• KHI: Fajr 5:23am Sunrise 6:39am
  • LHR: Fajr 4:49am Sunrise 6:10am
  • ISB: Fajr 4:53am Sunrise 6:16am
  • KHI: Fajr 5:23am Sunrise 6:39am
  • LHR: Fajr 4:49am Sunrise 6:10am
  • ISB: Fajr 4:53am Sunrise 6:16am
شائع February 15, 2016

دکھوں کے بیج نہیں ہوتے، وہ ایسے ہی اگ آتے ہیں، دل میں، ذہن میں، آنکھوں میں اور زمین پر اور ان دکھوں کی فصل کاٹتے کاٹتے عمریں کٹ جاتی ہیں۔

مجھے نہیں پتہ کہ رات کے اختتام سے پہلے رات کے سناٹے میں وہ کون سا درد ہے جس کو یاد کر کے مور بول پڑتا ہے اور اس ہوک سے کچھ آنکھوں سے نیند کیوں روٹھ جاتی ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ دکھوں کی تپتی دوپہروں میں نیند بن بلائے مہمان کی طرح آنکھوں کے آنگن میں کیوں آ کر بسیرا کرتی ہے۔

میں چہرے پر وقت سے پہلے پڑی ان لکیروں کے متعلق بھی شاید کبھی نہ جان سکوں کہ ان لکیروں میں دردوں کی کتنی خشک سالیاں دفن ہیں۔ میں ان گھروں کے کچے آنگنوں کا درد بھی نہ جان سکوں گا جو برس میں نہ جانے کتنے ماہ ویران پڑے ہوتے ہیں۔ اور میں شاید ان آنکھوں کی تکلیف بھی نہ جان سکوں جن کے پیارے ان کے بازوؤں میں وقت سے پہلے اپنی سانسیں گنوا چکے۔

یہ آنکھیں جن کا سرمایہ نمک بھرا پانی ٹھہرا، اور ایسے نہ جانے کتنے منظر ہیں جو تھر کے اس وسیع و عریض ریگستان میں زقوم کی جھاڑیوں کی طرح بکھرے پڑے ہیں۔

ہم جب تھر کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو ایک حیرت انگیز لینڈاسکیپ کی بات ہو رہی ہوتی ہے۔ سبط حسن نے کیا خوب لکھا ہے کہ "تہذیب کی تشکیل و تعمیر میں طبعی حالات کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ ہر تہذیب کا اپنا ایک مخصوص جغرافیہ ہوتا ہے۔ اس کے دریا اور پہاڑ، جنگل اور میدان، پھل پھول اور سبزیاں، چرند پرند، آب و ہوا اور موسم یعنی اس کا خارجی ماحول اس کے طرز عمل، ذریعہ عمل، ذریعہ معاش، رہن سہن، خوراک و پوشاک، مزاج و مذاق، اخلاق و عادات، جذبات و احساسات غرضیکہ اس علاقے کے انسانوں کی زندگی کے ہر پہلو پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔

"یہی وجہ ہے کہ ریگستانی علاقوں کی تہذیب قطب شمالی کے برف پوش میدانوں کی تہذیب سے مختلف ہوتی ہے۔ سمندر یا دریاؤں کے کنارے بسنے والوں کی تہذیب میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ زبانوں کا جنم اور لہجوں کی تبدیلی بھی ان معروضی حالات کی مرہون منت ہی ہوتا ہے۔"

عمرکوٹ کے جنوب میں آپ اگر کمہاروں کے ایک مشہور گاؤں 'وھیرو' کے بیچوں بیچ مشرق کی طرف چلے جائیں گے تو تھر کی جنگلی گھاس سے بنی کچھ جھگیاں آپ کو نظر آئیں گی۔ سفید ریت کی وجہ سے سب دھلا دھلا سا نظر آتا ہے۔ میری رہنمائی وہاں کے ایک سماجی کارکن ممتاز کنبھر کر رہے تھے۔ میں جب ان گھاس پھوس سے بنی جھگیوں میں پہنچا تو ایک جھگی میں ایک نوجوان لڑکا قالین بن رہا تھا۔

قالین بافی کا کام مکمل طور پر ہاتھ سے کیا جاتا ہے.
قالین بافی کا کام مکمل طور پر ہاتھ سے کیا جاتا ہے.
تین لوگ پندرہ دن میں ایک قالین تیار کرتے ہیں، جس کی اجرت چار سے چھ ہزار روپے ملتی ہے.
تین لوگ پندرہ دن میں ایک قالین تیار کرتے ہیں، جس کی اجرت چار سے چھ ہزار روپے ملتی ہے.

