میں بارش برسی ہے) بھی اسی تناظر میں لکھی گئی ہے۔
آخرکار قید کا یہ ایک سال جو ماروی پر کئی ہزار سال بن کے گزرا، کسی طور گزر گیا، مگر ماروی کے دل میں عمر کے لیے کوئی محبت کی چنگاری نہ سلگی بلکہ اپنے دیس اور اپنے ’ماروئڑوں‘ (محبت کرنے والے بے ضرر لوگ) کی یاد میں ہر وقت آنسو بہا بہا کر ماروی آدھی رہ گئی اور اس کی زبان پر ہر وقت یہی بول ہوتے کہ ’’ویندس پہنجے ملک ملیر‘‘ (میں اپنے ملک ملیر واپس جاؤں گی)۔
جب عمر نے یہ دیکھا کہ ماروی کے دل میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں تو اس نے اپنا وعدہ ایفا کرتے ہوئے ماروی کو اس کے گاؤں ملیر پہنچا دیا۔ تب کہیں جا کر ماروی کی جان میں جان آئی۔
ماروی کے انجام کے متعلق کئی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ماروی کو وطن واپسی کے بعد ’کاری‘ قرار دے کر قتل کر دیا گیا، جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ماروی کو گاؤں بدر کردیا گیا اور بطور سزا اسے ریگستان میں چھوڑ دیا گیا تاکہ وہ بھوک پیاس اور تھر کی بے مہری کے ہاتھوں ماری جائے۔ ایک اور روایت بھی ہے کہ ماروی کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے آگ کے امتحان سے گزرنا پڑا اور جب آگ نے اسے نقصان نہ پہنچایا، تو اس کی معصومیت ثابت ہوگئی، اور پھر اس کی کھیت کے ساتھ شادی کر دی گئی. پہلی روایت تو حقیقت کے خلاف معلوم ہوتی ہے کیونکہ تھر میں ’کاری‘ کی روایت نہ ہونے کے برابر ہے۔ جبکہ دوسری اور تیسری روایت قرین قیاس ہیں اکثریت کے نزدیک تیسری روایت درست ہے۔
حکومت سندھ نے اس کنویں کے اردگرد ایک پختہ چاردیواری تعمیر کروائی ہے اور اس چار دیواری کے اردگرد روایتی تھری اسٹائل کے پختہ جھونپڑے ’چوئنرے‘ بھی تعمیر کروائے ہیں، جہاں شمسی توانائی سے رات کے وقت آسیبی سی روشنی جگمگ جگمگ کرتی ہے تو تھر کی اداسی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
انہی چوئنروں میں سے ایک کو ’میوزیم‘ کا درجہ دیا گیا ہے جسے میوزیم لکھتے ہوئے بھی قلم ٹوٹنے لگتا ہے۔ اس چھوٹے سے کمرے میں چوکیدار کو دس روپے دے کر داخل ہوا جاسکتا ہے اور داخل ہونے والا عمر اور ماروی کی شبیہیں دیکھ کر مایوس نہیں ہوتا بلکہ شکر کرتا ہے کہ دس روپے برباد نہیں ہوئے۔ یہاں ہر سال ایک میلہ بھی منعقد کیا جاتا ہے جس میں پورے تھر سے لوگ شامل ہوتے ہیں۔
اس کنویں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ہر شام مقامی فنکار جمع ہو کر ماروی کی جدائی اور اس کے غم کو اجاگر کرنے والے گیت گاتے ہیں۔
تھر میں ایسے بہت سارے تاریخی مقامت ہیں جن پر مکمل توجہ دے کر تھر کی ثقافت کو مزید ترقی دی جاسکتی ہے جس سے نہ صرف مقامی لوگوں کو فائدہ ہوگا بلکہ زرمبادلہ میں بھی خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔
— تصاویر بشکریہ راشد احمد۔
تبصرے (6) بند ہیں