رنگین دھاگوں کی ڈوریاں ان لوگوں کی تمناؤں کی طرح اس دیوار سے لٹکی تھیں، جن سے ہوا اور دھوپ بے خطر اندر چلی آتی تھی۔ وہ نوجوان جس کا نام گڑسی میگھواڑ تھا، وہ فقط ڈھاٹکی لہجے میں بات کر پاتا، البتہ اردو سندھی سمجھ وہ خوب لیتا۔

اس سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ چھ برس کی عمر سے یہ کام کر رہا ہے۔ یہ قالین ان لوگوں سے بیوپاری بنواتے ہیں، سارا خام مال بیوپاری فراہم کرتا ہے، جیسے، قالین بنانے کے لیے فریم، دھاگہ، نقشہ وغیرہ۔ اگر تین آدمی روز دس گھنٹے کام کریں تب جاکر ایک قالین پندرہ دن میں تیار ہوتا ہے اور اس کی مزدوری ان کو چار سے چھ ہزار ملتی ہے۔

میں نے گڑسی سے جب پوچھا کہ: "اگر اچانک بارش آجائے یا کسی اور حادثے سے قالین کو نقصان پہنچے تب کیا ہوتا ہے؟"

گڑسی جو قالین بننے کے کام میں لگا ہوا تھا، مقررہ رنگ کا دھاگہ دوسرے سیدھے کھنچے ہوئے سفید دھاگوں کے بیچ میں سے گزارتا، پھر ہاتھ میں پکڑی ہوئے تیز دھار والی مخصوص چھری سے اسے کاٹ لیتا اور لکڑی کے بنے ہوئے پنجے سے وہ اس دھاگہ کو اوپر سے مارتا جاتا کہ میلان برابر بیٹھے۔ میرے اس سوال پر سارے عمل ساکت ہوگئے۔

گڑسی نے سب چھوڑ کر مجھے دیکھا، اس کی آنکھوں میں اچانک سے بے رنگ ریت کے ٹیلے سے نظر آنے لگے: "اگر ایسا کچھ ہوا تو وہ ہم کو بھرنا پڑے گا۔ ایک روپیہ سے ہزاروں تک۔ اور پھر یہ قرضہ کبھی نہیں اترتا۔"

اپنی زبان میں یہ جواب دے کر اس نے ناک پر انگلی رکھ کر توبہ کی، ایک پھر دوسرا کان پکڑا اور ہاتھ جوڑے، اور پھر آنکھیں موند کر کوئی دعا پڑھنے لگا کہ کبھی ایسا نہ ہو۔ یہ سب کچھ لمحوں میں ہوا۔ وہ پھر قالین کو بننے لگا۔

قالین کی تیاری کے لیے خام مال بیوپاری کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے.
قالین کی تیاری کے لیے خام مال بیوپاری کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے.
کسی نقصان کی صورت میں ان مزدوروں سے مکمل رقم واپس لی جاتی ہے.
کسی نقصان کی صورت میں ان مزدوروں سے مکمل رقم واپس لی جاتی ہے.

ان گھاس پھوس کی جھونپڑیوں کے بھی آنگن ہوتے ہیں، صبحیں، دوپہریں، لمبی شامیں ان آنگنوں سے گزر کر دن کو گزار دیتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ گرمیوں میں جب دوپہریں لمبی ہوجاتی ہیں اور سورج کی تپش کی وجہ سے ایک عجیب خاموشی کی چادر چہار سو تن سی جاتی ہے، تب تھر کے ان ہزاروں لاکھوں گھروں میں سے سینکڑوں ایسے گھر ہوتے ہیں جہاں اپنے بچھڑے یا دور بسے ہوئے پیاروں کو یاد کر کے، سینے سے ایک درد کی چیخ ابل پڑتی ہے۔

اس درد کی چیخ کو مقامی زبان میں 'اوسارو' کہتے ہیں۔ اگر تپتی دوپہر میں اندر سے یہ چیخ اور آنکھوں سے آنسو نہ نکلیں تو نہ جانے کتنے دل درد کے غبار سے پھٹ جائیں۔ اس وقت اکثر عورتیں سوئی دھاگے کے کام میں مشغول ہوتی ہیں۔ سوئی، دھاگے، سینے پرونے، دردوں، رنگوں اور دوپہروں کا صدیوں کا ساتھ ہے۔

اندر گڑسی قالین بن رہا تھا اور آنگن میں دو عورتیں سینے کا کام کر رہی تھیں۔ ایک رلی سی رہی تھی اور دوسری شاید تکیے کے غلاف پر پھول بوٹے بنا رہی تھی، یہاں بھی زبان کا مسئلہ ہوا جسے حل کرنے میں میرے ساتھی نے مدد دی۔

یہاں تقریبآ ہر گھر میں رلیاں تیار ہوتی ہیں.
یہاں تقریبآ ہر گھر میں رلیاں تیار ہوتی ہیں.
بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کو دستکاری کے کام سے گزر بسر کرنی پڑتی ہے.
بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کو دستکاری کے کام سے گزر بسر کرنی پڑتی ہے.
ان لوگوں سے کم اجرت پر رلی تیار کروا کر مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہے.
ان لوگوں سے کم اجرت پر رلی تیار کروا کر مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہے.

ویربائی جو رلی سی رہی تھی، اس نے بتایا کہ "رلی کی بہت ساری اقسام ہیں، پھولوں والی، ٹک والی، کنڈڑی والی، پٹیوں والی، 'ٹکنڈی' بھی رلی کا ایک قسم ہے، اگر آپ سارا تھر گھومو گے تو سینکڑوں نام مل جائیں گے رلیوں کے، ہر ایک کا اپنا حساب ہے۔ اگر آپ سامیوں (ایک ہندو خانہ بدوش قبیلہ) کی رلیاں دیکھیں گے تو دنگ رہ جائیں گے۔" ہم نے کیونکہ ابھی تک سامیوں کی بنی ہوئی رلیاں نہیں دیکھی تھیں اس لیے ہم حیران و پریشان بھی نہیں ہوئے تھے۔

صبح سے شام تک میں اس حوالے سے بہت سارے چھوٹے چھوٹے گھروں میں گیا۔ اجتماعی درد وہ ہی تھے جو تھر کی ریت کے نصیبوں کے ہیں۔ دکھ ہر جگہ ہیں، ہر وجود میں ہیں، بس کریدنے کی دیر ہے۔ پھر ان وجودوں کے اندر میں جھانک کر دیکھیں تو نہ جانے دکھوں اور دردوں کی کتنی قبریں ہیں جو ان کے دل کے قبرستان میں بنی ہوئی ہیں۔

ایک ایک وجود اپنے اندر درد کی ایک کائنات رکھتا ہے اور وہ انسان ان دردوں کا قبرستان ساتھ لیے آپ کے ساتھ ہنس رہا ہوتا ہے، دنیاداری نبھاتا جاتا ہے، تہواروں پر مل جائیں تو کبھی کبھار نئے کپڑے بھی پہن لیتا ہے، میٹھا بھی کھاتا ہے، پر جب تپتی دوپہروں میں وہ اکیلا ہوتا ہے تو پھر دردوں کی تکلیف سہنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں رہتی۔

لڑکیوں کے لیے تیار کی گئی چوٹیاں.
لڑکیوں کے لیے تیار کی گئی چوٹیاں.
قمیض کے گلے پر دستکاری کی جا رہی ہے.
قمیض کے گلے پر دستکاری کی جا رہی ہے.
لڑکیوں کے لیے تیار کی گئی چوٹیاں.
لڑکیوں کے لیے تیار کی گئی چوٹیاں.
رنگ برنگے ازار بند.
رنگ برنگے ازار بند.

شام کے سائے ڈھلنے لگے تھے۔ میں دن کے آخری گھر میں گیا ۔گھر کے اندر چارپائی پر ایک وقت سے پہلے بوڑھا ہوتا ہوا آدمی لیٹا ہوا تھا، اور باہر چھوٹے سے آنگن میں ایک عورت رومال پر پھول بوٹے سی رہی تھی۔ پوچھنے پر اس نے رادھا نام بتایا۔

ہم نے رادھا سے اس کے سینے پرونے اور پھول پتیوں کے متعلق پوچھا تو کچھ دیر خاموشی رہی، پھر جواب آیا: "اس میں سیکھنا کیا ہے۔ یہ کام تو ہم تب سے دیکھتے آئے ہیں جب سے آنکھیں کھولی ہیں۔ تھر سے بارشیں تو روٹھ گئی ہوں جیسے۔ فصل ہوتی نہیں تو یہ ہاتھ کی محنت مزدوری زیادہ کرنی پڑتی ہے، تب کہیں جا کر دو وقت کی روٹی کا بندوبست ہوتا ہے۔"

رادھا سوئی سے سی تو پھول پتیاں رہی تھی پر الفاظ زقوم کی جھاڑیوں کی طرح اس کی زبان سے نکلتے اور میرے ذہن کی زمین پر جڑیں پکڑتے جاتے۔ "وہ کام جو ہمیں ثقافتی ورثہ کے طور پر ملے ہیں، ان کو ہم کرتے ایک ذہنی سکون حاصل کرتے ہیں، مطلب کہ بارش خوب برسے، کھیتوں میں ہریالی ہو، افلاس کی وجہ سے خانہ بدوشی نہ ہو، تو ہم اپنے گھر کے آنگن میں بیٹھ کر اپنی اولاد یا اپنے پیاروں کے لیے یہ رلیاں، تکیے، ازار بند، رومال، دوپٹہ، چوٹیاں، چادریں بڑی خوشی سے بناتے اور بغیر کسی وقت کی پابندی کے بناتے۔ پر اب یہ کام فقط اس لیے ہوتا ہے کہ پیٹ کی بھوک کو مٹایا جا سکے۔"

یہ بھی ٹھیک ہے پر جب اس محنت مزدوری اور وقت سے پہلے اپنا نور کھوتی آنکھوں کی کی ہوئی مزدوری کی رقم پوری نہ ملے تو اس سے بڑا استحصال اور کیا ہو سکتا ہے؟

ان لوگوں سے معمولی مزدوری پر چیزیں تیار کروا کر مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں.
ان لوگوں سے معمولی مزدوری پر چیزیں تیار کروا کر مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں.
ہاتھ سے تیار کیے گئے رلی کے دیدہ زیب نقش و نگار.
ہاتھ سے تیار کیے گئے رلی کے دیدہ زیب نقش و نگار.
ہاتھ سے تیار کیے گئے رلی کے دیدہ زیب نقش و نگار.
ہاتھ سے تیار کیے گئے رلی کے دیدہ زیب نقش و نگار.
لڑکیوں کے لیے تیار کی گئی چوٹیاں.
لڑکیوں کے لیے تیار کی گئی چوٹیاں.

آپ اس آرٹیکل میں جو بھی تصویریں دیکھیں گے، ان میں رنگوں کی خوبصورتی کی ایک بہار آپ کو نظر آئے گی۔ رنگ اور ان رنگوں کا ترتیب وار ملاپ کسے اچھا نہیں لگتا۔ پر ان رنگوں کو اگر غور سے دیکھیں گے تو دکھتی اور تپتی دوپہروں کے دکھوں کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔

یہ لوگ جن کا رنگوں پر سے ایمان اٹھتا جا رہا ہے، اس ایمان کی بحالی کے لیے حکومت کو، ہم کو، ہم سب کو کچھ نہ کچھ سوچنا پڑے گا اور عملی کام کرنا پڑے گا، کہ ان لوگوں کی محنت کی اجرت اتنی تو ملنی چاہیے جس کے وہ حق دار ہیں۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (17) بند ہیں

Hanif Samoon Feb 15, 2016 02:58pm
A wonderful blog with amazing pictures on the art of Thar, where life is getting difficult with each passing day due to unabated deaths of minor kids.
Noreen Feb 15, 2016 03:01pm
beautiful article, indeed they people deserve for more.
badtameez Feb 15, 2016 03:28pm
thal aor thar kitney miltey jultey heyN
راشداحمد Feb 15, 2016 03:30pm
سبحان اللہ کیا تحریر ہے. ہرلفظ سے تپتی دوپہروں جیسی اداسی ٹپک رہی ہے.
akhtar hafeez Feb 15, 2016 03:32pm
Thar ka dard abu baker sahib ne khub byan kiya hy. Jahan zindgi waki mushkil hoti jaa rhi hy. Zbrdst sain.
Usman Rahookro Feb 15, 2016 03:58pm
ہمیشہ کی طرح اچھی فوٹوگرافی اور تھر کی دستکاری کے متعلق اچھی محسوسات اور معلومات۔لکھتے رہئے ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔
solani Feb 15, 2016 05:00pm
Bahot achay achay rang kay hai ye qalin, dariyan. Khuda her ek insan ko apni karamat se nawazta hai. Bahot bari baat hai. Malala ko chahie kay yehan per bacho kay lea school banae.
غلام شبير لغاری Feb 15, 2016 08:35pm
دکھوں کے بیج نہیں ہوتے، وہ ایسے ہی اگ آتے ہیں، دل میں، ذہن میں، آنکھوں میں اور زمین پر اور ان دکھوں کی فصل کاٹتے کاٹتے عمریں کٹ جاتی ہیں۔۔۔۔ ابوبکر شیخ کا آرٹیکل جب جب پڑھا ھۓ اس میں جدت پائی ھۓ، موضوع کا انتخاب بھترین ہوتا ھۓ، تھر : درد کے رنگوں کے رنگوں سے دستکاری آرٹیکل میں جس طرح خوبصورت فوٹوگرافی کی گئی ھۓ اس کا جواب نھین۔ عمدہ الفاظوں میں احساسوں کا مجموعہ ھۓ۔ ابوبکر شیخ کا یہ آرٹیکل۔
NASIM RAZA Feb 15, 2016 10:13pm
Yeh tehreer app ki appni khobsorat shakishat ki akassi kurty hay. Shokria.
Burhan Feb 16, 2016 03:10am
Excellent article. معاشرے کفر پر قائم رہ سکتے ہیں مگر ظلم اور نا انصافی پر نہیں۔
Dr.Salim Haidrani Feb 16, 2016 03:10am
This is another Pakistan. I do not know how Abubakr Sahib discovered this Pakistan. Elites of Pakistan, Establishment and the Political Academy of Pakistan - I mean,the Political ruling class and the Parliament of Pakistan, have completely forgotten these people and their poverty, education, their Present and their Future too. Thank Abubakar Sahib remembering and travelling to meet these people.
Sadam Laghari Feb 16, 2016 08:18am
Thar: dard ke rangon se dastkari buht achha artical hay. abubaker shaik mery favourite writer ban gay hain. sadam laghari tando bago
Tolaram Feb 16, 2016 09:55am
Buhat khoob saeen...
Manzoor Memon Feb 16, 2016 02:48pm
Mashallah, Whatever these people are doing is inexpressible in words.
عبدالعزیز کھوسو Feb 16, 2016 04:49pm
ماشاءاللہ سائیں بہت خوب لکھا ہے آپ نے۔۔۔تھر لے مروئڑوں کی کہانی جہاں دلچسپ ہے،وہیں دکھ بھری اور غمگین بھی کر دیتی ہے۔۔۔۔شال مولا کرے تھر آباد رہے،اور تھر کے رہواسی سکھی رہیں۔۔آمین
ashok ramani Feb 16, 2016 05:41pm
boht e umda likha h
solani Feb 16, 2016 10:17pm
May Malala se guzarish karta hu ke Thar ke elake me baco ke lea (school) banae. Wahan (solar energy) ka hona bhi bahot zaruri hai.